جب اک چراغ راہگزار کی کرن پڑے
ہونٹوں کی لو لطیف حجابوں سے چھن پڑے
شاخِ ابد سے جھڑتے زمانوں کا روپ ہیں
یہ لوگ جن کے رخ پہ گمانِ چمن پڑے
تنہا گلی، ترے مرے قدموں کی چاپ، رات
ہر سو وہ خامشی کہ نہ تابِ سخن پڑے
یہ کس دیار کی ٹھنڈی ہوا چلی
ہر موجہء خیال پہ صد ہا شکن پڑے
جب دل کی سل پہ بج اٹھے...