غزل
(شیخ ابراہیم دہلوی متخلص بہ ذوقؔ)
جُدا ہوں یار سے ہم، اور نہ ہوں رقیب جُدا
ہے اپنا اپنا مقدر جُدا نصیب جُدا
دکھا دے جلوہ جو مسجد میں وہ بُتِ کافر
تو چیخ اُٹھے مؤذن جُدا خطیب جُدا
جُدا نہ دردِ جُدائی ہو، گر مرے اعضا
حروفِ درد کی صورت ہوں، ہے طبیب جُدا
ہے اور علم...
غزل
(امیرؔ مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
جب تلک ہست تھے، دشوار تھا پانا تیرا
مٹ گئے ہم، تو مِلا ہم کو ٹھکانا تیرا
نہ جہت تیرے لیئے ہے نہ کوئی جسم ہے تو
چشم ظاہر کو ہے مشکل نظر آنا تیرا
شش جہت چھان چُکے ہم تو کھُلا ہم پہ حال
رگِ گردن سے ہے نزدیک ٹھکانا تیرا
اب تو پیری میں نہیں...
غزل
(مرزا محمد رفیع دہلوی متخلص بہ سوداؔ)
بولو نہ بول شیخ جی ہم سے کڑے کڑے
یہاں چٹ کیئے ہیں اس سے عمامہ بڑے بڑے
کیا میکدے میں آ کے چومے گا محتسب؟
پیوینگے اُس کی ضد سے تو اب ہم گھڑے گھڑے
قامت نے تیرے باغ میں جا خطِ بندگی
لکھوا لیا ہے سردِ چمن سے کھڑے کھڑے
ملجا گلے سے...
غزل
اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں
پلکیں ہیں جس کی چھریاں آنکھیں کٹاریاں ہیں
ٹک صفحہ ء زمیں کے خاکے پہ غور کر تو
صانع نے اس پہ کیا کیا شکلیں اتاریاں ہیں
دل کی طپش کا اپنے عالم ہی ٹک جدا ہے
سیماب و برق میں کب یہ بیقراریاں ہیں
ان محملوں پہ آوے مجنوں کو کیوں نہ حسرت
جن محملوں کے اندر...
غزل
شب تُم جو بزمِ غیر میں آنکھیں چُرا گئے
کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے
پوچھا کسی پہ مرتے ہو اور دم نکل گیا
ہم جان سے عناں بہ عنانِ صدا گئے
پھیلی وہ بُو جو ہم میں نہاں مثلِ غنچہ تھی
جھونکے نسیم کے یہ نیا گُل کھلا گئے
اے آبِ اشک آتشِ عنصر ہے دیکھنا
جی ہی گیا اگر نفسِ شعلہ زا گئے
مجلس...
غزل
دھویا گیا تمام ہمارا غبارِ دل
گریے نے دل سے خوب نکالا بخارِ دل
اتنا نہیں کوئی کہ خبر اُس کی آ کے لے
کب سے بجھا پڑا ہے چراغِ مزارِ دل
صبر و قرار کب کا ہمارا وہ لے گیا
سمجھے تھے جس کو مایۂ صبر و قرارِ دل
کہتے ہیں داغِ عشق کسے ہم کو کیا خبر
یک قطرہ خونِ گرم تو ہے ہم کنارِ دل
مجبور ہوں میں...
غزل
دل تری بے قراریاں کیا تھیں
رات وہ آہ و زاریاں کیا تھیں
تیرے پہلو میں اُس کی مژگاں سے
برچھیاں یا کٹاریاں کیا تھیں
سُرمہ دینے میں اُس کی آنکھوں کو
کیا کہوں آب داریاں کیا تھیں
اپنی قسمت میں آہ کس سے کہوں
ذلّتیں اور خواریاں کیا تھیں
مصحفی گر نہ تھا تُو عاشقِ زار
پھر تو یہ جاں نثاریاں کیا...
غزل
از بس کہ چشمِ تر نے بہاریں نکالیاں
مژگاں ہیں اشکِ سرخ سے پھولوں کی ڈالیاں
دل میں خیالِ زلف سے طوفاں نہ کیوں کہ ہو
اکثر گھٹائیں اٹھتی ہیں ایدھر سے کالیاں
کیا اعتماد یاں کے وکلا عزل و نصب کو
ایدھر تغیّراں تو اُدھر ہیں بحالیاں
اس کی کمر تو کاہے کو پتلی ہے اس قدر
یہ ہم سے شاعروں کی ہیں نازک...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
آئینہ تصویر کا تیرے نہ لے کر رکھ دیا؟
بوسے لینے کے لیئے کعبے میں پتھر رکھ دیا
ہم نے اُن کے سامنے اوّل تو خنجر رکھ دیا
پھر کلیجہ رکھ دیا، دل رکھ دیا، سر رکھ دیا
سُن لیا ہے پاس حوروں کے پُہنچتے ہیں شہید
اس لیئے لاشے پہ میرے اُس نے پتھر رکھ دیا...
غزل
(سید انشاء اللہ خان متخلص بہ انشا)
خیال کیجئے گا، آج کام میں نے کیا
جب اُس نے دی مجھے گالی، سلام میں نے کیا
کہا یہ صبر نے دل سے کہ "لو خدا حافظ"
حقوقِ بندگی اپنا، تمام میں نے کیا
جنوں یہ آپ کی دولت، ہوا حصول مجھے،
کہ ننگ و نام کو چھوڑا ، یہ نام میں نے کیا
مزا یہ دیکھئے گا، شیخ جی...
غزل
ذرا ہم سے بھی ملتے جائیے گا
کبھو تو اس طرف بھی آئیے گا
ہمارا دل ہے قابو میں تمہارے
بھلا جی کیوں نہ اب ترسائیے گا
جو ہم رونے پہ آویں گے تو اے ابر
بجائے آب، خوں برسائیے گا
بہار آئی تو اب کے ناصحوں کو
گریباں پرزے کر دکھلائیے گا
ق
کہا اے مصحفی میں اُس سے اک دن
کہ بوسہ آج تو دلوائیے گا...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
بے درد ہیں جو درد کسی کا نہیں رکھتے
ایسے بھی ہیں یارب کہ تمنا نہیں رکھتے
تم زندہ ہمیں چھوڑ کے گھر جاؤ نہ شب کو
مردے کو بھی انسان کے تنہا نہیں رکھتے
سچ ہے کہ یوں ہی ڈوب گئیں اپنی وفائیں
ہم تم پہ کسی طرح کا دعوا نہیں رکھتے
بے باک ہو سفاک ہو جو...
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)
دیکھ کر سانولی صورت تری یوسف بھی کہے
چَٹ پَٹا حُسن نمک دار سلونا کیا ہے
چار باتیں بھی کبھی آپ نے گھل مل کے نہ کیں
انہیں باتوں کا ہے رونا مجھے رونا کیا ہے
تیغ کھینچے ہوئے وہ ترک پھر اس پر یہ غضب
ہم تڑی دیتے ہیں بس آپ سے ہونا کیا ہے
تم پہ مر جائیں...
غزل
(استاد بلبلِ ہند فصیح الملک حضرت داغ دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ)
میرا جُدا مزاج ہے اُن کا جُدا مزاج
پھر کس طرح سے ایک ہو اچھا بُرا مزاج
دیکھا نہ اس قدر کسی معشوق کا غرور
اللہ کیا دماغ ہے اللہ کیا مزاج
کس طرح دل کا حال کھُلے اس مزاج سے
پوچھوںمزاج تو وہ کہیں، آپ کا مزاج...
غزل
(استاد بلبلِ ہند فصیح الملک حضرت داغ دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ)
کیا سبب شاد ہے بشّاش ہے جی آپ ہی آپ
چلی آتی ہے مجھے آج ہنسی آپ ہی آپ
ہم نشیں بھی تونہیں ہجر میں دل کیا بہلے
باتیں کر لیتے ہیں دوچار گھڑی آپ ہی آپ
کچھ تو فرمائیے اس بدمزگی کا باعث
آپ ہی آپ ہے رنجش خفگی آپ...
غزل
(محمد خاں عالم حیدرآبادی - 1899)
جان جاتی ہے میری آئیے آپ
جھوٹے وعدوں سے نہ تڑپائیے آپ
اپنی گھونگہٹ کو تو سرکائیے آپ
ہے شب ِوصل نہ شرمائیے آپ
آئیے آئیے جلد آئیے آپ
روئے روشن مجھے دِکھلائیے آپ
خیر گر جاتے ہیں تو جائیے آپ
پھر بھی آنے کی قسم کھائیے آپ
گر...
غزل
بس ہو تو رکھوں آنکھوں میں اُس آفتِ جاں کو
اور دیکھنے دوں میں نہ زمیں کو نہ زماں کو
جب عزم کروں گھر سے کوئے دوست کا یارو
دشمن ہے مرا وہ جو کہے یہ کہ "کہاں کو؟"
موجب مری رنجش کا جو پوچھے ہے تو یہ جان
مُوندوں گا نہ پھر کھول کے جوں غنچہ دہاں کو
ابرو نے، مژہ نے، نگہِ یار نے یارو
بے رتبہ...
غزل
بلبل نے جسے جا کے گلستان میں دیکھا
ہم نے اُسے ہر خارِ بیابان میں دیکھا
روشن ہے وہ ہر ایک ستارے میں زلیخا
جس نور کو تُو نے مہِ کنعان میں دیکھا
برہم کرے جمعیّتِ کونین جو پل میں
لٹکا وہ تری زلفِ پریشان میں دیکھا
واعظ تو سنی بولے ہے جس روز کی باتیں
اُس روز کو ہم نے شبِ ہجران میں دیکھا
اے...
غزل
بے وجہہ نئیں ہے آئنہ ہر بار دیکھنا
کوئی دم کو پھولتا ہے یہ گلزار دیکھنا
نرگس کی طرح خاک سے میری اگیں ہیں چشم
ٹُک آن کر یہ حسرتِ دیدار دیکھنا
کھینچے تو تیغ ہے حرمِ دل کی صید پر
اے عشق! پر بھلا تو مجھے مار دیکھنا
ہے نقصِ جان دید ترا پر یہی ہے دھن
جی جاؤ یا رہو مجھے اِک بار دیکھنا
اے طفلِ...
غزل
بات میری کبھی سنی ہی نہیں
جانتے وہ بری بھلی ہی نہیں
دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں
رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں
لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کمبخت تُو نے پی ہی نہیں
اُڑ گئی یوں وفا زمانے سے
کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں
جان کیا دوُں کہ جانتا ہوں میں
تم نے یہ چیز لے کے دی ہی نہیں
ہم تو...