غزل
جمال وعدہ ء یک نانِ خشک پر رہنا
ہمارے واسطے آساں ہے عمر بھر رہنا
سرھانا جان کے پتھر تلک چُرا لیں گے
سفر میں جاگتے رہنا جدھر جدھر رہنا
کوئی بھی ہو اُسے لاتا ہے کم وہ خاطر میں
ہمیں بھی اپنی ہوا میں زیادہ تر رہنا
کئی دنوں سے عجب حال ہو گیا اپنا
نہ اُس گلی ہی میں جانا نہ اپنے گھر رہنا...
غزل
دلِ پژ مُردہ کو ہم رنگِ ابر و باد کردے گا
وہ جب بھی آئے گا اس شہر کو آباد کردے گا
کوئی محرابِ دل ہو، طاقِ جاں ہو یا شبِ تیرہ
جہاں چاہے گا وہ روشن چراغِ یاد کردے گا
وہ سارے رابطے توڑے گا ہم سے اور اچانک پھر
تعلق کی نئی صورت کوئی ایجاد کردے گا
گزر جائے گی یہ بھی شام پچھلی شام کی مانند...
غزل
بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیا وہ شخص
یہ تجھ سے پوچھتے ہوں گے تری گلی والے
بس ایک حرفِ متانت سے جل کے راکھ ہوئے
وہ میرے یار مِرے قہقہوں کے متوالے
اگر وہ جان کے درپے ہیں اب تو کیا شکوہ
وہ لوگ تھے بھی بہت میرے چاہنے والے
مقدروں کی لکیروں سے مات کھا ہی گئے
ہم ایک دوسرے کا ہاتھ چومنے والے...
غزل
قدم اُٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی
نظر دیے کی طرح چوکھٹوں پہ جلتی رہی
کچھ ایسی تیز نہ تھی اُس کے انتظار کی آنچ
یہ زندگی ہی مری برف تھی پگھلتی رہی
سروں کے پھول سرِ نوکِ نیزہ ہنستے رہے
یہ فصل سوکھی ہوئی ٹہنیوں پہ پھلتی رہی
ہتھیلیوں نے بچایا بہت چراغوں کو
مگر ہوا ہی عجب زاویے بدلتی رہی...
غزل
جھلس رہے ہیں کڑی دھوپ میں شجر میرے
برس رہا ہے کہاں ابرِ بے خبر میرے
گرا تو کوئی جزیرہ نہ تھا سمندر میں
کہ پانیوں پہ کھلے بھی بہت تھے پَر میرے
اب اس کے بعد گھنے جنگلوں کی منزل ہے
یہ وقت ہے کہ پلٹ جائیں ہمسفر میرے
خبر نہیں ہے مرے گھر نہ آنے والے کو
کہ اُس کے قد سے تو اونچے ہیں بام و در...
غزل
ذہن ہو تنگ تو پھر شوخیِ افکار نہ رکھ
بند تہہ خانوں میں یہ دولتِ بیدار نہ رکھ
زخم کھانا ہی جو ٹھہرا تو بدن تیرا ہے
خوف کا نام مگر لذتِ آزار نہ رکھ
ایک ہی چیز کو رہنا ہے سلامت، پیارے
اب جو سر شانوں پہ رکھا ہے تو دیوار نہ رکھ
خواہشیں توڑ نہ ڈالیں ترے سینے کا قفس
اتنے شہ زور پرندوں کو...
غزل
میرے ہونے میں کسی طور تو شامل ہو جاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ
دشت سے دُور بھی کیا رنگ دکھاتا ہے جنوں
دیکھنا ہے تو کسی شہر میں داخل ہو جاؤ
جس پہ ہوتا ہی نہیں خونِ دو عالم ثابت
بڑھ کے اک دن اسی گردن میں حمائل ہو جاؤ
وہ ستم گر تمھیں تسخیر کیا چاہتا ہے
خاک بن جاؤ اور اس شخص...
غزل
مروتوں پہ وفا کا گماں بھی رکھتا تھا
وہ آدمی تھا غلط فہمیاں بھی رکھتا تھا
بہت دنوں میں یہ بادل ادھر سے گزرا ہے
مرا مکان کبھی سائباں بھی رکھتا تھا
عجیب شخص تھا، بچتا بھی تھا حوادث سے
پھر اپنے جسم پہ الزامِ جاں بھی رکھتا تھا
ڈبو دیا ہے تو اب اس کا کیا گلہ کیجے
یہی بہاؤ سفینے رواں بھی...
غزل
خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو
کوچے سے ترے بادِ صبا لے گئی ہم کو
پتھر تھے کہ گوہر تھے، اب اس بات کا کیا ذکر
اک موج بہرحال بہا لے گئی ہم کو
پھر چھوڑ دیا ریگِ سرِ راہ سمجھ کر
کچھ دور تو موسم کی ہوا لے گئی ہم کو
تم کیسے گرے آندھی میں چھتنار درختو؟
ہم لوگ تو پتے تھے، اُڑا لے گئی ہم...
غزل
زیرِ گرداب نہ بالائے مکاں بولتی ہے
خامشی آ کے سرِ خلوتِ جاں بولتی ہے
یہ مرا وہم ہے یا مجھ کو بلاتے ہیں وہ لوگ
کان بجتے ہیں کہ موجِ گذراں بولتی ہے
لو سوالِ دہنِ بستہ کا آتا ہے جواب
تیر سرگوشیاں کرتے ہیں، کماں بولتی ہے
ایک میں ہوں کہ اس آشوبِ نوا میں چپ ہوں
ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں...
غزل
تعلق رکھ لیا باقی، تیّقن توڑ آیا ہوں
کسی کا ساتھ دینا تھا، کسی کو چھوڑ آیا ہوں
تمھارے ساتھ جینے کی قسم کھانے سے کچھ پہلے
میں کچھ وعدے، کئی قسمیں، کہیں پر توڑ آیا ہوں
محبت کانچ کا زنداں تھی یوں سنگِ گراں کب تھی
جہاں سر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سر پھوڑ آیا ہوں
پلٹ کر آگیا لیکن، یوں لگتا ہے...
غزل
سلوکِ نا روا کا اس لئے شکوہ نہیں کرتا
کہ میں بھی تو کسی کی بات کی پروا نہیں کرتا
ترا اصرار سر آنکھوں پہ تجھ کو بھول جانے کی
میں کوشش کرکے دیکھوں گا مگر وعدہ نہیں کرتا
بہت ہشیار ہوں اپنی لڑائی آپ لڑتا ہوں
میں دل کی بات کو دیوار پر لکھا نہیں کرتا
اگر پڑ جائے عادت آپ اپنے ساتھ...
غزل
ہے جس کے ہات میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں
کہ فکرِ آئینۂ جسم و جاں ، یہاں بھی نہیں
جو بات تیری نظر میں ہے اور مرے دل میں
اگر زباں پہ نہ آئے تو رائیگاں بھی نہیں
اب اُس نے وقت نکالا ہے حال سننے کو
بیان کرنے کو جب کوئی داستاں بھی نہیں
وہ دل سے سرسری گزرا، کرم کیا اُس نے
کہ رہنے...
غزل
ایک فقیر چلا جاتا ہے پکّی سڑک پر گاؤں کی
آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی
آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینےلگے
ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی
اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا
پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی
ڈار سے بچھڑا...
غزل
جو تو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا
ہمارا کوئی تو پُرسانِ حال رہ جاتا
بُرا تھا یا وہ بھلا، لمحۂ محبت تھا
وہیں پہ سلسلہ ماہ و سال رہ جاتا
بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر اُن آنکھو ں سے
اُس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا
تمام آئینہ خانے کی لاج رہ جاتی
کوئی بھی عکس اگر بے مثال رہ...
غزل
نہ ہو طغیانِ مشتاقی تو ” میں “ رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طغیانِ مشتاقی
مجھے فطرت ، نوا پر، پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی دردآشنا ، باقی
وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تیری ، تو پھر کیا شکوہِ ساقی
نہ کر ، افرنگ کا اندازہ اس کی...