اختر شیرانی

  1. سیما علی

    اختر شیرانی نہ ساز و مطرب نہ جام و ساقی نہ وہ بہار چمن ہے باقی

    نہ ساز و مطرب نہ جام و ساقی نہ وہ بہار چمن ہے باقی نگاہ شمع سحر کے پردے یہ نقشۂ انجمن ہے باقی زمانہ گزرا وہ یاسمن بو جدا ہوئی ہمکنار ہو کر مگر ابھی تک ہمارے پہلو میں نکہت یاسمن ہے باقی بھلا چکی دل سے شام غربت ہر ایک نقشہ ہر ایک صورت ہماری آنکھوں میں لیکن اب تک فروغ صبح وطن ہے باقی...
  2. فہد اشرف

    نظم: اختر شیرانی

    الغرض فلسفۂ ذوقِ جوانی یہ ہے کہ جوانی نہ لٹائی جائے مئے پارینہ کی خوبی کی نشانی یہ ہے مدتوں تک وہ چھپائی جائے عصمت اور اس کے مظاہر کی کہانی یہ ہے شاعروں کو نہ سنائی جائے مذہبِ شعر کی الہام نشانی یہ ہے معصیت خوب بڑھائی جائے (اختر شیرانی)
  3. طارق شاہ

    اختر شیرانی :::::آشنا ہوکر، تغافُل آشنا کیوں ہوگئے:::::Akhtar -Shirani

    غزل اخترؔ شیرانی آشنا ہوکر، تغافُل آشنا کیوں ہوگئے باوَفا تھے تُم تو، آخر بیوَفا کیوں ہو گئے اُن وَفاداری کے وعدوں کو، الٰہی! کیا ہُوا وہ وَفائیں کرنے والے، بیوِفا کیوں ہوگئے تُم تو کہتے تھے کہ، ہم تُجھ کو نہ بُھولیں گے کبھی بُھول کر ہم کو، تغافُل آشنا کیوں ہوگئے کِس طرح، دِل سے بُھلا بیٹھے...
  4. فرحان محمد خان

    اختر شیرانی نظم : مامتا - اختر شیرانی

    مامتا وہ جذبہ جو نسائی جذبوں کی مُنتہا ہے دُنیا میں نام اس کا اک ماں کی مامتا ہے آغوشِ ناز گنجِ اقبال سے بھرا ہے یا خوابِ رُوح مستِ تعبیر ہو رہا ہے رہ رہ کے مامتا کا اظہار کر رہی ہے بے تاب ہو رہی ہے اور پیار کر رہی ہے جذبات مادری کا اعجاز کہئے اس کو روحانیت سے لبریز اک ساز کہئے اس کو...
  5. فرحان محمد خان

    اختر شیرانی غزل : آؤ بے پردہ تمہیں جلوۂ پنہاں کی قسم - اختر شیرانی

    غزل آؤ بے پردہ تمہیں جلوۂ پنہاں کی قسم ہم نہ چھیڑیں گے ، ہمیں زلفِ پریشاں کی قسم چاکِ داماں کی قسم ، چاکِ گریباں کی قسم ہنسے والے تجھے اس حالِ پریشاں کی قسم میرے ارمان سے واقف نہیں، شرمائیں گے آپ آپ کیوں کھاتے ہیں ناحق مرے ارماں کی قسم نیند آئی نہ کبھی تجھ سے بچھڑ کر ظالم اپنی آنکھوں کی قسم،...
  6. گ

    اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں

    رومانی نظم نگار اور غزل گو شاعر محمد داؤد خان *اختر شیرانی* (ولادت: 4 مئی 1905 ٹونک راجستھان،برطانوی ہند، وفات: 9 ستمبر 1948، لاہور، پاکستان) کی شاہکار نظم: اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم بھولے ہؤوں کو یاد نہ کر! پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم، تو اور ہمیں ناشاد نہ کر! قسمت کا ستم ہی کم نہیں...
  7. فہد اشرف

    اختر شیرانی ایک نوجوان بت تراش کی آرزو

    ایک نوجوان بت تراش کی آرزو ایک ایسا بت بناؤں کہ دیکھا کروں اسے آسودہ ہے خیال کا پیکر بنا ہوا خواب عدم میں مست ہے جوہر بنا ہوا اک مرمریں حجاب سے پیدا کروں اسے ————————————— پھولوں میں جیسے جذبۂ نکہت نہفتہ ہو یا جلوے بیقرار ہوں آغوش رنگ میں یوں اُس کی روح خفتہ ہے دامانِ سنگ میں ظلمت میں جیسے نور...
  8. فہد اشرف

    اختر شیرانی کلوپیٹرا

    کلوپیٹرا وادئ نیل پہ طاری تھا بہاروں کا سماں جلوۂ سبزۂ گل سے تھیں فضائیں شاداب نشۂ بادِ بہاری سے ہوائیں شاداب محوِ پرواز تھا رنگین ستاروں کا سماں مائلِ رقص ہو جس طرح شراروں کا سماں نورِ انجم سے تھیں وادی کی ادائیں شاداب نکہت و رنگ کی آوارہ گھٹائیں شاداب چار سو بال فشاں میکدہ زاروں کا سماں...
  9. فرخ منظور

    اختر شیرانی سے چند ملاقاتیں ۔ تحریر: سعادت حسن منٹو

    اختر شیرانی سے چند ملاقاتیں تحریر: سعادت حسن منٹو خدا معلوم کتنے برس گزر چکے ہیں۔ حافظہ ا س قد ر کمزور ہے کہ نام، سن اور تاریخ کبھی یاد ہی نہیں رہتے۔ امرتسر میں غازی عبدالرحمن صاحب نے ایک روزانہ پرچہ’’ مساوات‘‘ جاری کیا۔ اس کی ادارت کے لئے باری علیگ(مرحوم) اور ابو العلاء چشتی الصحافی(حاجی لق...
  10. فرخ منظور

    اختر شیرانی نذر عقیدت ۔ اختر شیرانی

    نذر عقیدت (”فسانہ غم دل“ کے جواب میں) کہاں تلک غمِ دل کو نہ آشکار کروں؟ زبان بند رکھوں ، صبر اختیار کروں! ”فسانہء غمِ دل“ پڑھ کے رو رہا ہوں میں نہیں یہ تاب کہ کچھ عرض حالِ زار کروں! بجائے خامہ مجھے چاہئے زبانِ سرشک کہ شرحِ سوزِ غمِ روح...
  11. فرخ منظور

    اختر شیرانی اعترافِ محبت ۔ اختر شیرانی

    اعترافِ محبت لو آؤ کہ راز پنہاں کو رسوائے حکایت کرتا ہوں! دامان زبان خامشی کو لبریز شکایت کرتا ہوں! گھبرا کے ہجوم غم سے آج افشائے حقیقت کرتا ہوں اظہا ر کی جرات کر تا ہوں میں تم سے محبت کر تا ہوں فکر آباد دنیا میں مری، اک مسجود افکار ہو تم! شعرستان ہستی میں مری، اک معبود اشعار ہو تم! اور میرے...
  12. فرخ منظور

    اختر شیرانی کبھی کچھ، کبھی کچھ ۔ اختر شیرانی

    کبھی کچھ، کبھی کچھ کبھی سوچتا ہوں کہ تلوار اُٹھاؤں سپاہی بنوں اور میداں میں پہنچوں اور اعدائے ملّت کو نیچا دِکھاؤں میں شیروں کی صورت نیستاں میں پہنچوں کبھی سوچتا ہوں کہ شاعر بنوں میں تڑپ اُٹھے دنیا ، وہ اشعار لکھوں قلم کی خدائی کا ساحر بنوں...
  13. فرخ منظور

    اختر شیرانی رخصت دائمی ۔ اختر شیرانی

    رخصت دائمی قرار چھین لیا بے قرار چھوڑ گئے بہار لے گئے ، یادِ بہار چھوڑ گئے ہماری چشمِ حزیں کا خیال کچھ نہ کیا وہ عمر بھر کے لئے اشکبار چھوڑ گئے جسے سمجھتے تھے اپنا وہ اتنی مدت سے اسی کو آج وہ بیگانہ وار چھوڑ گئے رگوں میں اِک...
  14. فرخ منظور

    اختر شیرانی ننھا مہمان ۔ اختر شیرانی

    ننھا مہمان سارے گھر میں نو بہارِ زندگی لایا ہے تُو! میرے ننھے میہماں کس دیس سے آیا ہے تُو؟ کس بہشتِ حُسن میں اب تک تھا کاشانہ ترا؟ میرے اُجڑے باغ میں کیوں کر ہوا آنا ترا؟ کس زباں میں چپکے چپکے گفتگو کرتا ہے تُو؟ کون جانے کس طرح کی ہاؤ ہُو...
  15. فرخ منظور

    اختر شیرانی وہ مرے دل کا حال کیا جانے! ۔ اختر شیرانی

    وہ مرے دل کا حال کیا جانے! سوزِ رنج و ملال کیا جانے! ہر قدم فتنہ ہے ، قیامت ہے آسماں تیری چال کیا جانے صبر کو سب کمال کہتے ہیں عاشقی یہ کمال کیا جانے خون ہوتا ہے کس کی حسرت کا میرا رنگیں جمال کیا...
  16. فرخ منظور

    اختر شیرانی اب ناصحِ ناداں کے سمجھانے کو کیا کہیے ۔ اختر شیرانی

    اب ناصحِ ناداں کے سمجھانے کو کیا کہیے دیوانہ ہے دیوانہ ، دیوانے کو کیا کہیے دو چاند ہیں پہلو میں اب چاند کہیں کس کو ساقی کو اگر کہیے پیمانے کو کیا کہیے آدابِ محبت سے تھا دُور ترا شکوہ ایامِ جدائی کے افسانے کو کیا کہیے ہر جبنشِ...
  17. فرخ منظور

    اختر شیرانی ہزار ضبط کروں ، زار زار روتا ہوں ۔ اختر شیرانی

    ہزار ضبط کروں ، زار زار روتا ہوں کسی کی یاد میں بے اختیار روتا ہوں مثالِ برقِ فروزاں جنوں میں ہنستا ہوں برنگِ دیدۂ ابرِ بہار روتا ہوں کسی کی یاد میں آنسو بہائے تھے نہ کبھی میں آج کیوں میرے پروردگار روتا ہوں مآلِ بزم شبانہ کا داغ ہے دل پر چراغِ...
  18. فرخ منظور

    اختر شیرانی آئینہ خانے میں اُن کے حُسن کے جوہر کُھلے ۔ اختر شیرانی

    آئینہ خانے میں اُن کے حُسن کے جوہر کُھلے در کے کُھلتے ہی ہزاروں جنّتوں کے در کُھلے شام کو یہ کون سر مستِ پرستش نازنیں شمع تھامے چاہتی ہے، بُتکدے کا در کُھلے بن رہی ہے آج تک وہ حُور، تصویرِ حیا دیکھئے کب تک کُھلے ، کیسے کُھلے، کیونکر...
  19. فرخ منظور

    اختر شیرانی لاکھ بہلائیں طبیعت کو بہلتی ہی نہیں ۔ اختر شیرانی

    لاکھ بہلائیں طبیعت کو بہلتی ہی نہیں دل میں اِک پھانس چبھی ہے کہ نکلتی ہی نہیں قاعدہ ہے کہ جو گرتا ہے سنبھل جاتا ہے دل کی حالت وہ گری ہے کہ سنبھلتی ہی نہیں رنگ کیا کیا فلکِ پیر نے بدلے لیکن میری تقدیر ، کہ یہ رنگ بدلتی ہی نہیں کس کو کہتے ہیں...
  20. فرخ منظور

    اختر شیرانی پھر وہی شہر ، وہی کُوئے بُتاں سامنے ہے! ۔ اختر شیرانی

    پھر وہی شہر ، وہی کُوئے بُتاں سامنے ہے! پھر وہی دِیر، وہی بزمِ مغاں سامنے ہے! پھر وہی مست بہاریں ہیں مری راتوں پر پھر اسی طرح ، صفِ گُل بدناں سامنے ہے! پھر مری غمزدہ آنکھوں میں خوشی ہے رقصاں پھر مراگم شدہ رُویائے جواں سامنے ہے! پھر مرے لب پہ ہیں اشعار...
Top