جس نے ہمارے دل کا نمونہ دکھا دیا
اُس آئینہ کو خاک میں اُس نے مِلا دیا
معشوق کو اگر دلِ بے مدعا دیا
پوچھے کوئی خُدا سے کہ عاشق کو کیا دیا
بے مانگے دردِعشق وغم جاںگزا دیا
سب کُچھ ہمارے پاس ہے اللہ کا دیا
ناوک ابھی ہے شست میں صیاد کے مگر
اُٹھتی ہیں اُنگلیاں وہ نشانہ اُڑا دیا...
بُتوں نے ہوش سنبھالا جہاں شعور آیا
بڑے دماغ بڑے ناز سے غرور آیا
اُسے حیا اِدھر آئی اُدھر غرور آیا
میرے جنازے کے ہمراہ دور دور آیا
زُباں پہ اُن کےجو بھولے سےنامِ حور آیا
اُٹھا کے آئینہ دیکھا وہیں غرور آیا
تُمھاری بزم تو ایسی ہی تھی نشاط افزا
رقیب نے بھی اگر پی مجھے سرور آیا
کہاں کہاں دل...
اسی زمین میں حضرت امیر مینائی کی ایک غزل "تند مے اور ایسے کمسن کے لیے" ہم نے کچھ عرصہ قبل ارسال کی تھی۔ آج حضرت داغ دہلوی کی غزل ملاحظہ فرمائیں:
تم نے بدلے ہم سے گن گن کے لیے
ہم نے کیا چاہاتھا اس دن کے لیے
کچھ نرالا ہے جوانی کا بناؤ
شوخیاں زیور ہیں اس سن کے لیے
وصل میں تنگ آ کے وہ کہنے لگے...
بزمِ دشمن میں نہ کھلنا گلِ تر کی صورت
جاؤ بجلی کی طرح آؤ نظر کی صورت
نہ مٹانے سے مٹی فتنہ و شر کی صورت
نظر آتی نہیں اب کوئی گذر کی صورت
سوچ لے پہلے ہی تو نفع و ضرر کی صورت
نامہ بر تجھ کو بھلا دیں گے وہ گھر کی صورت
کیا خبر کیا ہوئی فریاد و اثر کی صورت
کہ ادھر کب نظر آتی ہے ادھر کی صورت...
اس کعبہِ دل کو کبھی ویران نہیں دیکھا
اُس بت کو کب اللہ کا مہماں نہیں دیکھا
کیا ہم نے عذابِ شبِ ہِجراں نہیں دیکھا
تُم کو نہ یقیں آئے تو ہاں ہاں نہیں دیکھا
کیا تو نے میرا حال پریشاں نہیں دیکھا
اس طرح سے دیکھا کہ میری جاں نہیں دیکھا
جب پڑا وصل میں شوخی سے کسی کا
پھر ہم نے گریباں کو گریباں...
بشکریہ اشہد سید
حاسد لگے ہوئے ہیں اسی اک سراغ میں
آتا کہاں سے تیل ہے اس کے چراغ میں
دو چار شعر پر انہیں کچھ داد کیا ملی
وہ عیب ڈھونڈنے لگے غالب میں داغ میں
(حامد بھنسالوی)
کب وہ چونکے جو شرابِ عشق سے مستانہ ہے
شورِ محشر اس کو بہرِ خواب اِک افسانہ ہے
پھر سرِ شوریدہ پُر جوشِ جنوں دیوانہ ہے
پھر دلِ تفسیدہ پر برقِ بلا پروانہ ہے
خوب ہی چلتی ہوئی وہ نرگسِ مستانہ ہے
آشنا سے آشنا، بیگانے سے بیگانہ ہے
آتے جاتے ہیں نئے ہر روز مرغِ نامہ بر
بندہ پرور آپ کا گھر بھی کبوتر...
داغ دہلوی کی ایک غزل مستزاد
جب ان سے حالِ دلِ مبتلا کہا، تو کہا ۔ "بچائے تجھ سے خدا"
کچھ اور اس کے سوا مدعا کہا، تو کہا ۔ "ہماری جانے بلا"
کہا جو ان سے کہ ہو سر سے پاؤں تک بے عیب ۔ تو بولے وہ "لاریب"
دغا شعار و ستم آشنا کہا، تو کہا ۔ "ملے گی تجھ کو سزا"
غمِ فراق سنایا تو سن کے فرمایا ۔...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
عیش بھی اندوہ فزا ہوگیا
ہائے طبیعت تجھے کیا ہوگیا
دشمنِ ارباب وفا ہوگیا
دوست بھلا ہوکے بُرا ہوگیا
یاد ہے کہنا وہ کسی وقت کا
ہوش میں آؤ تمہیں کیا ہوگیا
داغ وہ بہتر ہے جو مرہم بنا
درد وہ اچھا جو دوا ہوگیا
آپ سے اقرار کے سچے کہاں
وعدہ کیا اور وفا...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
کوئی کلمہ بھی مرے منہ سے نکلنے نہ دیا
وہ لٹایا مجھے قاتل نے سنبھلنے نہ دیا
نفسِ سَرد کی تاثیر شبِ غم دیکھو
شمع کو تابہ سحر میں نے پگھلنے نہ دیا
بدگماں تھا کہ تپ ہجر نہ کم ہوجائے
اُس نے کافور مری لاش پہ ملنے نہ دیا
اس جفا پر یہ وفا ہے کہ تمہارا...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
کیا کہوں تیرے تغافل نے، حیا نے کیا کیا
اِس ادا نے کیا کیا اور اُس ادا نے کیا کیا
بوسہ لے کر جان ڈالی غیر کی تصویر میں
یہ اثر تیرے لبِ معجز نما نے کیا کیا
یاں جگر پر چل گئیں چھریاں کسی مشتاق کی
واں خبر یہ بھی نہیں ناز و ادا نے کیا کیا
میرے ماتم سے...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
داغ اُس بزم میں مہمان کہاں جاتا ہے
تیرا اللہ نگہبان ، کہاں جاتا ہے
غیر کا شکوہ بھی ہوتا ہے تو کس لطف کے ساتھ
اُن سے تعریف کا عنوان کہاں جاتا ہے
وہ بھی دن یاد ہیں یہ کہہ کے مناتے تھے مجھے
آ اِدھر میں ترے قربان، کہاں جاتا ہے
باغ فردوس میں حوروں نے...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
یہ کیا کہا کہ داغ کو پہچانتے نہیں
وہ ایک ہی تو شخص ہے ، تم جانتے نہیں
بد عہدیوں کو آپ کی کیا جانتے نہیں
کل مان جائیں گے اسے ہم جانتے نہیں
وعدہ ابھی کیا تھا، ابھی کھائی تھی قسم
کہتے ہو پھر کہ ہم تجھے پہچانتے نہیں
چھوٹے گی حشر تک نہ یہ مہندی لگی...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
مجال کس کی ہے اے ستمگر سنائے جو تجھ کو چار باتیں
بھلا کیا اعتبار تونے، ہزار منہ ہیں ہزار باتیں
رقیب کا ذکر وصل کی شب، پھر اُس پہ تاکید ہے کہ سنئے
تمہیں تو اک داستاں ٹھہری، ہمیں یہ ہیں ناگوار باتیں
اُنہیں نہ کیوں عذر درد ِ سر ہو جب اس طرح کا...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
ذرا وصل پر ہو اشارا تمہارا
ابھی فیصلہ ہے ہمارا تمہارا
بتو! دین و دنیا میں کافی ہے مجھ کو
خدا کا بھروسا، سہارا تمہارا
اُن آنکھوں کی آنکھوں سے لوں میں بلائیں
میسر ہے جن کو نظارا تمہارا
محبت کے دعوے ملے خاک میں سب
وہ کہتے ہیں کیا ہے اجارا تمہارا...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ
منظور تو ہے میری ملاقات سے توبہ؟
بیعت بھی جو کرتا ہے، تو وہ دستِ سبو پر
چکراتی ہے کیا رندِ خرابات سے توبہ؟
خود ہم نہ ملیں گے نہ کہیں جائیں گے مہماں
کی آپ نے واللہ نئی گھات سے توبہ
وہ آئی گھٹا جھوم کے للچانے...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
لطف آرام کا نہیں ملتا
آدمی کام کا نہیں ملتا
کیسے حاضر جواب ہو کہ جواب
میرے پیغام کا نہیں ملتا
اُس نے جب شام کا کیا وعدہ
پھر پتہ شام کو نہیں ملتا
جستجو میں بہت ہے وہ کافر
بھید اسلام کا نہیں ملتا
مل گیا میں تمہیں وگرنہ غلام
کوئی بے دام کا نہیں...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
ستم ہے کرنا، جفا ہے کرنا، نگاہِ اُلفت کبھی نہ کرنا
تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی، ہمارے حق میں کمی نہ کرنا
ہماری میّت پہ تم جو آنا تو چار آنسو گرا کے جانا
ذرا ہے پاس آبرو بھی کہیں ہماری ہنسی نہ کرنا
کہاں کا آنا کہاں کا جانا، وہ جانتے ہیں تھیں یہ رسمیں...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
دل پُر اضطراب نے مارا
اسی خانہ خراب نے مارا
میری آنکھوں سے ہے عیاں پسِ مرگ
نرگسِ نیم خواب نے مارا
دیکھ لینا کہ حشر کا میدان
میرے حاضر جواب نے مارا
یاد کرتے ہو غیر کے اشعار
ہائے اس انتخاب نے مارا
دل لگاوٹ نے کردیا بسمل
اور پھر اجتناب نے...