غزلیات

  1. محمداحمد

    جاوید اختر غزل ۔ سچ ہے یہ بے کار ہمیں غم ہوتا ہے ۔ جاوید اختر

    غزل سچ ہے یہ بے کار ہمیں غم ہوتا ہے جو چاہا تھا، دنیا میں کم ہوتا ہے ڈھلتا سورج، پھیلا جنگل، رستہ گم ہم سے پوچھو کیسا عالم ہوتا ہے غیروں کو کب فرصت ہے دکھ دینے کی جب ہوتا ہے کوئی ہمدم ہوتا ہے زخم تو ہم نے ان آنکھوں سے دیکھے ہیں لوگوں سے سُنتے ہیں مرہم ہوتا ہے ذہن کی شاخوں پر اشعار آ...
  2. محمداحمد

    جاوید اختر غزل ۔ میں خود بھی سوچتا ہوں یہ کیا میرا حال ہے ۔ جاوید اختر

    غزل میں خود بھی سوچتا ہوں یہ کیا میرا حال ہے جس کا جواب چاہیے وہ کیا سوال ہے گھر سے چلا تو دل کے سوا پاس کچھ نہ تھا کیا مجھ سے کھو گیا ہے مجھے کیا ملال ہے آسودگی سے دل کے سبھی داغ دُھل گئے لیکن وہ کیسے جائے جو شیشے میں بال ہے بے دست و پا ہوں آج تو الزام کس کو دوں کل میں نے ہی بُنا تھا...
  3. محمداحمد

    جاوید اختر غزل ۔ میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا ۔ جاوید اختر

    غزل میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا وہ مجھ سے جیت بھی سکتا تھا جانے کیوں ہارا برس کے کُھل گئے آنسو، نِتھر گئی ہے فضا چمک رہا ہے سرِ شام درد کا تارا کسی کی آنکھ سے ٹپکا تھا، اک امانت ہے مِری ہتھیلی پہ رکھا ہوا یہ انگارا جو پَر سمیٹے تو اک شاخ بھی نہیں پائی کُھلے تھے پر تو مِرا...
  4. محمداحمد

    جاوید اختر غزل ۔ یہ تسلّی ہے کہ ہیں ناشاد سب ۔ جاوید اختر

    غزل یہ تسلّی ہے کہ ہیں ناشاد سب میں اکیلا ہی نہیں، برباد سب سب کی خاطر ہیں یہاں سب اجنبی اور کہنے کو ہیں گھر آباد سب بھول کے سب رنجشیں سب ایک ہیں میں بتاؤں سب کو ہوگا یاد سب سب کو دعوائے وفا، سب کو یقیں اس اداکاری میں ہیں اُستاد سب شہر کے حاکم کا یہ فرمان ہے قید میں کہلائیں گے آزاد سب...
  5. محمداحمد

    جاوید اختر غزل ۔ غم ہوتے ہیں جہاں ذہانت ہوتی ہے ۔ جاوید اختر

    غزل غم ہوتے ہیں جہاں ذہانت ہوتی ہے دنیا میں ہر شے کی قیمت ہوتی ہے اکثر وہ کہتے ہیں وہ بس ہیں میرے اکثر کیوں کہتے ہیں حیرت ہوتی ہے تب ہم دونوں وقت چُرا کر لاتے تھے اب ملتے ہیں جب بھی فرصت ہوتی ہے اپنی محبوبہ میں اپنی ماں دیکھیں بِن ماں کے بچوں کی فِطرت ہوتی ہے اک کشتی میں ایک قدم ہی...
  6. محمداحمد

    جاوید اختر غزل ۔ خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم ۔ جاوید اختر

    غزل خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم پانی چَھلنی میں لے چلے ہیں ہم چھاچھ پھونکیں کہ اپنے بچپن میں دودھ سے کس طرح جلے ہیں ہم خود ہیں اپنے سفر کی دشواری اپنے پیروں کے آبلے ہیں ہم تُو تَو مت کہہ ہمیں بُرا دنیا تُو نے ڈھالا ہے اور ڈھلے ہیں ہم کیوں ہیں، کب تک ہیں، کس کی خاطر ہیں بڑے سنجیدہ مسئلے...
  7. محمداحمد

    غزل ۔ زخم کا اندِمال ہوتے ہوئے ۔ محمد احمد

    غزل زخم کا اندِمال ہوتے ہوئے میں نے دیکھا کمال ہوتے ہوئے ہجر کی دھوپ کیوں نہیں ڈھلتی جشنِ شامِ وصال ہوتے ہوئے دے گئی مستقل خلش دل کو آرزو پائمال ہوتے ہوئے لوگ جیتے ہیں جینا چاہتے ہیں زندگانی وبال ہوتے ہوئے کس قدر اختلاف کرتا ہے وہ مرا ہم خیال ہوتے ہوئے پئے الزام آ رُکیں مجھ پر ساری...
  8. محمداحمد

    غزل ۔ کل یوں ہی تیرا تذکرہ نکلا ۔ رسا چغتائی

    غزل کل یوں ہی تیرا تذکرہ نکلا پھر جو یادوں کا سلسلہ نکلا لوگ کب کب کے آشنا نکلے وقت کتنا گریز پا نکلا عشق میں بھی سیاستیں نکلیں قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا رات بھی آج بیکراں نکلی چاند بھی آج غمزدہ نکلا سُنتے آئے تھے قصہء مجنوں اب جو دیکھا تو واقعہ نکلا ہم نے مانا وہ بے وفا ہی سہی کیا...
  9. محمداحمد

    سلیم کوثر غزل ۔ اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی، رات ڈھلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے ۔ سلیم کوثر

    غزل اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی، رات ڈھلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے خیمہء خاک سے روشنی کی سواری نکلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے کیا ہوا جو ہوائیں نہیں مہرباں، اک تغیّر پہ آباد ہے یہ جہاں بزم آغاز ہونے سے پہلے یہاں، شمع جلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے دامنِ دل ہو یا سایہ ء چشم و لب، دونوں بارش کی طرح...
  10. محمداحمد

    سلیم کوثر غزل ۔ دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر ۔ سلیم کوثر

    غزل دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر دیکھ اب وہ بھی اُتر آیا اداکاری پر میں نے دشمن کو جگایا تو بہت تھا لیکن احتجاجاً نہیں جاگا مری بیداری پر آدمی، آدمی کو کھائے چلا جاتا ہے کچھ تو تحقیق کرو اس نئی بیماری پر کبھی اِس جرم پہ سر کاٹ دئے جاتے تھے اب تو انعام دیا جاتا ہے غدّاری پر تیری...
  11. محمداحمد

    سلیم کوثر غزل ۔ توفیق بنا دل میں ٹھکانہ نہیں ملتا ۔ سلیم کوثر

    غزل توفیق بنا دل میں ٹھکانہ نہیں ملتا نقشے کی مدد سے یہ خزانہ نہیں ملتا پلکوں پہ سُلگتی ہوئی نیندوں کا دھواں ہے آنکھوں میں کوئی خواب سہانا نہیں ملتا ملتی ہی نہیں اُس کو ملاقات کی راہیں اور مجھ کو نہ ملنے کا بہانہ نہیں ملتا تم جانتے ہو وقت سے بنتی نہیں میری ضد کس لئے کرتے ہو کہا نا، نہیں...
  12. محمداحمد

    سلیم کوثر غزل ۔ چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا ۔ سلیم کوثر

    غزل چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا تصویر بدلنے سے بھی منظر نہیں بدلا خوف آتا ہے اُمید ہی رستہ نہ بدل لے جب اتنی تباہی پہ بھی یہ گھر نہیں بدلا ممکن ہے کہ منزل کا تعین ہی غلط ہو اب تک تو مری راہ کا پتھر نہیں بدلا تاریخ تمھاری بھی گواہی کبھی دیتی نیزہ ہی بدل جاتا اگر سر نہیں بدلا...
  13. محمداحمد

    سلیم کوثر غزل ۔ پرندے اُجڑے ہوئے آشیاں پہ بیٹھے ہوئے ۔ سلیم کوثر

    غزل پرندے اُجڑے ہوئے آشیاں پہ بیٹھے ہوئے زمیں کو دیکھتے ہیں آسماں پہ بیٹھے ہوئے وہ خوابِ امن دکھایا گیا کہ خوش ہیں بہت ہم اپنے عہد کے آتش فشاں پہ بیٹھے ہوئے مژہ سے قطرہء خوں کی طرح ٹپکتے ہیں ستارے کشتی ء آبِ روں پہ بیٹھے ہوئے زمانہ جن کے تجسس میں سرگراں ہے وہ لوگ ہوئے ہیں سنگ ترے آستاں...
  14. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ اُس کو تو جیت دیکھنا یا ہار دیکھنا ۔ جمال احسانی

    غزل اُس کو تو جیت دیکھنا یا ہار دیکھنا مجھ کو مگر لڑائی کا معیار دیکھنا آوارگی کو چھوڑے زمانہ ہوا مگر آیا نہیں ابھی ہمیں گھر بار دیکھنا خلوت میں آنکھ بھر کے جسے دیکھنا محال ہر انجمن میں اس کو لگاتار دیکھنا لوگوں کو تیرے کوچے کی رونق پہ سوچنا ہم کو ترے مکان کی دیوار دیکھنا حبسِ خیال و...
  15. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ سب بدلتے جا رہے ہیں سر بسر اپنی جگہ ۔ جمال احسانی

    غزل سب بدلتے جا رہے ہیں سر بسر اپنی جگہ دشت اب اپنی جگہ باقی نہ گھر اپنی جگہ نامساعد صورتِ حالات کے باوصف بھی خود بنالیتے ہیں جنگل میں شجر اپنی جگہ میں بھی نادم ہوں کہ سب کے ساتھ چل سکتا نہیں اور شرمندہ ہیں میرے ہمسفر اپنی جگہ کیوں سِمٹتی جا رہی ہیں خود بخود آبادیاں چھوڑتے کیوں جا رہے...
  16. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ تنہا بھی منہ اُٹھا کے نکلنا محال ہے ۔ جمال احسانی

    غزل تنہا بھی منہ اُٹھا کے نکلنا محال ہے ہمراہ بھی ہجوم کے چلنا محال ہے حرفِ دعا کا صفحہ ء دستِ بلند پر وہ بوجھ ہے کہ ہاتھ بدلنا محال ہے دل نے جلائی ہیں جو سرِ طاقِ انتظار اُن موم بتیوں کا پگھلنا محال ہے گم کیا ہوا ہے کاسہ ء درویش شہر میں نظریں اُٹھا کے شہر کا چلنا محال ہے میرے بھی...
  17. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ وہ ہاتھ ہی تھا اور، وہ پتھر ہی اور تھا ۔ جمال احسانی

    غزل وہ ہاتھ ہی تھا اور، وہ پتھر ہی اور تھا دیکھا پلک جھپک کے تو منظر ہی اور تھا تیرے بغیر جس میں گزاری تھی ساری عمر تجھ سے جب آئے مل کے تو وہ گھر ہی اور تھا سُنتا وہ کیا کہ خوف بظاہر تھا بے سبب کہتا میں اُس سے کیا کہ مجھے ڈر کچھ اور تھا جاتی کہاں پہ بچ کے ہوائے چراغ گیر مجھ جیسا ایک...
  18. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ جو لمحہ رائگاں گُذرا وہی تو کام کا تھا ۔ جمال احسانی

    غزل جو لمحہ رائگاں گزرا وہی تو کام کا تھا بہر نفس یہ زیاں عمرِ ناتمام کا تھا یہ کیا ہوا کہ بھرے آسماں کے آنگن میں بچھڑ گیا جو ستارہ ہمارے نام کا تھا بڑھا کے اُس سے رہ و رسم اب یہ سوچتے ہیں وہی بہت تھا جو رشتہ دعا سلام کا تھا ہر اک کے بس میں کہاں تھا کہ سو رہے سرِ شام یہ کام بھی ترے...
  19. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ کیاری کیاری خالی ہے ۔ جمال ؔ احسانی

    غزل کیاری خالی خالی ہے گہری سوچ میں مالی ہے رنگ ہے وہ اُڑنے والا آنکھ وہ بھولنے والی ہے اُکتا کر تنہائی سے اک تصویر بنالی ہے ہات ہوا میں لہرائے گاڑی جانے والی ہے نامانوس لب و لہجہ صورت دیکھی بھالی ہے مائیں دروازوں پر ہیں بارش ہونے والی ہے کچھ نہیں اُس کی مُٹھی میں...
  20. محمداحمد

    جمال احسانی غزل ۔ ہر قرضِ سفر چُکا دیا ہے ۔ جمالؔ احسانی

    غزل ہر قرضِ سفر چُکا دیا ہے دشت اور نگر ملا دیا ہے جُز عشق کسے ملی یہ توفیق جو پایا اُسے گنوا دیا ہے پہلے ہی بہت تھا ہجر کا رنج اب فاصلوں نے بڑھا دیا ہے آبادیوں سے گئے ہُوؤں کو صحراؤں نے حوصلہ دیا ہے دیوار بدست راہ رو تھے کس نے کسے راستہ دیا ہے بچھڑا تو تسلی دی ہے اس نے کس دھند میں...
Top