فراق گورکھپوری
غزل
دل افسُردوں کے اب وہ وقت کی گھاتیں نہیں ہوتیں
کسی کا درد اُٹّھے جن میں وہ راتیں نہیں ہوتیں
ہم آہنگی بھی تیری دُورئ قربت نُما نِکلی
کہ تجھ سے مِل کے بھی تجھ سے مُلاقاتیں نہیں ہوتیں
یہ دَورِ آسماں بدلا، کہ اب بھی وقت پر بادل !
برستے ہیں، مگر اگلی سی برساتیں نہیں ہوتیں...
فراق گورکھپوری
غزل
کچھ اپنا آشنا، کیوں اے دلِ ناداں نہیں ہوتا
کہ آئے دن، یہ رنگِ گردشِ دَوراں نہیں ہوتا
ریاضِ دہرمیں جُھوٹی ہنْسی بھی ہم نے دیکھی ہے
گُلِستاں دربغل ہر غنچۂ خنداں نہیں ہوتا
یقیں لائیں تو کیا لائیں، جو شک لائیں توکیا لائیں
کہ باتوں میں تِری سچ جُھوٹ کا اِمکان نہیں ہوتا...
فراق گورکھپوری
غزل
فسُردہ پا کے محبّت کو ، مُسکرائے جا
اب آ گیا ہے تو، اِک آگ سی لگائے جا
اِس اِضطراب میں رازِ فروغ پنہاں ہے
طلوعِ صبْح کی مانِند تھرتھرائے جا
جہاں کو دیگی محبّت کی تیغ آبِ حیات
ابھی کچُھ اور اِسے زہر میں بُجھائے جا
مِٹا مِٹا کے، محبّت سنْوار دیتی ہے
بگڑ بگڑ کے یونہی...
غزل
فراق گورکھپوری
اب اکثر چُپ چُپ سے رہے ہيں، يونہی کبھی لب کھولے ہيں
پہلے فراق کو ديکھا ہوتا، اب تو بہت کم بولے ہيں
دن ميں ہم کو ديکھنے والو، اپنے اپنے ہيں اوقات
جاؤ نہ تم ان خُشک آنکھوں پر، ہم راتوں کو رو لے ہيں
فِطرت ميری عِشق و محبّت، قِسمت ميری تنہائی
کہنے کی نوبت ہی نہ آئی، ہم بھی...
غزل
فراق گورکھپوری
کسی کا یوں تو ہُوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حُسن وعشق تو دھوکہ ہے سب، مگر پھر بھی
ہزار بار زمانہ اِدھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہےکچھ تیری رہگزر پھر بھی
خوشا اشارہٴ پیہم، زہے سکوتِ نظر
دراز ہوکے فسانہ ہے مختصر پھر بھی
جھپک رہی ہے زمان ومکان کی آنکھیں
مگر ہے قافلہ،...
غزل
فراق گورکھپوری
تہوں میں دل کے جہاں کوئی واردات ہوئی
حیاتِ تازہ سے لبریز کائنات ہوئی
تم ہی نے باعثِ غم بارہا کِیا دریافت
کہا تو رُوٹھ گئے یہ بھی کوئی بات ہوئی
حیات، رازِ سُکوں پا گئی ازل ٹہری
ازل میں تھوڑی سی لرزِش ہوئی حیات ہوئی
تھی ایک کاوشِ بے نام دل میں فِطرت کے
سِوا ہوئی...
نوائے فراق
فراق گورکھ پوری
یہ شوخیء نگاہ کسی پر عیاں نہیں
تاثیرِ دردِ عشق کہاں ہے کہاں نہیں
عشق اس طرح مٹا کہ عدم تک نشاں نہیں
آ سامنے کہ میں بھی تو اب درمیاں نہیں
مجھ کو بھی اپنے حال کا وہم و گماں نہیں
تم راز داں نہیں تو کوئی راز داں نہیں
صیّاد اس طرح تو فریبِ سکوں نہ دے
اس درجہ تو...
فراق گورکھپوری کی منتخب رباعیات پیش ہیں، ممکن ہے کہ کچھ وارث کے انتخاب میں بھی شامل ہوں، لیکن تلاش میں اس دھاگے کو ایک ایک صفحہ کر کے دیکھنا پڑے گا۔ اس لئے الگ سے یہاں دے رہا ہوں۔ وارث کو شاید یاد ہو گی کہ کون کون سی رباعیاں وہاں شامل نہیں، ان کو وہاں کاپی کر دیا جائے۔ ای بک میں بناؤں گا تو خود...
دیارِ غیر میں سوزِ وطن کی آنچ نہ پوچھ
خزاں میں صبحِ بہارِ چمن کی آنچ نہ پوچھ
فضا ہے دہکی ہوئی، رقص میں ہیں شعلہء گل
جہاں وہ شوخ ہے اس انجمن کی آنچ نہ پوچھ
قبا میں جسم ہے یا شعلہ زیرِ پردہء ساز
بدن سے لپٹے ہوئے پیرہن کی آنچ نہ پوچھ
کرن سی تیر گئی جس طرف وہ آنکھ اٹھی
نگاہِ شوخِ...
کچھ مضطرب سی عشق کی دنیا ہے آج تک
جیسے کہ حسن کو نہیں دیکھا ہے آج تک
بس اِک جھلک دکھا کے جسے تو گزر گیا
وہ چشمِ شوق محوِ تماشا ہے آج تک
یوں تو اداس غمکدہء عشق ہے مگر
اس گھر میں اِک چراغ سا جلتا ہے آج تک
جس کے خلوصِ عشق کے افسانے بن گئے
تجھ کو اُسی سے رنجشِ بے جا ہے آج تک...
یونس رضا صاحب نے فرمایا تھا کہ انہیں گذشتہ 9 سال سے اس غزل کی تلاش تھی۔
262803
فراق گورکھپوری کی یہ غزل انہی کی نذر
رات بھی نیند بھی کہانی بھی
ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی
ایک پیغامِ زندگانی بھی
عاشقی مرگِ ناگہانی بھی
اس ادا کا تری جواب نہیں
مہربانی بھی سرگرانی بھی
دل کو اپنے بھی...