وحشتیں، خوف، گھٹن، اوڑھ کے سو جاتا ہوں
اور کچھ دل کی لگن اوڑھ کے سو جاتا ہوں
جب بھی یادوں کے دریچوں سے دھواں اٹھتا ہے
اپنی آہوں کی جلن اوڑھ کے سوجاتا ہوں
چھوڑ جاتے ہیں جو احباب میرے آنگن میں
تلخ لفظوں کی چبھن اوڑھ کے سوجاتا ہوں
روز دھرتی کو بناتا ہوں میں بستر اپنا
اور پھر سر پہ گگن...
بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی میرا ہے
آنکھیں بھی میری خوابِ پریشاں بھی میرا ہے
جو ڈوبتی جاتی ہے وہ کشتی بھی ہے میری
جو ٹوٹتا جاتا ہے وہ پیماں بھی میرا ہے
جو ہاتھ اُٹھے تھے وہ سبھی ہاتھ تھے میرے
جو چاک ہو اہے وہ گریباں بھی میرا ہے
جس کی کوئی آواز نہ پہچان نہ منزل
وہ قافلہِ بے سر...
حجرہ جاں میں باغ کی جانب ایک نیا در باز کیا
ہم نے میر سے رو تابی کی بدعت کا آغاز کیا
خوابوں کی پسپائ کے چرچے گلی گلی تھے جب ہم نے
دل کے ہاتھ پہ بیعت کر لی دنیا کو ناراض کیا
جانے وہ کیسا موسم تھا جس نے بھری بہار کے بعد
اُ س گُل کو شادابی بخشی ہم کو دست دراز کیا
زندہ لفظ کے مدّ مقابل...
وہ کہکشاں وہ رہ ِ رقص ِ رنگ ہی نہ رہی
ہم اب کہیں بھی رہیں، جب تری گلی نہ رہی
تمارے بعد کوئی خاص فرق تو نہ ہوا
جزیں قدر وہ پہلی سی زندگی نہ رہی
یہ ذکر کیا کہ خرد میں بہت تصنع ہے
ستم یہ ہے جنوں میں بھی سادگی نہ رہی
قلمرو ِ غم ِ جاناں ہوئی ہے جب سے تباہ
دل و نظر کی فضاوں میں زندگی نہ...
خاک اُڑتی ہے چار سُو اے دوست
جانے کس دشت میں ہے تو اے دوست
پھر وہی میں گزیدہء محفل
پھر وہی تیری آرزو اے دوست
مجھ سے سلجھی نہیں ہے زلفِ خیال
ذہن اُلجھتا ہے مو بہ مو اے دوست
نکتہ بیں، نکتہ آفریں ہے کون
کیجیٔے کس سے گفتگو اے دوست
تو نہیں ہے تو زہر لگتی ہے
میکدے کی یہ ہاﺅ ہو اے...
غزل
ذکر بھی اس سے کیا بھلا میرا
اس سے رشتہ ہی کیا رہا میرا
آج مجھ کو بہت برا کہہ کر
آپ نے نام تو لیا میرا
آخری بات تم سے کہنا ہے
یاد رکھنا نہ تم کہا میرا
اب تو کچھ بھی نہیں ہوں میں ویسے
کبھی وہ بھی تھا مبتلا میرا
وہ بھی منزل تلک پہنچ جاتا
اس نے ڈھونڈا نہیں پتہ میرا
تجھ سے...
اس غزل کے شاعر کا نام شعیب تنویر لکھا ہوا ہے۔کیا اسے کوئی جانتا ہے ؟
بہت فرسودہ لگتے ہیں مجھے اب پیار کے قصے
گل و گلزار کی باتیں، لب و رخسار کے قصے
یہاں سب کے مقدر میں فقط زخمِ جدائی ہے
سبھی جھوٹے فسانے ہیں وصالِ یار کے قصے
بھلا عشق و محبت سے کسی کا پیٹ بھرتا ہے
سنو تم کو سناتا ہوں میں...
ڈرا رہا ہے مسلسل یہی سوال مجھے
گزار دیں گے یونہی کیا یہ ماہ و سال مجھے
بچھڑتے وقت اضافہ نہ اپنے رنج میں کر
یہی سمجھ کہ ہُوا ہے بہت ملال مجھے
وہ شہر ِ ہجر عجب شہر ِ پُر تحیّر تھا
بہت دنوں میں تو آیا ترا خیال مجھے
تُو میرے خواب کو عجلت میں رائگاں نہ سمجھ
ابھی سخن گہ ِ امکاں سے مت نکال...
کوئی ملا، تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے
سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے
جہاں سے دل کی طرف زندگی اُترتی تھی
نگاہ اب بھی اُسی بام پر جمی ہوئی ہے
ہے انتظار اِسے بھی تمہاری خوشبو کا؟
ہوا گلی میں بہت دیر سے رُکی ہوئی ہے
تم آگئے ہو، تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے
ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی...
تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی
تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی
حرمت ِ حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے
ورنہ وہ دن بھی تھے جب خواب ِ گراں تھے ہم بھی
ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر
مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی
اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصہءِ پارینہ ہُوا...
سوچ لینا ، غم و آلام بہت آتے ہیں
سر پہ اس راہ میں الزام بہت آتے ہیں
جب ضرورت تھی، سفر میں کوئی ساتھی نہ ملا
پاشکستہ ہوں تو پیغام بہت آتے ہیں
دن تو اس شہر کی روشنی میں گذر جاتا ہے
یاد کچھ لوگ سرِشام بہت یاد آتے ہیں
فاصلے اتنے نہیں یوں تو دلوں میں لیکن
اپنے مابین در و بام بہت...
یوں تو ڈھونڈے سے کیا نہیں ملتا
ایک سا دوسرا نہیں ملتا
متلاشی ہے کتنی صدیوں سے
آدمی کو خدا نہیں ملتا
کچھ خبر تیری پائیں تو کیسے
اپنا بھی جب پتا نہیں ملتا
دھیان جاتا ہے کیوں تری جانب
جب کوئی آسرا نہیں ملتا
راستوں کی ہے کس قدر بہتات
کوئی منزل رسا نہیں ملتا
اس سے کیا کیا رہیں...
غزل
اُمّیدِ دیدِ دوست کی دنیا بسا کے ہم
بیٹھے ہیں مہر و ماہ کی شمعیں جلا کے ہم
وہ راستے خبر نہیں کس سمت کھو گئے
نکلے تھے جن پہ رختِ غمِ دل اُٹھا کے ہم
پلکوں سے جن کو جلتے زمانوں نے چُن لیا
وہ پھول، اس روش پہ، ترے نقشِ پا کے ہم
آئے کبھی تو پھر وہی صبحِ طرب کہ جب
روٹھے ہوئے غموں سے ملیں...
غزل
دن کٹ رہے ہیں کش مکشِ روزگار میں
دم گھُٹ رہا ہے سایہ ابرِ بہار میں
آتی ہے اپنے جسم کے جلنے کی بُو مجھے
لُٹتے ہیں نکہتوں کے سبُو جب بہار میں
گزرا ادھر سے جب کوئی جھونکا تو چونک کر
دل نے کہا: "یہ آ گئے ہم کس دیار میں"
اے کنجِ عافیت تجھے پا کر پتہ چلا
کیا ہمہمے تھے گردِ سرِ رہگذار میں...
پتھر کُوٹنے والوں کو بھی شیشے جیسی سانس مِلے!
یہ غزل کون سے محسن صاحب کی ہے یہ مجھے پتہ نہیں اس غزل کا میں نےصرف ایک ہی شعر پڑھا تھا
پتھر کُوٹنے والوں کو بھی شیشے جیسی سانس مِلے!
محسنؔ روز دُعائیں مانگیں زخمی ہاتوں والے لوگ
یہ والا شعر مجھے بہت پسند آیا اور یہ میں نے ان دنوں سنا تھا...
کیسے جیئیں قصیدہ گو، حرف گروں کے درمیاں
کوئی تو سر کشیدہ ہو، اتنے سروں کے درمیاں
ایک طرف میں جاں بہ لب ، تارِ نَفس شکستنی
بحث چھڑی ہوئی اُدھر، چارہ گروں کے درمیاں
ہاتھ لئے ہیں ہاتھ میں، پھر بھی نظر ہے گھات میں
ہمسفروں کی خیر ہو، ہمسفروں کے درمیاں
اُسکا لکھا کچھ اور تھا، میرا کہا کچھ اور...
اختر رضا سلیمی نوجوان شعراء میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ یہ ایسے شاعر ہیں جنوں نے بہت کم وقت میں اپنا نام پیدا کیا ان کی بہت سی غزلیں ہیں جو مجھے بہت پسند ہیں جن میں سے ایک “دل و نگاہ پہ طاری رہے فسوں اس کا۔” بھی شامل ہے پہلی بار یہ غزل میں نے ایک مشاعرے میں ان کی ہی زبانی سنی اس کے بعد فتح جنگ...
اندر سے کوئی گھنگھرو چھنکے کوئی گیت سنیں تو لکھیں بھی
ھم دھیان کی آگ میں تپتے ھیں کچھ اور تپیں تو لکھیں بھی
یہ لوگ بیچارے کیا جانیں کیوں ھم نے حرف کا جوگ لیا
اس راہ چلیں تو سمجھیں بھی اس آگ جلیں تو لکھیں بھی
دن رات ھوئے ھم وقف رفو اب کیا محفل کیا فکرسخن
یہ ہات رکیں تو سوچیں بھی یہ زخم سلیں تو...
لہروں میں ڈوبتے رھے دریا نہیں ملا
اس سے بچھڑ کے پھر کوئی ویسا نہیں ملا
وہ بھی بہت اکیلا ھے شاید مری طرح
اس کو بھی کوئی چاہنے والا نہیں ملا
ساحل پہ کتنے لوگ مرے ساتھ ساتھ تھے
طوفاں کی زد میںآیا تو تنکا نہیں ملا
دو چار دن تو کتنے سکوں سے گزر گئے
سب خیریت رہی کوئی اپنا نہیں ملا
کوئی کیسا ہم سفر ھے یہ ابھی سے مت بتاؤ
ابھی کیا پتہ کسی کا کہ چلی نہیں ھے ناؤ
یہ ضروری تو نہیں ھے کہ سدا رھیں مراسم
یہ سفر کی دوستی ھے اسے روگ مت بناؤ
مرے چارہ گر بہت ھیں یہ خلش مگر ھے دل میں
کوئی ایسا ہو کہ جس کو ہوں عزیز میرے گھاؤ
تمہیں آئینہ گری میں ھے بہت کمال حاصل
مرا دل ھے کرچی کرچی اسے...