یہ جفائے غم کا چارہ ، وہ نَجات دل کا عالم
ترا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم
دل و جاں فدائے راہے کبھی آکے دیکھ ہمدم
سرِ کوئے دل فگاراں شبِ آرزو کا عالم
تری دِید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں
وہ چمن جہاں گِری ہے تری گیسوؤں کی شبنم
یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگزر میں گزراں
نہ ہُوا...
دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں
ایک اک کرکے ہوئے جاتے ہیں تارے روشن
میری منزل کی طرف تیرے قدم آتے ہیں
رقصِ مے تیز کرو ، ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں
کچھ ہمیں کو نہیں احسان اُٹھانے کا دماغ
وہ تو جب آتے ہیں ، مائل بہ...
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوںنہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوںنہیں دیتے
دردِ شبِ ہجراںکی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتئہ ورولاؤ لب و دل کی گواہی
ہاںنغمہ گروسازصدا کیوںنہیںدیتے
مِٹجائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا...
نصیب آزمانے کے دن آرہے ہیں
قریب ان کے آنے کے دن آرہے ہیں
جو دل سے کہا ہے، جو دل سے سنا ہے
سب اُن کو سنانے کے دن آرہے ہیں
ابھی سے دل و جاں سرِ راہ رکھ دو
کہ لٹنے لٹانے کے دن آرہے ہیں
ٹپکنے لگی اُن نگاہوں سے مستی
نگاہیں چرانے کے دن آرہے ہیں
صبا پھر ہمیں پوچھتی پھر رہی ہے
چمن کو...
سب قتل ہوکے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
شمعِ نظر، خیال کے انجم ، جگر کے داغ
جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں
اٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
ہر اک قدم اجل تھا، ہر اک گام زندگی
ہم گھوم پھر کے کوچۂ قاتل سے آئے...
رات آئی ہے شبیر پہ یلغارِ بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مشفق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
یہ خانہء شبیر کی ویرانی کی شب ہے
دشمن کی سپاہ خواب میںمدہوش پڑی تھی
پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
ہر...
اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہي تاروں بھري رات وہی
آج ہم کو نظر آتي ہے ہر ايک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زميں
ايک ہندسے کا بدلنا کوئي جدت تو نہيں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرينے تيرے
کسے معلوم نہيں بارہ مہينے تيرے
جنوري،...
رقیب سے
آکہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے
جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جس کی الفت میں بھُلا رکھی تھی دنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا
آشنا ہے ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر
اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے
کارواں گزرے ہیں جن سے اُسی رعنائی کے
جس کی ان آنکھوں نے بے سود...
دو عشق
(۱)
تازہ ہیں ابھی یاد میں اے ساقئ گلفام
وہ عکسِ رخِ یار سے لہکے ہوئے ایام
وہ پھول سی کھلتی ہوئی دیدار کی ساعت
وہ دل سا دھڑکتا ہوا امید کا ہنگام
امید کہ لو جاگا غم دل کا نصیبہ
لو شوق کی ترسی ہوئی شب ہو گئی آخر
لو ڈوب گئے درد کے بے خواب ستارے
اب چمکے گا بے صبر نگاہوں کا مقدر...
ہارٹ اٹیک
درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بُنِ مُو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور ترے صحن میں گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانہء تن میں گویا
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کُھل کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں...
مجھے تلاش کرنے پر فورم پر یہ فیض کی یہ غزل نہیں ملی، اسی لیے ذیل میں اس کی ویڈیو اور اس کے اشعار پیش کر رہا ہوں۔
[ame]
دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے، تیرے ہونٹوں کے سراب
دشت تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں تیرے پہلو کے سمن اور گلاب
دشت تنہائی میں اے جان...
آج بازار میں پابجولاں چلو
بلا تبصرہ
:(:(:(:(
چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
دست اَفشاں چلو، مست و رقصاں چلو
خاک برسر چلو، خوں بداماں چلو
راہ تَکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو
حاکمِ شہر بھی، مجمعِ عام بھی
تیرِ الزام بھی، سنگِ دشنام بھی...
فیض احمد فیض کی ایک نظم لڑکپن میں سننے کا اتفاق ہوا، بہت پسند آئی تھی۔ البتہ اب پوری طرح یاد نہیں۔ انٹرنیٹ پر بعد از تلاش ایک جگہ سے ملی لیکن میرے خیال میں اس میں کافی غلطیاں ہیں۔ آپ حضرات سے گذارش ہے کہ تصحیح فرما دیں۔ نظم درج ذیل ہے:
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کے ہے زندگی کے...
کلام فیض بزبان ضیا محی الدین
- اس طرح ہے کہ ہر اک پیڑ
- اشک آباد کی شام
- اک ذرا سوچنے دو
- آج اک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال
- آج پھر درد و غم کے
- بام و در خاموشی کے بوجھ
- بہار آئی
- پھر کوئی آیا دل زار
- تم نہ آئے تھے تو ہر چیز
- تم یہ کہتے ہو وہ جنگ
- تیرے ہونٹوں کے پھولوں...
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
درد شب ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خوں دلِ وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟
منصف ہو تو شر اٹھا کیوں نہیں دیتے
ہاں نکتہ ورد لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرہ ساز صدا کیوں نہیں دیتے...
کلامِ تازہ
دلِ من مسافرِ من
مرے دل، مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رُخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یارِ نامہ بر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتا تھا اپنے گھر کا
سرِ کوئے ناشنایاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا...
شامِ شہرِ یاراں
• پیش گفتار (فیض)
• عہدِ طفلی سے عنفوانِ شباب تک (انٹرویو)
• فیض سے میری پہلی ملاقات (صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
• ملامتی صوفی (اشفاق احمد)
• فیض سے میری رفاقت (شیر محمد حمید)
شامِ شہرِ یاراں
(فرمایشیں)
مرثیۂ امام
رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے
دشمن کی سپہ خواب میں مدہوش...
شامِ شہرِ یاراں
فہرست
• سجاد ظہیر کے نام
• اے شامِ مہرباں
• گیت چلو پھر سے مسکرائیں
• ہم تو مجبور تھے اس دل سے
• غزل
• ڈھاکہ سے واپسی پر
• غزل
• بہار آئی
• تم اپنی کرنی کر گذرو
• موری اَرج سنو
• غزل
• غزل
• غزل
• لینن گراڈ کا گورستان
• یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا
• کچھ...