بس کہ نکلی نہ کوئی جی کی ہوس
اب ہوں میں اور بے دلی کی ہوس
کہ رہے دل نہ بے قراریِ دل
عاشقی ہو نہ عاشقی کی ہوس
وہ ستمگر بھی ہے عجیب کوئی
کیوں ہوئی دل کو پھر اسی کی ہوس
پھرتی رہتی ہے آدمی کو لئے
خوار دنیا میں آدمی کی ہوس
دونوں یکساں ہیں بے خودی میں ہمیں
فکرِ غم ہے نہ خمریِ کی ہوس...
محتسب آیا بزم میں، ساقی لے آ شراب کو
یہ نہ سمجھ کہ شب پرک دیکھے گی آفتاب کو
آنکھوں کا میری ان دنوں، یارو ہے طرفہ ماجرا
میں تو روؤں ہوں اُن کے تئیں ہنستی ہیں یہ سحاب کو
دم ہی رہا یہ پیرہن، تن تو ہو اشک بہہ گیا
جن نے نہ دیکھا ہو مجھے، دیکھے وہ جا حباب کو
پند سے تیری زاہدا ! حال مرا یہ مے سے ہے...
اس غزل سے متاثر ہو کر (نذرِ سودا) کے عنوان سے فیض نے بھی ایک غزل لکھی تھی جو فیض کے مجموعہ دستِ صبا میں موجود ہے۔
کیوں میں تسکینِ دل، اے یار! کروں یا نہ کروں؟
نالہ جا کر پسِ دیوار کروں یا نہ کروں؟
سن لے اک بات مری تو کہ رمق باقی ہے
پھر سخن تجھ سے ستم گار کروں یا نہ کروں؟
ناصحا! اُٹھ...
یہ سب ظہورِ شانِ حقیقت بشر میں ہے
جو کچھ نہاں تھا تخم میں، پیدا شجر میں ہے
ہر دم جو خونِ تازہ مری چشمِ تر میں ہے
ناسور دل میں ہے کہ الٰہی جگر میں ہے
کھٹکا رقیب کا نہیں، آغوش میں ہے یار
اس پر بھی اک کھٹک سی ہمارے جگر میں ہے
واصل سمجھیے اس کو جو سالک ہے عشق میں
منزل پہ جانیے اسے جو رہگزر میں ہے...
ہمارے آپ خفا ہو کے کیا مکاں سے گئے
تمہارے جانے سے یاں ہم بھی اپنی جاں سے گئے
گئے جو کوچۂ قاتل میں آہ! حضرتِ دل
مری طرف سے وہ اے ہمدمو جہاں سے گئے
نہ آیا شام کے وعدے پہ تو جو ماہ لقا
خدنگ آہ! گزر اپنی آسماں سے گئے
گئے جو ہم سے خفا ہو کے حضرتِ ناصح
بُرا بھلا ہمیں کہتے ہوئے زباں سے گئے
قطعہ...
لگ چلی بادِ صبا کیا کسی مستانے سے
جھومتی آج چلی آتی ہے مے خانے سے
چُور ہو جاؤں مگر جاؤں نہ مے خانے سے
عہد شیشے سے تو پیمان ہے پیمانے سے
روح کس مست کی پیاسی گئی مے خانے سے
مے اوڑی جاتی ہے ساقی ترے پیمانے سے
فکر ہے دوست کو احوال سناؤں کیونکر
ٹکڑے ہو جاتا ہے کلیجا مرے افسانے سے
گر...
غزل
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا
مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا
ہنسا ہنسا کے شبِ وصل اشک بار کیا
تسلیاں مجھے دے دے کے بے قرار کیا
یہ کس نے جلوہ ہمارے سرِ مزار کیا
کہ دل سے شور اٹھا ہائے بے قرار کیا
سنا ہے تیغ کو قاتل نے آب دار...
غزل
ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو
غم اٹھانے کا بھی باقی نہیں یارا ہم کو
دردِ فرقت سے ترے ضعف ہے ایسا ہم کو
خواب میں ترے دشوار ہے آنا ہم کو
جوشِ وحشت میں ہو کیا ہم کو بھلا فکرِ لباس
بس کفایت ہے جنوں دامنِ صحرا ہم کو
رہبری کی دہنِ یار کی جانب خط نے
خضر نے چشمۂ حیواں یہ دکھایا ہم کو
دل...
غزل
تیس دن کے لئے ترک مے و ساقی کر لوں
واعظِ سادہ کو روزوں میں تو راضی کر لوں
پھینک دینے کی کوئی چیز نہیں فضل و کمال
ورنہ حاسد تری خاطر سے میں یہ بھی کر لوں
اے نکیرین قیامت ہی پہ رکھو پرسش
میں ذرا عمرِ گذشتہ کی تلافی کر لوں
کچھ تو ہو چارۂ غم بات تو یک سُو ہو جائے
تم خفا ہو تو اجل ہی کو...
غزل
تیرِ قاتل کا یہ احساں رہ گیا
جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا
کی ذرا دستِ جنوں نے کوتہی
چاک آ کر تا بداماں رہ گیا
دو قدم چل کر ترے وحشی کے ساتھ
جادۂ راہِ بیاباں رہ گیا
قتل ہو کر بھی سبکدوشی کہاں
تیغ کا گردن پہ احساں رہ گیا
ہم تو پہنچے بزمِ جاناں تک مگر
شکوۂ بیدادِ درماں رہ گیا
کیا قیامت...
اثر کے پیچھے دلِ حزیں نے نشان چھوڑا نہ ہر کہیں کا
گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا
بھلی تھی تقدیر یا بری تھی یہ راز کس طرح سے عیاں ہو
بتوں کو سجدے کئے ہیں اتنے کہ مٹ گیا سب لکھا جبیں کا
وہی لڑکپن کی شوخیاں ہیں وہ اگلی ہی سی شرارتیں ہیں
سیانے ہوں گے تو ہاں بھی ہو گی ابھی تو...
غزل
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
ہر زباں پر ہے مثلِ شانہ مدام
ذکر اُس زلف کی درازی کا
ہوش کے ہاتھ میں عناں نہ رہی
جب سوں دیکھا سوار تازی کا
تیں دکھا کر اُپَس کے مُکھ کی کتاب
علم کھویا ہے دل سوں قاضی کا
آج تیری نگہ نے مسجد میں
ہوش کھویا ہے ہر نمازی کا
گر نہیں راز فقر سوں...
غزل
جادۂ راہِ عدم ہے رہِ کاشانۂ عشق
ملک الموت ہیں دربان درِ خانۂ عشق
مرکزِ خاک ہے دُردِ تہِ پیمانۂ عشق
آسماں ظرف بر آوردۂ میخانۂ عشق
کم بلندی میں نہیں عرش سے کاشانۂ عشق
دونوں عالم ہیں دو مصراع درِ خانۂ عشق
ہے جو واللیل سرا پردۂ کاشانۂ عشق
سورۂ شمس ہے قندیل درِ خانۂ عشق
دل مرا شیشہ...
غزل
(مولانا سید علی حیدر صاحب طبا طبائی نظم لکھنوی)
مژدہ اے دل پھر ہوائے انقلاب آنے کو ہے
دور گردوں ہو چُکا، دورِ شراب آنے کو ہے
حُسن کی آئینہ داری کو شباب آنے کو ہے
زلف میں بل گیسؤں میں پیچ و تاب آنے کو ہے
آنکھ میں تیری مروت بھول کر آتی نہیں
شرم سو سو بار آنے کو حجاب آنے کو ہے...
غزل
(میر انیس)
گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اُٹھا کے چلے
خدا کے آگے خجالت سے سر جھکا کے چلے
کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
چلے جو راہ تو چیونٹی کو ہم بچا کے چلے
مقام یوں ہوا اس کارگاہء دنیا میں
کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آکے چلے
طلب سے عار ہے اللہ کے فقیروں کو
کبھی جو...
غزل
(پنڈت برج ناراین چکبست لکھنوی)
دل ہی بجھا ہوا ہو تو لطفِ بہار کیا
ساقی ہے کیا ، شراب ہے کیا، سبزہ زار کیا
یہ دل کی تازگی ہے ، وہ دل کی فسردگی
اس گلشن ِ جہاں کی خزاں کیا بہار کیا
کس کے فسونِ حسن کا دنیا طلسم ہے
ہیں لوح آسماں پہ یہ نقش و نگار کیا
اپنا نفس ہوا ہے گلوگیر وقت...
غزل
لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے
نکلی نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے
برسے ہے عشق یاں تو دیوار اور در سے
روتا گیا ہے ہر ایک جوں ابر میرے گہر سے
جو لوگ چلتے پھرتے یاں چھوڑ کر گئے تھے
دیکھا نہ ان کو اب کے آئے جو ہم سفر سے
قاصد کسو نے مارا خط راہ میں سے پایا
جب سے سنا ہے ہم نے وحشت ہے...
غزل
گُل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے
گُلگشت کو جو آئیے آنکھوں پہ آئیے
میں بے دماغ کر کے تغافل چلا کیا
وہ دل کہاں کے ناز کسو کے اٹھائیے
صحبت عجب طرح کی پڑی اتفاق ہے
کھو بیٹھیے جو آپ کو تو اوسکو پائیے
رنجیدگی ہماری تو پر سہل ہے ولے
آزردہ دل کسو کو نہ اتنا ستائیے
خاطر ہی کے علاقے کی سب ہیں...
غزل
مدّت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی
ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی
کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شبِ وصال
باہم رہی لڑائی سو وہ رات بھی گئی
کچھ کہتے آ کے ہم تو سنا کرتے وے خموش
اب ہر سخن پہ بحث ہے وہ بات بھی گئی
نکلے جو تھی تو بنتِ عنب عاصمہ ہی تھی
اب تو خراب ہو کر خرابات بھی گئی...
غزل
طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی
کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی
نمائش داغِ سودا کی ھے سر سے
بہار اب ھے جنوں کے ابتدا کی
نہ ہو گُلشن ہمارا کیونکہ بلبل
ہمیں گلزار میں مدت سنا کی
مجھی کو ملنے کا ڈھب کچھ نہ آیا
نہیں تقصیر اس ناآشنا کی
گئے جل حرِّ عشقی سے جگر دل
رہی تھی جان سو برسوں جلا کی
انہی نے...