بُرا ہے شاد کو ناشاد کرنا
سمجھ کر، سوچ کر بیداد کرنا
نہیں آتا ہمیں برباد کرنا
یہ پھر کہنا، یہ پھر ارشاد کرنا
عدو کے غم میں یوں فریاد ہر وقت
بھلا دوں گا تجھے میں یاد کرنا
مرے صیاد کو اک کھیل ٹھہرا
پھنسا کر دام میں آزاد کرنا
جو آنکھوں میں ہے، دل میں ہو وہی نور
الٰہی دونوں گھر آباد کرنا
رہے...
دم نہیں، دل نہیں، دماغ نہیں
کوئی دیکھے تو اب وہ داغ نہیں
گر قناعت نہیں ہے انساں کو
کبھی حاصل اسے فراغ نہیں
ایسے ویرانے میں وہ کیوں آئیں
خانۂ دل ہے خانہ، باغ نہیں
بات کرنی تو بار ہے تم کو
بات سننے کا بھی دماغ نہیں
تھی زمانے میں روشنی جس کی
ہائے اس گھر میں اب چراغ نہیں
مست کر دے نگاہ سے ساقی...
بے داد و جور و لطف و ترحم سے کیا غرض
تم کو غرض نہیں، تو ہمیں تم سے کیا غرض
کیوں ہم شبِ فراق میں تارے گنا کریں
ہم کو شمارِ اختر و انجم سے کیا غرض
کوئی ہنسا کرے، تو بلا سے ہنسا کرے
کیوں دل جلائیں، برقِ تبسم سے کیا غرض
لیتے ہیں جاں نثار کوئی منتِ مسیح
جو ہو شہیدِ عشق اسے قم سے کیا غرض
جو...
غزل
داؔغ دہلوی
دِل گیا اُس نے لِیا ہم کیا کریں
جانے والی چیز کا غم کیا کریں
ہم نے مرکر ہجر میں پائی شفا
ایسے اچّھوں کا وہ ماتم کیا کریں
اپنے ہی غم سے نہیں مِلتی نِجات !
اِس بِنا پر، فِکرِ عالَم کیا کریں
ایک ساغر پر ہے اپنی زندگی !
رفتہ رفتہ اِس سے بھی کم کیا کریں
کرچُکے سب اپنی اپنی...
غزل
داغ دہلوی
کوئی پھرے نہ قول سے، بس فیصلہ ہُوا
بَوسہ ہمارا آج سے، دِل آپ کا ہُوا
اِس دِل لگی میں حال جو دِل کا ہُوا، ہُوا
کیا پُوچھتے ہیں آپ تجاہل سے کیا ہُوا
ماتم، ہمارے مرنے کا اُن کی بَلا کرے
اِتنا ہی کہہ کے چُھوٹ گئے وہ، بُرا ہُوا
وہ چھٹتی دیکھتے ہیں ہَوائی جو چرخ پر
کہتے ہیں مجھ...
غزل
داغ دہلوی
جَو سر میں زُلف کا سودا تھا ، سب نِکال دِیا
بَلا ہُوں میں بھی، کہ آئی بَلا کو ٹال دِیا
یقیں ہے ٹھوکریں کھاکھا کے کُچھ سنْبھل جائے
کہ اُس کی راہ میں، ہم نے تو دِل کو ڈال دیا
جہاں میں آئے تھے کیا رنج ہی اُٹھانے کو ؟
الٰہی تُو نے ہمَیں کِس بَلا میں ڈال دِیا
خُدا کرِیم ہے...
غزل
(داغ دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ)
لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تیرا
اپنے دل کو بھی بتاؤں نہ ٹھکانا تیرا
سب نے جانا جو پتا ایک نے جانا تیرا
تو جو اے زلف پریشان رہا کرتی ہے
کس کے اُجڑے ہوئے دل میں ہے ٹھکانا تیرا
آرزو ہی نہ رہی صبحِ وطن کی مجھ کو...
نہ ہوا یوں گنہ ثواب کے ساتھ
آبِ زم زم نہ تھا شراب کے ساتھ
دن گزرتے ہیں کس عذاب کے ساتھ
وہ زمانہ گیا شباب کے ساتھ
رہ گئی دل کی آرزو دل میں
موت ہی آ گئی جواب کے ساتھ
غیر کو دے کے جام مجھ کو دیا
خونِ دل بھی پیا شراب کے ساتھ
غیر اٹھ جائے کاش دنیا سے
سرِ محفل ترے حجاب کے ساتھ
وصل میں کشمکش سے ان...
غزل
(حسن بریلوی)
حُسن جب مقتل کی جانب تیغِ برّاں لے چلا
عشق اپنے مجرموں کو پا بہ جُولاں لے چلا
چُھٹ گیا دامن کلیجہ تھام کر ہم رہ گئے
لے چلا دل چھین کر وہ دشمنِ جاں لے چلا
آرزوئے دیدِ جاناں بزم میں لائی مجھے
بزم سے میں آرزوئے دیدِ جاناں لے چلا
بے مروّت ناوک افگن آفریں صد آفریں
دل کا دل زخمی...
رگِ جاں سے نزدیک ہے میری جاں تُو
مگر پھر جو دیکھا کہاں میں کہاں تُو
حقیقت میں ہے ماسویٰ چیز ہی کیا؟
اِدھر تو اُدھر تو یہاں تو وہاں تُو
نہ تو مجھ کو چھوڑے نہ میں تجھ کو چھوڑوں
وہیں تو جہاں میں ، وہیں میں جہاں تُو
حفیظ اور حافظ بھی ہے نام تیرا
نگہبان ہے اور ہے پاسباں تُو
وظیفہ جو تجھ کو نہیں...
شرابِ ناب ہے ہر رنگ کی اپنے پیالے میں
وہ طرّہ کونسا گل میں ہے کیا ہے شاخِ لالے میں
فغاں میں آہ میں فریاد میں شیوہ میں نالے میں
سناؤں دردِ دل طاقت اگر ہو سننے والے میں
نہ کیوں ہولاکھ مستانہ ادائیں میرے نالے میں
گدائے میکدہ ہوں ہر طرح کی ہے پیالے میں
بغل میں دل نہیں معشوق ہے اور وہ بھی ہے تم سا...
ہجرِ جاناں میں گئی جان بڑی مشکل سے
میری مشکل ہوئی آسان بڑی مشکل سے
ضعف تھا ما نع آرائش ِوحشت کیا کیا
ہاتھ آیا ہے گریبان بڑی مشکل سے
بھولے بھالے ہیں فرشتوں کو کوئی پھسلا دے
مانتا ہے مگر انسان بڑی مشکل سے
جب کسی زلف ِپریشاں کا خیال آتا ہے
جمع پھر ہوتے ہیں اوسان بڑی مشکل سے
دشتِ الفت نہیں بازی...
پند نامہ
داغ دہلوی
اپنے شاگردوں کی مجھ کو ہے ہدایت منظور
کہ سمجھ لیں وہ تہِ دل سے بجا و بے جا
چست بندش ہو، نہ ہو سُست، یہی خُوبی ہے
وہ فصاحت سے گِرا، شعر میں جو حرف دبا
عربی، فارسی الفاظ جو اردو میں کہیں
حرفِ علت کا بُرا اِن میں ہے گرنا، دبنا
الف وصل اگر آئے تو کچھ عیب نہیں
پھر بھی الفاظ میں...
ثبات بحرِ جہاں میں اپنا فقط مثالِ حباب دیکھا
نہ جوش دیکھا ، نہ شور دیکھا ، نہ موج دیکھی ، نہ آب دیکھا
ہماری آنکھوں نے بھی تماشا عجب انتخاب دیکھا
برائی دیکھی ، بھلائی دیکھی ، عذاب دیکھا ، ثواب دیکھا
نہ دل ہی ٹھہرا ، نہ آنکھ جھپکی ، نہ چین پایا ، نہ خواب آیا
خدا دکھائے نہ دشمنوں کو جو دوستی میں...
گلے مِلا ہے وہ مستِ شباب برسوں میں
ہُوا ہے دل کو سُرورِ شراب برسوں میں
خُدا کرے کہ مزا اِنتظار کا نہ مِٹے
مِرے سوال کا وہ دیں جواب برسوں میں
بچیں گے حضرتِ زاہد کہیں بغیر پیے
ہمارے ہاتھ لگے ہیں جناب برسوں میں
حیا و شرم تمہاری گواہ ہے اِس کی
ہُوا ہے آج کوئی کامیاب برسوں میں
یہ ضُعفِ دل ہی کی...
تقلید سے زاہد کی حاصل ہمیں کیا ہوتا
انساں نہ ملک بنتا، بندہ نہ خدا ہوتا
توبہ ہے حسینوں کو گر پاسِ وفا ہوتا
کیا جانیے کیا کرتے، کیا جانیے کیا ہوتا
تم لطف اگر کرتے تو حال زمانے کا
ایسا ہی ہوا ہوتا، ایسا نہ ہوا ہوتا
ساقی تری محفل میں چرچا ہی نہیں مے کا
اس سے تو یہ بہتر تھا کچھ ذکرِ خدا ہوتا
دل...
غزلِ
داغ دہلوی
وہ زمانہ نظر نہیں آتا
کچھ ٹِھکانا نظر نہیں آتا
جان جاتی دِکھائی دیتی ہے
اُن کا آنا نظر نہیں آتا
عِشق در پردہ پُھونکتا ہے آگ
یہ جَلانا نظر نہیں آتا
اِک زمانہ مری نظر میں رہا
اِک زمانہ نظر نہیں آتا
دِل نے اُس بزم میں بٹھا تو دِیا
اُٹھ کے جانا نظر نہیں آتا
رہیے مُشتاق...
غزلِ
داغ دہلوی
پھر کہیں چُھپتی ہے ظاہر، جب محبّت ہوچُکی
ہم بھی رُسوا ہوچُکے اُن کی بھی شُہرت ہوچُکی
دیکھ کر آئینہ، آپ ہی آپ وہ کہنے لگے !
شکل یہ پریوں کی، یہ حوُروں کی صُورت ہوچکی
مر گئے ہم مر گئے، اِس ظُلم کی کچھ حد بھی ہے
بے وفائی ہوچُکی، اے بے مروّت! ہوچُکی
کثرتِ ناز و ادا نے صبر...
داغ دہلوی
ہم تو نالے بھی کِیا کرتے ہیں آہوں کے سِوا
آپ کے پاس ہیں کیا؟ تیز نِگاہوں کے سِوا
معذرت چاہیے کیا جُرمِ وَفا کی اُس سے
کہ گُنہ عُذر بھی ہے، اور گُناہوں کے سِوا
میں نہیں کاتبِ اعمال کا قائل، یا رب !
اور بھی کوئی ہے اِن دونوں گواہوں کے سِوا
حضرتِ خِضر کریں دشت نوَردی بیکار !
ہم...
جس وقت آئے ہوش میں کُچھ بے خودی سے ہم
کرتے رہے خیال میں باتیں اُسی سے ہم
ناچار تم ہو دِل سے تو مجبُور جی سے ہم
رکھتے ہو تم کسی سے محبّت، کسی سے ہم
پُوچھے نہ کوئی ہم کو، نہ بولیں کسی سے ہم
کنُجِ لحد میں جاتے ہیں کِس بے کسی سے ہم
نقشِ قدم پہ آنکھیں مَلیں مَل کے چل دیے
کیا اور خاک لے گئے تیری...