کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر
کبھی کبھی یاد میں اُبھرتے ہیں نقشِ ماضی مٹے مٹے سے
وہ آزمائش دل و نظر کی، وہ قُربتیں سی، وہ فاصلے سے
کبھی کبھی آرزو کے صحرا میں، آ کے رُکتے ہیں قافلے سے
وہ ساری باتیں لگاؤ کی سی، وہ سارے عُنواں وصال کے سے
نگاہ و دل کو قرار کیسا، نشاط و غم میں کمی کہاں کی
وہ جب ملے ہیں...
فیض احمد فیضؔ کی ایک غیر مطبوعہ غزل
اب کہاں رسم ہے لٹانے کی
برکتیں تھیں شراب خانے کی
کون ہے جس سے گفتگو کیجے
جان دینے کی، دل لگانےکی
بات چھیڑی تو اُٹھ گئی محفل
اُن سے جو بات تھی بتانے کی
ساز اٹھایا تو تھم گیا غمِ دل
رہ گئی آرزو سنانے کی
چاند پھر آج بھی نہیں نکلا
کتنی حسرت تھی اُن کے آنے کی...
غزل
تیری صُورت جو، دِل نشیں کی ہے!
آشنا ، شکل ہر حَسِیں کی ہے
حُسن سے دِل لگا کے، ہستی کی!
ہر گھڑی ہم نے آتشِیں کی ہے
صُبح ِگُل ہو، کہ شامِ میخانہ
مدح ، اُس رُوئے نازنِیں کی ہے
شیخ سے بے ہراس ملتے ہیں
ہم نے، توبہ ابھی نہیں کی ہے
ذکرِ دوزخ بیانِ حُور و قصُور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
اشک...
اس حسن کے نام پہ یاد آئے سب منظر فیض کی نظموں کے
وہی رنگِ حنا، وہی بندِ قبا، وہی پھول کُھلے پیراہن میں
کچھ وہ جنہیں ہم سے نسبت تھی ان کوچوں میں آن آباد ہوئے
کچھ عرش پہ تارے کہلائے،کچھ پھول بنے جا گلشن میں
ہم لوگوں کے آنے سے پہلے بھی تم لوگ ادھر سے گزرتے تھے
کبھی پھول بھی دیکھے غرفوں میں، کبھی...
آج یوں موج در موج غم تھم گیا، اس طرح غم زدوں کو قرار آگیا
جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آگئی، جیسے پیغامِ دیدارِ یار آگیا
جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم، رُو بُرو پھر سرِ رہگزار آگیا
صبحِ فردا کو پھر دل ترسنے لگا ، عمرِ رفتہ ترا اعتبار آگیا
رُت بدلنے لگی رنگِ دل دیکھنا ، رنگِ گلشن سے اب حال کھلتا...
کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہوگی
کب جان لہو ہوگی، کب اشک گہر ہوگا
کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہوگی
کب مہکے گی فصلِ گل، کب بہکے گا میخانہ
کب صبحِ سخن ہوگی، کب شامِ نظر ہوگی
واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہوگی...
گرمیء شوقِ نظارا کا اثر تو دیکھو
گل کھِلے جاتے ہیں وہ سایہء در تو دیکھو
ایسے ناداں بھی نہ تھے جاں سے گزرنے والے
ناصحو ، پندگرو، راہگزر تو دیکھو
وہ تو وہ ہے، تمہیں ہوجائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو
وہ جو اب چاک گریباں بھی نہیں کرتے ہیں
دیکھنے والو کبھی اُن کا جگر تو...
قرضِ نگاہِ یار ادا کر چکے ہیں ہم
سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہیں ہم
کچھ امتحانِ دستِ جفا کر چکے ہیں ہم
کچھ اُن کی دسترس کا پتا کر چکے ہیں ہم
اب احتیاط کی کوئی صورت نہیں رہی
قاتل سے رسم و راہ سِوا کر چکے ہیں ہم
دیکھیں ہے کون کون، ضرورت نہیں رہی
کوئے ستم میں سب کو خفا کر چکے ہیں ہم
اب اپنا...
ایک حیرت کے ساتھ پیشِ حدمت ہے آئے کچھ ابر، کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
(ق)
بامِ مینا سے ماہتاب اُترے
دستِ ساقی میں، آفتاب آئے
ہر رگِ خوں میں پھر چراغاں ہو
سامنے پھر وہ بے نقاب آئے
عمر کے ہر ورق پہ دل کو نظر
تیری مہر و وفا کے باب آئے
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
نہ...
رنگ پیراہن کا، خُوشبو زلف لہرانے کا نام
موسمِ گُل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
دوستو ، اُس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر
گلستاں کی بات رنگیں ہے، نہ میخانے کا نام
پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اُس بزم میں جانے کا نام
(ق)
دِلبری ٹھہرا زبانِ خلق کھلوانے کا نام
اب...
وہیں ہے دل کے قرائن تمام کہتے ہیں
وہ اِک خلش کہ جسے تیرا نام کہتے ہیں
تم آرہے ہو کہ بجتی ہیں میری زنجیریں
نہ جانے کیا مرے دیوار و بام کہتے ہیں
یہی کنارِ فلک کا سیہ تریں گوشہ
یہی ہے مطلعِ ماہِ تمام کہتے ہیں
پیو کہ مفت لگا دی ہے خونِ دل کی کشید
گراں ہے اب کے مئے لالہ فام کہتے ہیں
فقیہہِ شہر سے...
نذرِ غالبؔ
کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں
پھر آج کوئے بتاں کا ارادہ رکھتے ہیں
بہار آئے گی جب آئے گی، یہ شرط نہیں
کہ تشنہ کام رہیں گرچہ بادہ رکھتے ہیں
تری نظر کا گلہ کیا؟ جو ہے گلہ دل کا
تو ہم سے ہے، کہ تمنا زیادہ رکھتے ہیں
نہیں شراب سے رنگیں تو غرقِ خوں ہیں کہ ہم
خیالِ وضعِ قمیص و لبادہ...
ہر حقیقت مجاز ہو جائے
کافروں کی نماز ہو جائے
دل رہینِ نیاز ہو جائے
بے کسی کار ساز ہو جائے
منتِ چارہ ساز کون کرے
درد جب جاں نواز ہو جائے
عشق دل میں رہے تو رُسوا ہو
لب پہ آئے تو راز ہو جائے
لطف کا انتظار کرتا ہوں
جوڑ تاحدِ ناز ہو جائے
عمر بے سود کٹ رہی ہے فیض
کاش افشائے راز ہو جائے...
حسرتِ دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے
دشتِ اُمید میں گرداں ہیں دوانے کب سے
دیر سے آنکھ پہ اُترا نہیں اشکوں کا عذاب
اپنے ذمّے ہے ترا قرض نہ جانے کب سے
کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب
درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے
سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل
"ڈھونڈتا ہے دلِ شوریدہ بہانے کب سے...
جمے گی کیسے بساطِ یاراں کہ شیشہ و جام بُجھ گئے ہیں
سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سرِ شام بُجھ گئے ہیں
وہ تیرگی ہے رہِ بُتاں میں چراغِ رُخ ہے نہ شمعِ وعدہ
کرن کوئی آرزو کی لاؤ کہ سب در و بام بُجھ گئے ہیں
بہت سنبھالا وفا کا پیماں مگر وہ برسی ہے اب کے برکھا
ہر ایک اقرار مٹ گیا ہے تمام پیغام بُجھ...
کس حرف پہ تو نے گوشۂ لب اے جانِ جہاں غماز کیا
اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا
سو پیکاں تھے پیوست گلو جب چھیڑی شوق کی لے ہم نے
سو تیر ترازو تھے دل میں جب ہم نے رقص آغاز کیا
بے حرص و ہوا بے خوف و خطر اس ہاتھ پہ سر اس کف پہ جگر
یوں کوئے صنم میں وقت سفر نظارۂ بام ناز کیا
جس...
تنہائی
پھرکوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو...
گُل کرو شمعیں!
لفظ خالی ہیں معانی سے پریشاں ہیں خیال
ایک زنجیرِ شکستہ ہیں دماغوں میں سوال
آخرِش خواہشِ پروازسے محرُوم ہُوئی
فکر جو منتظرِ حرفِ اجازت ہی رہی
ہمسفر اپنے رہے صِرف اُمیدوں کے سراب
سوگئے جاگتی آنکھوں میں نئی صُبح کے خواب
خواب شرمندۂ تعبیر بھی ہو سکتے تھے
ہم سِیہ بخت سہی، سُرخ...
پنجابی دے اونھاں بیلیاں لئی جنھاں نوں پُلیکھا پَے گیا اے جُو میں پنجابی دا وَیری آں۔ :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
ریکارڈنگ پرانی اے تے بندہ اناڑی۔ کمی بیشی معاف کریا جے تے اَیندہ لئی ایہہ خیال دلوں کڈھ دیا جے جُو مینوں آپنی بولی نال کسے توں گھٹ پیار اے۔ گل بس اینی کُو اے جُو دوجیاں دا حق مارنا...