غزل
لڑ کے اغیار سے جُدا ہیں آپ
مجھ سے بے وجہ کیوں خفا ہیں آپ
میں اور اُلفت میں ہوں کہیں پابند
وہم میں مجھ سے بھی سوا ہیں آپ
غمزہ سے ناز سے لگاوٹ سے
ہر طرح آرزو فزا ہیں آپ
یاں تو دل ہی نہیں ہے پھر کیا دیں
یہ تو مانا کہ دل رُبا ہیں آپ
کون سا دل نہیں تمہاری جا
جلوہ فرما ہر ایک جا ہیں...
غزل
اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دل کا
یاد آتا ہے ہمیں ہائے زمانا دل کا
تم بھی منہ چوم لو بے ساختہ پیار آجائے
میں سناؤں جو کبھی دل سےفسانا دل کا
ان حسینوں کا لڑکپن ہی رہے یا اللہ
ہوش آتا ہے تو آتا ہے ستانا دل کا
میری آغوش سے کیا ہی وہ تڑپ کر نکلے
ان کا جانا تھا الہٰی کہ یہ جانا دل...
کہاں تک چُپ رہوں چپکے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا
کہوں تو کیا کہوں ان سے، کہے سے کچھ نہیں ہوتا
شگفتہ ہو گل و بلبل سے تجھ بن کیا چمن میں دل
ہنسی سے اس کی اس کے قہقہے سے کچھ نہیں ہوتا
نہیں ممکن کہ آئے رحم ان کو اے ظفر مجھ پر
سہوں اس کے ستم کیا میں، سہے سے کچھ نہیں ہوتا
(ابوالمظفر محمد بہادر...
ہمیں دیکھنے سے وہ جیتا تھا اور ہم اس پہ مرتے تھے
یہی راتیں تھیں اور باتیں تھیں وہ دن کیا گزرتے تھے
وہ سوزِ دل سے بھر لاتا تھا اشک سرخ آنکھوں میں
اگر ہم جی کی بے چینی سے آہِ سرد بھرتے تھے
کسی دھڑکے سے روتے تھے جو باہم وصل کی شب کو
وہ ہم کو منع کرتا تھا ہم اس کو منع کرتے تھے
ملتی رہتی...
غزل
تو ہے مشہور دل آزار یہ کیا
تجھ پر آتا ہے مجھے پیار یہ کیا
جانتا ہوں کہ میری جان ہے تو
اور میں جان سے بیزار یہ کیا
پاؤں پر اُنکے گِرا میں تو کہا
دیکھ ہُشیار خبردار یہ کیا
تیری آنکھیں تو بہت اچھی ہیں
سب انہیں کہتے ہیں بیمار یہ کیا
کیوں مرے قتل سے انکار یہ کیوں
اسقدر ہے...
غزل
تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو
دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو
دل میں سو شکوہء غم پوچھنے والا ایسا
کیا کہوں حشر کے دن یہ تو بتا دو مجھ کو
مجھ کو ملتا ہی نہیں مہر و محبت کا نشان
تم نے دیکھا ہو کسی میں تو بتا دو مجھ کو
ہمدموں اُن سے میںکہہ جاؤنگا حالت دل کی
دو...
غزل
(نواب مرزا خان داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
بھنویں تنتی ہیں، خنجر ہاتھ میں ہے، تَن کے بیٹھے ہیں
کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بَن کے بیٹھے ہیں
دلوں پر سیکڑوں سّکے ترے جوبن کے بیٹھے ہیں
کلیجوں پر ہزاروں تیر اس چتون کے بیٹھے ہیں
الہٰی کیوں نہیں اُٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے
ہمارے سامنے...
اس جہاں میں آکے ہم کیا کر چلے
بارِ عصیاں سر پہ اپنے دھر چلے
تُو نہ آیا اے مسیحا دم یہاں
ہم اسی حسرت میں آخر مر چلے
اُس گلی میں ہم تو کیا خورشید بھی
ڈر کے مارے کانپتا تھر تھر چلے
اس قدر پیکِ صبا میں دم کہاں
ساتھ اُس آوارہ کے دم بھر چلے
لے چلے کیا اس چمن سے غنچہ ساں
ہم تو کیسہ اپنا خالی کر...
یا مجھے افسرِ شاہانہ بنایا ہوتا
یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا
اپنا دیوانہ بنایا مجھے ہوتا تُو نے
کیوں خرد مند بنایا، نہ بنایا ہوتا
خاکساری کے لئے گرچہ بنایا تھا مجھے
کاش خاکِ درِ جانانہ بنایا ہوتا
تشنہء عشق کا گر ظرف دیا تھا مجھ کو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا
دلِ صد چاک بنایا تو بلا سے...
معشوق ہوں یا عاشقِ معشوق نما ہوں
معلوم نہیں مجکو ۔ کہ میں کون ہوں- کیا ہوں
ہوں شاہدِ تننزیہہ کے رخسارہ کا پردہ
یا خود ہی میں شاہد ہوں ۔ کہ پردہ میں چھپا ہوں
ہستی کو مری ہستیِ عالم نہ سمجھنا
ہوں ہست - مگر ہستیِ عالم سے جدا ہوں
انداز ہیں سب عاشق و معشوق کے مجھ میں
سوزِ جگر و دل ہوں ۔...
تا بہ مقدور انتظار کیا
دل نے اب زور بے قرار کیا
دشمنی ہم سے کی زمانے نے
کہ جفاکار تجھ سا یار کیا
یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
ایک ناوک نے اس کی مژگاں کے
طائرِ سدرہ تک شکار کیا
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
سخت کافر تھا جن نے...
کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیںجان پر
اطفالِ شہر لائے ہیں آفت جہان پر
کچھ ان دنوں اشارہء ابرو ہیں تیز تیز
کیا تم نے پھر رکھی ہے یہ تلوار سان پر
کس پر تھے بے دماغ کے ابرو بہت ہے خم
کچھ زور سا پڑا ہے کہیں اس گمان پر
چرچا سا کر دیا ہے مرے شورَ عشق نے
مذکور اب بھی ہے یہ ہر اک کی...
تجھ بِن خراب و خستہ زبوں خوار ہو گئے
کیا آرزو تھی ہم کو کہ بیمار ہو گئے
ہم نے بھی سیر کی تھی چمن کی پر اے نسیم!
اٹھتے ہی آشیاں سے گرفتار ہو گئے
وہ تو گلے لگا ہوا سوتا تھا خواب میں
بخت اپنے سو گئے کہ جو بیدار ہو گئے
(میر تقی میر)
بے کلی، بے خودی کچھ آج نہیں
ایک مدت سے وہ مزاج نہیں
درد اگر یہ ہے تو مجھے بس ہے
اب دوا کی کچھ احتیاج نہیں
ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن
مرضِ عشق کا علاج نہیں
شہرِ خوبی کو خوب دیکھا میر
جنسِ دل کا کہیں رواج نہیں
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا
چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے
لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں
اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے
بچیں گے رہ گزر یار تلک کیونکر ہم
پہلے جب تک...
چلتے ہو تو چمن کو چلیے، کہتے ہیں بہاراں ہے
پات ہرے ہیں، پھول کھلے ہیں، کم کم باد و باراں ہے
رنگ ہوا سے یوں ٹپکے ہے جیسے شراب چواتے ہیں
آگے ہو مے خانے کو نکلو، عہدِ بادہ گساراں ہے
عشق کے میداں داروں میں بھی مرنے کا ہے وصف بہت
یعنی مصیبت ایسی اُٹھانا کارِ کار گزاراں ہے
دل ہے داغ، جگر...
غزل
یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں
اِک ایک فرطِ دور میں یونہی مجھے بھی دو
جامِ شراب پُر نہ کرو، میں نشے میں ہوں
مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ
جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو، میں نشے میں ہوں
یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانندِ جامِ مے
یا تھوڑی دور...
غزل
عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اُس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں
بے کلی دل ہی کی تماشا تھی
برق میں ایسے اضطراب کہاں
خط کے آئے پہ کچھ کہے تو کہے
ابھی مکتوب کا جواب کہاں
ہستی اپنی ہے بیچ میں پردا
ہم نہ ہوویں تو پھر حجاب کہاں
گریہ شب سے سرخ ہیں آنکھیں
مجھ بلا نوش کو شراب کہاں
عشق ہے...
پان کھا کر نہ رقیبوں سے کیا کر باتیں
رنگ لائیں نہ تیری کرنی چبا کر باتیں
دیکھو تقدیر جو ایک بار ادھر آتے ہیں
جاتے ہیں لاکھوں ہی وہ ہم کو سنا کر باتیں
ہمدمو انکو میری شکل سے نفرت ہی سہی
سن تو جائیں میرے دو کہو آ کر باتیں
کیا تماشا ہے نہیں کرتے نگاہ بھی وہ ادھر
کرتے ہیں غیر سے کیا...
اس در په جو سر بار کے روتا کوئى ہوتا
تو بستر راحت پہ نہ سوتا کوئی ہوتا
کس کا فلک اول و ہفتم کہ مرا اشک
اک آنکھ جھپکتے میں ڈبوتا کوئی ہوتا
یہ دل ہی تھا ناداں کہ تیری زلف سے الجھا
یوں اپنے لئے خار نہ بوتا کوئی ہوتا
بلبل بھی تھی جاں باختہ پروانہ بھی جانباز
پر میری طرح جان نہ کھوتا کوئی...