غزل
کیوں چُراتے ہو دیکھ کر آنکھیں
کر چکیں میرے دل میں گھر آنکھیں
ضعف سے کچھ نظر نہیں آتا
کر رہی ہیں ڈگر ڈگر آنکھیں
چشمِ نرگس کو دیکھ لیں پھر ہم
تم دکھا دو جو اِک نظر آنکھیں
ہے دوا ان کی آتشِ رخسار
سینکتے ہیں اس آگ پر آنکھیں
کوئی آسان ہے ترا دیدار
پہلے بنوائے تو بشر آنکھیں
جلوۂ یار کی نہ...
غزل
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تُم، تُم سے تُو ہونے لگی
چاہیے پیغام بر دونوں طرف
لطف کیا جب دو بدو ہونے لگی
میری رسوائی کی نوبت آ گئی
ان کی شہرت کو بکو ہونے لگی
ہے تری تصویر کتنی بے حجاب
ہر کسی کے روبرو ہونے لگی
غیر کے ہوتے بھلا اے شامِ وصل
کیوں ہمارے روبرو ہونے لگی
نا امیدی بڑھ گئی ہے...
غزل
کونسا طائرِ گم گشتہ اسے یاد آیا
دیکھتا بھالتا ہر شاخ کو صیّاد آیا
میرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا
وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا
کوئی بھولا ہوا اندازِ ستم یاد آیا
کہ تبسّم تجھے ظالم دمِ بیداد آیا
لائے ہیں لوگ جنازے کی طرح محشر میں
کس مصیبت سے ترا کشتۂ بیداد آیا
جذبِ وحشت ترے...
غزل
راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھُل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
یہ بھی تم جانتے ہو چند ملاقاتوں میں
آزمایا ہے تمہیں ہم نے کئی باتوں میں
غیر کے سر کی بلائیں جو نہیں لیں ظالم
کیا مرے قتل کو بھی جان نہیں ہاتھوں میں
ابرِ رحمت ہی برستا نظر آیا زاہد
خاک اڑتی کبھی دیکھی نہ...
گر کیجیے انصاف تو کی زور وفا مَیں
خط آتے ہی سب چل گئے ، اب آپ ہیں یا مَیں
تم جن کی ثنا کرتے ہو کیا بات ہے اُن کی
لیکن ٹُک اِدھر دیکھیو اے یار بھلا مَیں
رکھتا ہے برہمن بچہ کچھ ایسی وہ رفتار
بُت ہو گیا دھج دیکھ کے جس کی بہ خُدا مَیں
(قطعہ)
یارو نہ بندھی اُس سے کبھو شکلِ ملاقات
ملنے کو تو اُس...
غزل
مجھے اے اہلِ کعبہ یاد کیا مے خانہ آتا ہے
اِدھر دیوانہ جاتا ہے، ادھر پروانہ آتا ہے
نہ دل میں غیر آتا ہے، نہ صاحب خانہ آتا ہے
نظر چاروں طرف ویرانہ ہے، ویرانہ آتا ہے
تڑپنا، لوٹتا اُڑتا جو بے تابانہ آتا ہے
یہ مرغِ نامہ بر آتا ہے یا پروانہ آتا ہے
مرے مژگاں سے آنسو پونچھتا ہے کس لئے ناصح...
غزل
ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا
کوڑی کا ہو گیا ہے کٹورا گلاب کا
صیاد نے تسلیِ بلبل کے واسطے
کنجِ قفس میں حوض بھرا ہے، گلاب کا
دریائے خوں کیا ہے تری تیغ نے رواں
حاصل ہوا ہے رتبہ سروں کو، حباب کا
جو سطر ہے، وہ گیسوئے حورِ بہشت ہے
خالِ پری ہے نقطہ، ہماری کتاب کا
نور آسماں ہیں صفحۂ اوّل...
توبہ ہے کہ ہم عشق، بتوں کا نہ کریں گے
وہ کرتے ہیں اب، جو نہ کیا تھا، نہ کریں گے
ٹھہری ہے کہ ٹھہرائیں گے، زنجیر سے دل کو
پر، برہمیِ زلف کا سودا نہ کرِیں گے
اندیشہ مژگاں میں اگر خوں نے کیا جوش
نشتر سے علاجِ دلِ دیوانہ کرِیں گے
گر آرزوئے وصل نے بیمار کیا تو
پرہیز کریں گے، پہ مداوا نہ کریں گے...
ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا
مرنا ہی مقدر تھا ، وہ آتے تو کیا ہوتا
ایک ایک ادا سو سو، دیتی ہے جواب اسکے
کیونکر لبِ قاصد سے، پیغام ادا ہوتا
اچھی ہے وفا مجھ سے، جلتے ہیں جلیں دشمن
تم آج ہُوا سمجھو، جو روزِ جزا ہوتا
جنّت کی ہوس واعظ ، بے جا ہے کہ عاشق ہوں
ہاں سیر میں جی لگتا، گر دل نہ...
حضرت امیر خسرو کی ایک ہندوی غزل پیشِ خدمت ہے۔ یہ غزل اختر شیرانی کی کتاب "پنجاب میں اردو" سے لی گئی ہے۔
جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چنتا اتر
ایسا نہیں کوئی عجب، راکھے اسے سمجھائے کر
جب آنکھ سے اوجھل بھیا، تڑپن لگا میرا جِیا
حقّا الہٰی کیا کیا، آنسو چلے بھر لائے کر
توں تو ہمارا یار ہے ، تجھ...
ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے
ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے
کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے
یکساں ہے...
آج بیٹھے بیٹھے اس غزل کا مطلع ذہن کے دیوار و در سے سر ٹکرانے لگا۔ اور دل چاہا پوری غزل ہی شئیر کی جائے۔
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے
ہے کائنات کو حَرَکت تیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے
حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ
غافل کو میرے شیشے پہ...
اس کے شرارِ حسن نے، شعلہ جو اک دکھا دیا
طور کو سر سے پاؤں تک، پھونک دیا جلا دیا
پھر کے نگاہ چار سو، ٹھہری اسی کے رو برو
اس نے تو میری چشم کو، قبلہ نما بنا دیا
میرا اور اس کا اختلاط، ہو گیا مثلِ ابر و برق
اس نے مجھے رلا دیا، میں نے اسے ہنسا دیا
میں ہوں پتنگِ کاغذی، ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا...
حسن اس شوخ کا اہاہاہا
جن نے دیکھا کہا اہاہاہا
زلف ڈالے ہے گردن دل میں
دام کیا کیا بڑھا اہاہاہا
تیغ ابرو بھی کرتی ہے دل پر
وار کیا کیا نیا اہاہاہا
آن پر آن وہ اجی او ہو
اور ادا پر ادا اہاہاہا
ناز سے جو نہ ہو وہ کرتی ہے
چپکے چپکے حیا اہاہاہا
طائرِ دل پہ اس کا باز نگاہ
جس گھڑی آ پڑا اہاہاہا...
مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشکِ حور لے جانا
کسی صورت سے تم واں تک مرا مذکور لے جانا
اگر وہ شعلہ رُو پوچھے مرے دل کے پھپولوں کو
تو اس کے سامنے اِک خوشۂ انگور لے جانا
جو یہ پوچھے کہ اب کتنی ہے اس کے رنگ پر زردی
تو یارو تم گلِ صد برگ با کافور لے جانا
اگر پوچھے مرے سینے کے زخموں کو تو اے یارو
کہیں سے...
نگہ کے سامنے اس کا جونہی جمال ہوا
وہ دل ہی جانے ہے اس دم جو دل کا حال ہوا
اگر کہوں میں کہ چمکا وہ برق کی مانند
تو کب مثل ہے یہ اس کی جو بے مثال ہوا
قرار و ہوش کا جانا تو کس شمار میں ہے
غرض پھر آپ میں آنا مجھے محال ہوا
ادھر سے بھر دیا مے نے نگاہ کا ساغر
ادھر سے زلف کا حلقہ گلے کا جال ہوا...