دہر بھی میرؔ طُرفہ مقتل ہے
جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے
کثرتِ غم سے دل لگا رُکنے
حضرتِ دل میں آج دنگل ہے
روز کہتے ہیں چلنے کو خوباں
لیکن اب تک تو روزِ اوّل ہے
چھوڑ مت نقدِ وقت نسیہ پر
آج جو کچھ ہے سو کہاں کل ہے
بند ہو تجھ سے یہ کھلا نہ کبھو
دل ہے یا خانۂ مقفل ہے
سینہ چاکی بھی کام رکھتی...
باندھے کمر سحر گہ آیا ہے میرے کیں پر
جو حادثہ فلک سے نازل ہوا زمیں پر
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی خوبی
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر
کنجِ قفس میں جوں توں کاٹیں گے ہم اسیراں
سیرِ چمن کے شایاں اپنے رہے نہیں پر
جوں آب گیری کردہ شمشیر کی جراحت
ہے ہر خراشِ ناخن رخسارہ و جبیں پر
آخر کو...
مطلق نہیں ادھر ہے اس دل ربا کی خواہش
کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش
دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے
رکھتے ہیں یار جی میں اُس کی جفا کی خواہش
لعلِ خموش اپنے دیکھو ہو آرسی میں
پھر پوچھتے ہو ہنس کر مجھ بے نوا کی خواہش
اقلیمِ حسن سے ہم دل پھیر لے چلے ہیں
کیا کریے یاں نہیں ہے...
کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
یک جان و صد تمنّا، یک دل ہزار خواہش
لے ہاتھ میں قفس ٹک، صیّاد چل چمن تک
مدّت سے ہے ہمیں بھی سیرِ بہار خواہش
نَے کچھ گنہ ہے دل کا نےَ جرمِ چشم اس میں
رکھتی ہے ہم کو اتنا بے اختیار خواہش
حالآنکہ عمر ساری مایوس گزری تس پر
کیا کیا رکھیں ہیں اس کے...
اس کا خیال چشم سے سب خواب لے گیا
قسمی کہ عشق جی سے مری تاب لے گیا
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
آوے جو مصطبع میں تو سن لو کہ راہ سے
واعظ کو ایک جامِ مئے ناب لے گیا
نَے دل رہا بجا ہے نہ صبر و حواس و ہوش
آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا
میرے حضور شمع...
کیسی وفا و اُلفت، کھاتے عبث ہو قسمیں
مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں
ساون تو اب کے ایسا برسا نہیں، جو کہیے
روتا رہا ہوں میں ہی دن رات اس برس میں
گھبرا کے یوں لگے ہے سینے میں دل تڑپنے
جیسے اسیرِ تازہ بے تاب ہو قفس میں
جاں کاہ ایسے نالے لوہے سے تو نہ ہوویں
بے تاب دل کسو کا رکھا ہے کیا...
شعر دیواں کے میرے کر کر یاد
مجنوں کہنے لگا کہ "ہاں استاد!"
خود کو عشقِ بتاں میں بھول نہ جا
متوکّل ہو، کر خدا کو یاد
سب طرف کرتے ہیں نکویاں کی
کس سے جا کر کوئی کرے فریاد
وحشی اب گرد باد سے ہم ہیں
عمر افسوس کیا گئی برباد
چار دیواریِ عناصر میر
خوب جاگہ ہے، پر ہے بے بنیاد
(میر تقی میر)...
دل کو تسکین نہیں اشکِ دما دم سے بھی
اس زمانے میں گئی ہے برکت غم سے بھی
ہم نشیں کیا کہوں اس رشکِ مہِ تاباں بِن
صبحِ عید اپنی ہے بدتر شبِ ماتم سے بھی
کاش اے جانِ المناک، نکل جاوے تُو
اب تو دیکھا نہیں جاتا یہ ستم ہم سے بھی
آخرِ کار محبت میں نہ نکلا کچھ کام
سینۂ چاک و دلِ پژمردہ مژہ نم سے بھی...
وہ کہاں دھوم جو دیکھی گئی چشمِ تر سے
ابر کیا کیا اُٹھے ہنگامے سے کیاکیا برسے
ہو برافروختہ وہ بت جو مئے احمر سے
آگ نکلے ہے تماشا کے تئیں پتھر سے
ڈھب کچھ اچھا نہیں برہم زَدَنِ مژگاں کا
کاٹ ڈالے گا گلا اپنا کوئی خنجر سے
یوں تو دس گز کی زباں ہم بھی بتاں رکھتے ہیں
بات کو طول نہیں دیتے خدا کے ڈر...
مشہور چمن میں تِری گُل پَیرہَنی ہے
قرباں ترے ہر عضو پہ نازک بدَنی ہے
عریانیِ آشفتہ کہاں جائے پس از مرگ
کُشتہ ہے ترا اور یہی بے کفَنی ہے
سمجھے ہے نہ پروانہ نہ تھانبے ہے زباں شمع
وہ سوختنی ہے تو یہ گردن زدَنی ہے
لیتا ہی نکلتا ہے مرا لختِ جگر اشک
آنسو نہیں گویا کہ یہ ہیرے کی کَنی ہے
بلبل کی...
یہ غزل خاص طور پر توصیف امین صاحب کی نذر۔
شہروں ملکوں میں جو یہ میر کہاتا ہے میاں
دیدنی ہے پہ بہت کم نظر آتا ہے میاں
عالم آئینہ ہے جس کا وہ مصور بے مثل
ہائے کیا صورتیں پردے میں بناتا ہے میاں
قسمت اس بزم میں لائی کہ جہاں کا ساقی
دے ہے مے سب کو ہمیں زہر پلاتا ہے میاں
ہو کے عاشق ترے، جان و...
غزل
لاکھوں فلک کی آنکھیں سب مند گئیں ادھر سے
نکلی نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے
برسے ہے عشق یاں تو دیوار اور در سے
روتا گیا ہے ہر ایک جوں ابر میرے گہر سے
جو لوگ چلتے پھرتے یاں چھوڑ کر گئے تھے
دیکھا نہ ان کو اب کے آئے جو ہم سفر سے
قاصد کسو نے مارا خط راہ میں سے پایا
جب سے سنا ہے ہم نے وحشت ہے...
غزل
گُل نے بہت کہا کہ چمن سے نہ جائیے
گُلگشت کو جو آئیے آنکھوں پہ آئیے
میں بے دماغ کر کے تغافل چلا کیا
وہ دل کہاں کے ناز کسو کے اٹھائیے
صحبت عجب طرح کی پڑی اتفاق ہے
کھو بیٹھیے جو آپ کو تو اوسکو پائیے
رنجیدگی ہماری تو پر سہل ہے ولے
آزردہ دل کسو کو نہ اتنا ستائیے
خاطر ہی کے علاقے کی سب ہیں...
غزل
مدّت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی
ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی
کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شبِ وصال
باہم رہی لڑائی سو وہ رات بھی گئی
کچھ کہتے آ کے ہم تو سنا کرتے وے خموش
اب ہر سخن پہ بحث ہے وہ بات بھی گئی
نکلے جو تھی تو بنتِ عنب عاصمہ ہی تھی
اب تو خراب ہو کر خرابات بھی گئی...
غزل
طبیعت نے عجب کل یہ ادا کی
کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی
نمائش داغِ سودا کی ھے سر سے
بہار اب ھے جنوں کے ابتدا کی
نہ ہو گُلشن ہمارا کیونکہ بلبل
ہمیں گلزار میں مدت سنا کی
مجھی کو ملنے کا ڈھب کچھ نہ آیا
نہیں تقصیر اس ناآشنا کی
گئے جل حرِّ عشقی سے جگر دل
رہی تھی جان سو برسوں جلا کی
انہی نے...
غزل
ہم رو رو کے دردِ دلِ دیوانہ کہیں گے
جی میں ہے کہوں حال غریبانہ کہیں گے
سودائی و رسوا و شکستہ دل و خستہ
اب لوگ ہمیں عشق میں کیا کیا نہ کہیں گے
دیکھے سے کہے کوئی نہیں جرم کسو کا
کہتے ہیں بجا لوگ بھی بیجا نہ کہیں گے
ہوں دربدر و خاک بسر، چاک گریبان
اسطور سے کیونکر مجھے رسوا نہ کہیں گے...
کیا کہوں تم سے میں کہ کیا ہے عشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
درد ہی خود ہے خود دوا ہے عشق
شیخ کیا جانے تُو کہ کیا ہے عشق
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں بھر رہا ہے عشق
عشق معشوق، عشق عاشق ہے
یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق
عشق ہے طرز و طور، عشق کے تئیں
کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق
کون مقصد...
غزل
(میر محمدتقی میر)
کون کہتا ہے مُنہ کو کھولو تم
کاش کے پردے ہی میں بولو تم
حکم آبِ رواں رکھے ہے حُسن
بہتے دریا میں ہاتھ دھو لو تم
جب میسّر ہو بوسہ اُس لب کا
چُپ کے ہی ہو رہو نہ بولو تم
رات گذری ہے سب تڑپتے میر
آنکھ لگ جائے گر تو سو لو تم