تیرا گر ناخن پا تیرا مائل دھو کے پی جاتا
تو اس کے ہاتھ پاؤں مل کے کامل دھو کے پی جاتا
نہ آتا ہاتھ خوں میرا اگر اس تشنہ خوں کے
تو اپنی تیغ پر خوں کو وہ قاتل دھو کے پی جاتا
اگلتا زہر پھر کیا کیا وہ تیرا نخت سودائی
اگر کوئی تیرے رخسار کا تل دھو کے پی جاتا
اگر ہوسکتا عالم میں حصول علم بے محنت
تو...
اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا
اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا
ہم کشتگانِ عشق ہیں ابرو و چشمِ یار
سر سے ہمارے تیغ کا سایہ نہ جائے گا
ہم رہروانِ راہِ فنا ہیں برنگِ عمر
جاویں گے ایسے کھوج بھی پایا نہ جائے گا
پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل
تو صبح تک تو ہاتھ بھی لگایا نہ...
مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کی رقم کا
حقا! کہ خداوند ہے تو لوح و قلم کا
اُس مسندِ عزت پہ کہ تو جلوہ نما ہے
کیا تاب؟ گزر ہووے تعقل کے قدم کا
بستے ہیں ترے سایہ میں سب شیخ و برہمن
آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیر و حرم کا
ہے خوف اگر جی میں تو ہے تیرے غضب سے
اور دل میں بھروسا ہے تو ہے تیرے کرم...
سب کے ہاں تم ہوئے کرم فرما
اس طرف کو کبھو گزر نہ کیا
دیکھنے کو رہے ترستے ہم
نہ کیا تو نے رحم - پر نہ کیا
آپ سے ہم گزر گئے کب کے
کیا ہے ! ظاہر میں سفر نہ کیا
کونسا دل ہے وہ؟ کہ جس میں آہ!
خانہ آباد! تو نے گھر نہ کیا
سب کے جوہر نظر میں آئے درد!
بے ہنر! تو نے کچھ ہنر نہ کیا...
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک! جستجو کریں
دل ہی نہیں رہا ہے - جو کچھ آرزو کریں
تر دامنی پہ شیخ! ہماری نہ جا - ابھی
دامن نچوڑ دیں - تو فرشتے وضو کریں( اس شعر کو میں کسی اور طرح پڑھا تھا شاید)
سر تا قدم زبان ہیں جوں شمع گو کہ ہم
پر یہ کہاں مجال؟ جو کچھ گفتگو کریں
ہر چند آئینہ ہوں - پر اِتنا...
دیکھئے جس کو یاں - اُسے اور ہی کچھ دماغ ہے
کرمکِ شب چراغ بھی گوہرِ شب چراغ ہے
غیر سے کیا معاملہ؟ آپ ہیں اپنے دام میں
قیدِ خودی نہ ہو اگر - پھر تو عجب فراغ ہے
حال مرا نہ پوچھئے - میں جو کہوں - سو کیا کہوں؟
دل ہے سو ریش ریش ہے - سینہ - سو داغ داغ ہے
سنتے ہیں یوں کہ آہ تو ہم ہی میں چھپ...
جس شخص نے کہ اپنے نخوت کے بل کو توڑا
راہِ خدا میں اس نے گویا جبل کو توڑا
اپنا دلِ شگفتہ تالاب کا کنول تھا
افسوس تو نے ظالم! ایسے کنول کو توڑا
تھا ساعتِ فرنگی - دل چپ جو ہو رہا ہے
کیا جانئے کہ کس نے ہے اس کی کل کو توڑا
دارا و جم نے تجھ سے کیا کیا شکست پائی
اے چرخ! تو نے کس کس اہلِ...
شعلے بھڑک رہے ہیں یوں اپنے تن کے اندر
دوں لگ رہی ہو جیسے گرمی میں بن کے اندر
جو چاہو تم- سو کہہ لو- چپ چاپ ہیں ہم ایسے
گویا زباں نہیں ہے اپنے دہن کے اندر
ق
گل سے زیادہ نازک جو دلبرانِ رعنا
ہیں بیکی میں شبنم کے پیراہن کے اندر
ہے مجکو یہ تعجب سووینگے پانوں پھیلا کر
یہ رنگ گورے گورے...
اسے ہم نے بہت ڈھونڈا نہ پایا
اگر پایا - تو کھوج اپنا نہ پایا
جس انساں کو سگِ دنیا نہ پایا
فرشتہ اس کا ہم پایا نہ پایا
مقدر پہ ہی گر سود و زیاں ہے
تو ہم نے یاں نہ کچھ کھویا - نہ پایا
سراغِ عمرِ رفتہ ہو - تو کیونکر؟
کہیں جس کا نشاں نہ پایا
رہِ گم گشتگی میں ہم نے اپنا
غبارِ راہ...
نہیں ثبات بلندی عز و شاں کے لئے
کہ ساتھ اوج کے پستی ہے آسماں کے لئے
نہ چھوڑ تو کسی عالم میں راستی - کہ یہ شے
عصا ہے پیر کو اور سیف ہے جواں کے لئے
جو پاسِ مہرو محبت کہیں یہاں بکتا
تو مول لیتے ہم اک اپنے مہرباں کے لئے
اگر امید نہ ہمسایہ ہو - تو خانہء یاس
بہشت ہے ہمیں آرامِ جاوداں کے...
غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپنا
تو ہنس کے وہ بولے ہے میاں ! فکر کر اپنا
باتوں سے کٹے کس کی بھلا راہ ہماری
غربت کے سوا کوئی نہیں ہم سفر اپنا
عالم میں ہے گھر گھر خوشی و عیش پر اس بن
ماتم کدہ ہم کو نظر آتا ہے گھر اپنا
ہر بات کا بہتر ہے چھپانا ہی - کہ یہ بھی
ہے عیب - کرے کوئی...
بلبل سنے نہ کیونکہ قفس میں چمن کی بات
آواراہ ء وطن کو لگے خوش وطن کی بات
عیش طرب کا ذکر کروں کیا میں دوستو!
مجھ غم زدہ سے پوچھئے رنج و محن کی بات
شاید اسی کا ذکر ہو - ہر راہگزرمیں میں
سنتا ہوں گوشِ دل ہر اک مرد و زن کی بات
جرات! خزاں کے آتے چمن میں رہا نہ کچھ
اک رہ گئی زباں پہ گل و...
غافل ہیں ایسے، سوتے ہیں گویا جہاں کے لوگ
حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ
فردوس کو بھی آنکھ اٹھا دیکھتے نہیں
کس درجہ سیر چشم ہیں کوئے بتاں کے لوگ
مرتے ہیں اُس کے واسطے یوں تو بہت ولے
کم آشنا ہیں طَور سے اس کامِ جاں کے لوگ
مجنوں و کوہکن نہ تلف عشق میں ہوئے
مرنے پہ جی ہی دیتے ہیں...
نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں، کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا
غم عشق تو اپنا رفیق رہا کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا
دیا اپنی خودی کو جو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا
رہے پردے میں اب نہ وہ پردہ نشین کوئی دوسرا اس کے سوا نہ رہا
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر...
یہاں جو کلام ہے اس کے متعلق مجھے شک ہے کہ یہ امیر مینائی کا ہے بھی یا نہیں ۔ مہربانی فرماتے ہوئے مجھے اس معاملہ میں رہنمائی کر دیں مشکور ہوں گا ۔
اچھے عيسي ہو مريضوں کا خيال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہيں تم کہتے ہو حال اچھا ہے
تجھ سے مانگوں ميں تجھي کو کہ سبھي کچھ مل جائے
سو سوالوں سے يہي ايک...
تہمتِ چند اپنے ذمّے دھر چلے
کس لئے آئے تھے ہم کیا کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے اِدھر اُودھر چلے
دوستو دیکھا تماشا یاں کا بس
تم رہو اب ہم تو اپنے گھر چلے
آہ بس جی مت جلا تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے
ایک...
ریاضِ دہر میں پوچھو نہ میری بربادی
برنگِ بو ادھر آیا ادھر روانہ ہوا
خدا کی راہ میں دینا ہے گھر کا بھر لینا
ادھر دیا ۔ کہ ادھر داخل خزانہ ہوا
قدم حضور کے آئے مرے نصیب کھلے
جوابِ قصرِ سلیماں غریب خانہ ہوا
جب آئی جوش پہ میرے کریم کی رحمت
گرا جو آنکھ سے آنسو ۔ درِ یگانہ ہوا
چنے...
وہ تو سنتا ہی نہیں میں داد خواہی کیا کروں؟
کس کے آگے جا کے سر پھوڑوں الٰہی کیا کروں؟
مجھ گدا کو دے نہ تکلیف حکومت اے ہوس!
چار دن کی زندگی میں بادشاہی کیا کروں؟
مجھ کو ساحل تک خدا پہنچائے گا اے ناخدا!
اپنی کشتی کی بیاں تجھ سے تباہی کیا کروں؟
وہ مرے اعمال روز و شب سے واقف ہے امیر
پیش...
انسانِ عزیزِ خاطرِ اہلِ جہاں نہ ہو
وہ مہرباں نہ ہو ۔ تو کوئی مہرباں نہ ہو
پیری میں بھی گیا نہ تغافل ہزار حیف
اتنا بھی کوئی مائلِ خوابِ گراں نہ ہو
آنکھوں سے فائدہ؟ جو نہ دیدار ہو نصیب
حاصل جبیں سے کیا؟ جو ترا آستاں نہ ہو
جانے اگر ۔ کہ چاہِ عدم میں گرائے گا
کوئی سوارِ تو سنِ عمرِ...
دل نے جب پوچھا مجھے کیا چاہئے؟
درد بول اٹھا ۔ تڑپنا چاہئے
حرص دنیا کا بہت قصہ ہے طول
آدمی کو صبر تھوڑا چاہئے
ترک لذت بھی نہیں لذت سے کم
کچھ مزا اس کا بھی چکھا چاہئے
ہے مزاج اس کا بہت نازک امیر!
ضبطِ اظہارِ تمنا چاہئے
امیرالشعراء منشی امیر احمد صاحب امیرمینائی