جوش ملیح آبادی کے مرثیے
ترتیب
1۔ حسین اور انقلاب ۔ ہمراز یہ فسانہ آہ و فغاں نہ پوچھ ۔ بند 68۔ تصنیف ۔۔1941
2۔ آوازۂ حق ۔ کیوں کر نہ کروں شکر خدائے دوجہاں کا ۔ بند 92 ۔ تصنیف 1918
جوش کی مرثیہ نگاری
بلا سے کوئی ہاتھ ملتا رہے
ترا حسن سانچے میں ڈھلتا رہے
ہر اک دل میں چمکے محبت کا داغ
یہ سکّہ زمانے میں چلتا رہے
ہو ہمدرد کیا جس کی ہر بات میں
شکایت کا پہلو نکلتا رہے
بدل جائے خود بھی تو حیرت ہے کیا
جو ہر روز وعدے بدلتا رہے
مری بے قراری پہ کہتے ہیں وہ
نکلتا ہے دم تو نکلتا رہے
پلائی ہے...
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا
دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا، میں نے تجھے یاد کیا
اے میں سو جان سے اس طرزِ تکلم کے نثار
پھر تو فرمائیے، کیا آپ نے ارشاد کیا...