جدید غزل

  1. فرخ منظور

    مجید امجد جنونِ عشق کی رسمِ عجیب، کیا کہنا! ۔ مجید امجد

    غزل جنونِ عشق کی رسمِ عجیب، کیا کہنا! میں اُن سے دور، وہ میرے قریب، کیا کہنا! یہ تیرگئ مسلسل میں ایک وقفۂ نور یہ زندگی کا طلسمِ عجیب، کیا کہنا! جو تم ہو برقِ نشیمن، تو میں نشیمنِ برق الجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب، کیا کہنا! ہجوم رنگ فراواں سہی، مگر پھر بھی بہار، نوحۂ صد عندلیب، کیا کہنا...
  2. فرخ منظور

    مجید امجد چاندنی میں، سایہ ہائے کاخ و کُو میں گھومیے ۔ مجید امجد

    غزل چاندنی میں، سایہ ہائے کاخ و کُو میں گھومیے پھر کسی کو چاہنے کی آرزو میں گھومیے شاید اِک بھولی تمنّا، مٹتے مٹتے جی اُٹھے اور ابھی اس جلوہ زارِ رنگ و بُو میں گھومیے رُوح کے دربستہ سنّاٹوں کو لے کر اپنے ساتھ ہمہماتی محفلوں کی ہاؤ ہو میں گھومیے کیا خبر، کس موڑ پر مہجور یادیں آ ملیں گھومتی...
  3. فاتح

    آج ہم بچھڑے تو پھر کتنے رنگیلے ہو گئے ۔ شاہد کبیر

    کافی برس قبل ایک دوست سے ایک رنگ برنگا مگر خوبصورت شعر سننے کا اتفاق ہوا اور اس کی انوکھی ترکیب پر ہنسی بھی آئی۔ نیٹ پر تلاش کرنے کی کوشش کی مگر نہ مل سکا لیکن آج اتفاق سے دو مختلف جگہوں (جن میں سے ایک اعجاز صاحب کی برقی کتب کی سائٹ ہے) سے اس غزل کے دو اور تین اشعار ملے اور یوں پانچ اشعار پر...
  4. فرخ منظور

    اُردو غزل میں نئی علامتوں کا رجحان از ڈاکٹر عابد سیال

    یہ مضمون مجلہ خیابان کی سائٹ سے لیا گیا۔ اُردو غزل میں نئی علامتوں کا رجحان ڈاکٹرعابد سیال Abstract Symbolic language is one of the major characteristics of Gazal throughout its history. Urdu Gazal has used different types of symbols extracted from its contemporary social...
  5. فرخ منظور

    تھک گیا زندگی کی راہوں میں ۔ رفیق اظہر

    غزل تھک گیا زندگی کی راہوں میں جا کے رہتا ہوں بیٹھ قبروں میں ہے یہ موت و حیات کا برزخ ہم نہ زندوں میں اور نہ مُردوں میں مرنے والا بھی مرثیہ خواب بھی اڑ گئے سب کے سب ہواؤں میں چاند سورج یہاں کے دیکھ لئے یہ بھی ہیں ڈوبتے خداؤں میں کششِ ثقل کھینچتی ہے کوئی روح بولے شکستہ لہجوں میں بیٹھ کر موت...
  6. فرخ منظور

    یہ جو ماتم کدہ جہاں کا ہے ۔ رفیق اظہر

    غزل یہ جو ماتم کدہ جہاں کا ہے ایک منصوبہ آسماں کا ہے دھوپ آنکھوں سے ہو گئی اوجھل ذکر کیا عمرِ رائیگاں کا ہے ہم اچانک نہیں یہ مل بیٹھے یہ کراں سے سفر کراں کا ہے کون اَرجُن کماں پہ ہے بیٹھا سب پتا تیر کو نشاں کا ہے روز چلتی ہے موت کی آندھی جا بجا شور نوحہ خواں کا ہے کئی ارواح آتی جاتی ہیں یہ...
  7. فرخ منظور

    موت میں ہے سکوں قرار بہت ۔ رفیق اظہر

    غزل موت میں ہے سکوں قرار بہت وہ سکوں جو ہے پائیدار بہت اتنا پانی کہاں سے آتا ہے آنکھ رہتی ہے اشک بار بہت راستہ بھُول بھُول جاتا ہوں آنکھ رہتی ہے پُر غبار بہت مرگ و ہستی کی دھُند میں بیٹھا دیکھتا ہوں میں آربار بہت باغِ دنیا جسے کہے ہے خلق جھاڑیاں ہیں یہ خاردار بہت شہر سے دور مقبروں سے گزر...
  8. فرخ منظور

    میں اسے زندگی سے ڈسواتا ۔ رفیق اظہر

    میں اسے زندگی سے ڈسواتا کاش ہوتا اجل کا اِک بیٹا تن کو بھونا زمیں کے شعلوں پر میں نے دوزخ سے اپنا رزق لیا یہ زمیں گندگی کا ڈھیر بھی ہے تو فقط باغ میں پھرے بہکا "لہو اپنا پیوں ہُوں جیتا ہوں" میں نے چھاتی کو میر* سے کُوٹا زندگی ہے کہ چھاؤں کیکر کی جل گیا ہوں میں سائے میں بیٹھا میرے حصّے کی...
  9. فرخ منظور

    قبر کا کوئی در نہ دروازہ ۔ رفیق اظہر

    قبر کا کوئی در نہ دروازہ کیا سنے گا وہ میرا آوازہ کِھنڈ گئی تن پہ موت کی زردی زندگانی ہے عارضی غازہ مَر کے بیمار نے کیا آرام طے ہوا کشمکش کا خمیازہ دفن کرتے ہیں موتیوں کو لوگ داب آئے ہیں ہم گُلِ تازہ (رفیق اظہر)
  10. فرخ منظور

    ہر نئی موت پر ہی ڈر جائیں ۔ رفیق اظہر

    ہر نئی موت پر ہی ڈر جائیں کیوں نہ سب ایک بار مر جائیں رفتنی ہیں یہاں کے لوگ تمام رفتہ رفتہ گزر گزر جائیں مانگتے ہیں کوئی خلا خالی تا یہ وحشی بکھر بکھر جائیں مانگ لیتا ہوں پھر کوئی صحرا جب یہ دیدے لہو سے بھر جائیں غم ترے ہیں چمکتے سیّارے جن دلوں پر بھی یہ اتر جائیں تو ہی کہہ تیرِ نیم کش کے...
  11. فرخ منظور

    ہر گھڑی جاں بلب ہی رہتا ہے ۔ رفیق اظہر

    ہر گھڑی جاں بلب ہی رہتا ہے دل دھڑکتا نہیں تڑپتا ہے ہے قبیلے پہ بے حسی طاری جیسے مردہ ہے اور سنتا ہے پاؤں زخمی تلاشِ گندم میں سانپ یہ ایڑیوں پہ ڈستا ہے ہے اجل گھات میں ترے بھی اب تُو جو پیہم شکار کرتا ہے صبر آتا ہے صبر کرنے سے دل سنبھالے ہی سے سنبھلتا ہے کوئی آنکھوں سے دے گیا پانی قبر پر...
  12. فرخ منظور

    ہیں کھنڈر میں کمال کی اینٹیں ۔ رفیق اظہر

    ہیں کھنڈر میں کمال کی اینٹیں دیکھ عہدِ زوال کی اینٹیں مقبرے ہوں کہ سانس لیتے گھر ہیں یہ خواب و خیال کی اینٹیں کرے مجنوں خطاب دنیا سے پھینکتا ہے سوال کی اینٹیں تن ہے دیوارِ گریہ کے مانند لال آنکھیں ، ملال کی اینٹیں ہاتھ سے پیٹتا ہوں زانو کو میں نے ڈھالی ہیں کھال کی اینٹیں ہے یہ تھیٹر گزرتی...
  13. فرخ منظور

    زندگی کی اساس کچھ بھی نہیں ۔ رفیق اظہر

    زندگی کی اساس کچھ بھی نہیں یہ جو ہے آس پاس کچھ بھی نہیں پھول مرجھا گئے محبت کے اب کسی شے کی باس کچھ بھی نہیں سو گئی ہے کہ مر گئی قُمری نم زدہ آج گھاس کچھ بھی نہیں کبھی اہلِ جنوں بنے سنورے کبھی تن پر لباس کچھ بھی نہیں ہر یقین و گماں ہے لاحاصل واہمہ ہے قیاس کچھ بھی نہیں پھروں روٹھا ہوا ہی...
  14. فرخ منظور

    مر گیا ہوں میں ایک فرضی موت ۔ رفیق اظہر

    مر گیا ہوں میں ایک فرضی موت غم ترا ہے مجھے تو آدھی موت ہنستے ہنستے گری پہاڑی پر رات بارش میں تھی چمکتی موت ہم تو آگے مَرے سے پھرتے تھے غم نصیبوں کو ہے یہ دہری موت اڑتا پھرتا ہے راکشش کوئی جہاں چاہا وہاں پہ تھوکی موت کاٹ ڈالے سروں کے سر پَل میں نیشکر آدمی، درانتی موت تُو نے پتھر سے بھائی کو...
  15. فرخ منظور

    اے خدا پاؤں ڈال دوزخ میں ۔ رفیق اظہر

    اے خدا پاؤں ڈال دوزخ میں آگ دنیا کی ہم یہ کیا پھانکیں کھلیں آنکھیں ہزار سال کے بعد آؤ مل کر حنوط ہو جائیں روتے روتے کبھی تو وہم اٹھا پھر سمندر میں ہم نہ مِل جائیں مار ڈالے اگر اجل کو، تُو! اے خدا تیرے پاؤں بھی دابیں موت کو موت آئے گی اِک دن آپ اہلِ زمیں نہ گھبرائیں (رفیق اظہر)
  16. فرخ منظور

    آؤ کرتے ہیں موت کی باتیں ۔ رفیق اظہر

    غزل آؤ کرتے ہیں موت کی باتیں غم کے پاتال میں ذرا جھانکیں کریں خالی مکان یہ اپنا لامکاں کو کہیں نکل جائیں گھڑی کھولیں کلائی سے اپنی اور زماں کے بھنور میں پھینک آئیں اب کے ٹوٹے شہابِ ثاقب تو اُس کے پیچھے ہوا میں اڑ جائیں اب کے آتش فشاں پھٹے تو کہیں موت کی روٹیاں پکا کھائیں میٹھے کڑوے یہاں کے...
  17. فرخ منظور

    غزل۔ یہ تو ہونا ہی ہے کبھو نہ کبھو ۔ رفیق اظہر

    اس اتوار کو میں حلقۂ اربابِ ذوق گیا تو رفیق اظہر صاحب کو بیٹھے دیکھا۔ میں نے انہیں ان کا وعدہ یاد کروایا کہ آپ نے مجھے اپنی کتاب (آدھی موت) ارسال کرنا تھی لیکن ابھی تک شاید آپ ارسال نہیں کر سکے، تو انہوں نے کمالِ مہربانی سے اسی وقت اپنی کتاب اپنے بیگ سے مجھے نکال کر تھما دی۔ میں بہت خوش ہوا اور...
  18. فرخ منظور

    سب ترے بادۂ گلفام سے نکلے ہوئے ہیں ۔ رشید ندیم

    غزل سب ترے بادۂ گلفام سے نکلے ہوئے ہیں جتنے نشّے ہیں ترے جام سے نکلے ہوئے ہیں جس طرف دیکھیں ترے اسم کا پھیلا ھے طلسم نام جتنے ہیں ترے نام سے نکلے ہوئے ہیں ہم بھی کرتے ہیں شب و روز اُسی گھر کا طواف ہاں فقط جامۂ احرام سے نکلے ہوئے ہیں ڈھونڈنے اُٹھے ہو اب سانجھ سویرے جس کو ڈھونڈنے ہم...
  19. فرخ منظور

    بیٹوں کے سر سے باپ کا سایہ جو ہٹ گیا - پرویز اختر

    بیٹوں کے سر سے باپ کا سایہ جو ہٹ گیا اتنا بڑا مکان تھا حصّوں میں بٹ گیا کہتے ہیں نقشِ پا کہ رُکا تھا وہ دیر تک دستک دیے بغیر جو در سے پلٹ گیا میں خود ڈرا ہوا تھا پہ ہمّت سی آ گئی جب بچّہ ڈر کے میرے گلے سے لپٹ گیا ثابت ہوا کہ میری زمیں مجھ کو راس تھی آ کر بلندیوں میں مرا وزن گھٹ گیا...
  20. فرخ منظور

    جالا بُنا گیا تھا پتا ہی نہیں چلا - پرویز اختر

    جالا بُنا گیا تھا پتا ہی نہیں چلا مکڑی نے کچھ لکھا تھا پتا ہی نہیں چلا سوتا نہیں تھا میں توکبھی فرشِ سنگ پر آج اتنا تھک چکا تھا پتا ہی نہیں چلا تھے سب ہی سوگوار پتا چل گیا مگر کِس کِس کو دکھ ہوا تھا پتا ہی نہیں چلا منصف نے بس سزائیں بتائیں، سبب نہیں مجرم وہ کیوں بنا تھا پتا ہی نہیں...
Top