میر تقی میر

  1. محمد وارث

    میر غزل - عشق میں بے خوف و خطر چاہئے - میر تقی میر

    عشق میں بے خوف و خطر چاہئے جان کے دینے کو جگر چاہئے قابلِ آغوش ستم دیدگاں اشک سا پاکیزہ گہر چاہئے شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئے عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس داغ بہ دل، دست بہ سر چاہئے سینکڑوں مرتے ہیں سدا، پھر بھی یاں واقعہ اک شام و سحر چاہئے (1) حال یہ پہنچا ہے کہ...
  2. پ

    میر غزل-وہ جو پی کر شراب نکلے گا- میر تقی میر

    غزل-وہ جو پی کر شراب نکلے گا- میر تقی میر وہ جو پی کر شراب نکلے گا کس طرح آفتاب نکلے گا محتسب میکدہ سے جاتا نہیں یاں سے ہو کر خراب نکلے گا یہی چپ ہے تو دردِ دل کہتے منہ سے کیونکر جواب نکلے گا جب اٹھے گا جہان سے یہ نقاب تب ہی اس کا حجاب نکلے گا عرق اس کا بھی مونہہ کا بو کیجو...
  3. پ

    میر غزل-ہے یہ بازارِ جنوں ، منڈی ہے دیوانوں کی-میر تقی میر

    غزل ہے یہ بازارِ جنوں ، منڈی ہے دیوانوں کی یاں دکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی کیونکر کہیئے کہ اثر گریہء مجنوں کو نہ تھا گرد نمناک ہے اب تک بھی بیابانوں کی یہ بگولہ تو نہیں دشتِ محبت میں سے جمع ہو خاک اڑی کتنی پریشانوں کی خانقہ کا تو نہ کر قصد ٹک اے خانہ خراب یہی اک رہ گئی ہے...
  4. فرخ منظور

    میر تجھ کنے بیٹھے گھُٹا جاتا ہے جی ۔ میر تقی میر

    غزل تجھ کنے بیٹھے گھُٹا جاتا ہے جی کاہشیں کیا کیا اٹھا جاتا ہے جی یوں تو مردے سے پڑے رہتے ہیں ہم پر وہ آتے ہیں تو آ جاتا ہے جی ہائے اُس کے شربتی لب سے جُدا کچھ بتاشا سا گھُلا جاتا ہے جی اب کے اس کی راہ میں جو ہو سو ہو یاد بھی آتا ہے ، پا جاتا ہے جی کیا کہیں تم سے کہ اُس شعلے بغیر جی ہمارا...
  5. فرخ منظور

    میر وہ رابطہ نہیں ، وہ محبت نہیں رہی ۔ میر تقی میر

    غزل وہ رابطہ نہیں ، وہ محبت نہیں رہی اس بے وفا کو ہم سے کچھ الفت نہیں رہی دیکھا تو مثلِ اشک نظر سے گرا دیا اب میری ، اُس کی آنکھ میں عزّت نہیں رہی رُندھنے سے جی کے کس کو رہا ہے دماغِ حرف دم لینے کی بھی ہم کو تو فرصت نہیں رہی تھی تاب جی میر جب تئیں رنج و تعب کھنچے وہ جسم اب نہیں ہے ، وہ قدرت...
  6. فرخ منظور

    میر بود نقش و نگار سا ہے کچھ ۔ میر تقی میر

    غزل بود نقش و نگار سا ہے کچھ صورت اِک اعتبار سا ہے کچھ یہ جو مہلت جسے کہیں ہیں عمر دیکھو تو انتظار سا ہے کچھ منہ نہ ہم جبریوں کا کھلواؤ کہنے کو اختیار سا ہے کچھ منتظر اس کی گردِ راہ کے تھے آنکھوں میں سو غبار سا ہے کچھ ضعفِ پیری میں زندگانی بھی دوش پر اپنے بار سا ہے کچھ کیا ہے ، دیکھو جو...
  7. فرخ منظور

    میر ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا ۔ میر تقی میر

    ہر ذی حیات کا ہے سبب جو حیات کا نکلے ہے جی ہی اُس کے لئے کائنات کا بکھرے ہے زلف اس رخِ عالم فروز پر ورنہ بناؤ ہووے نہ دن اور رات کا در پردہ وہ ہی معنی مقوم نہ ہوں اگر صورت نہ پکڑے کام فلک کی ثبات کا ہیں مستحیل خاک سے اجزائے نو خطاں کیا سہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا مستہلک اس کے عشق کے...
  8. فرخ منظور

    میر چشم سے خوں ہزار نکلے گا ۔ میر تقی میر

    غزل چشم سے خوں ہزار نکلے گا کوئی دل کا بخار نکلے گا اُس کی نخچیر گہ سے روح الامیں ہو کے آخر شکار نکلے گا آندھیوں سے سیاہ ہوگا چرخ دل کا تب کچھ غبار نکلے گا *ہوئے رے لاگ تیرِ مژگاں کی کس کے سینے کے پار نکلے گا نازِ خورشید کب تلک کھینچیں گھر سے کب اپنے یار نکلے گا خون ہی آئے گا تو...
  9. فرخ منظور

    میر بے دل ہوئے ، بے دیں ہوئے ، بے وقر ہم ات گت ہوئے ۔ میر تقی میر

    غزل بے دل ہوئے ، بے دیں ہوئے ، بے وقر ہم ات گت ہوئے بے کس ہوئے ، بے بس ہوئے ، بے کل ہوئے ، بے گت ہوئے ہم عشق میں کیا کیا ہوئے ، اب آخر آخر ہو چکے بے مت ہوئے ، بے ست ہوئے ، بے خود ہوئے ، میّت ہوئے الفت جو کی ، کہتا ہے جی ، حالت نہیں ، عزّت نہیں ہم بابتِ ذلّت ہوئے ، شائستۂ کُلفت ہوئے گر کوہِ...
  10. فرخ منظور

    میر حال نہیں ہے دل میں مطلق ، شور و فغاں رسوائی ہے ۔ میر

    غزل حال نہیں ہے دل میں مطلق ، شور و فغاں رسوائی ہے یار گیا مجلس سے دیکھیں کس کس کی اب آئی ہے آنکھیں مَل کر کھولیں اُن نے عالم میں آشوب اٹھا بال کھُلے دکھلائی دیا ، سو ہر کوئی سودائی ہے ڈول بیاں کیا کوئی کرے اس وعدہ خلاف کی دیہی کا ڈھال کے سانچے میں صانع نے وہ ترکیب بنائی ہے نسبت کیا اُن...
  11. فرخ منظور

    میر موسم ہے ، نکلے شاخوں سے پتّے ہرے ہرے ۔ میر

    غزل موسم ہے ، نکلے شاخوں سے پتّے ہرے ہرے پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے آگے کسو کے کیا کریں دستِ طمع دراز وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے کیا سمجھے ، اُس کے رتبۂ عالی کو اہلِ خاک پھرتے ہیں جوں سپہر بہت ہم ورے ورے مرتا تھا میں تو ، باز رکھا مرنے سے مجھے یہ کہہ کے ، کوئی ایسا کرے ہے...
  12. فرخ منظور

    میر چلے ہم اگر تم کو اکراہ ہے ۔ میر

    غزل چلے ہم اگر تم کو اکراہ ہے فقیروں کی اللہ اللہ ہے نہ افسر ہے نے دردِ سر نے کُلہ کہ یاں جیسا سر ویسا سر واہ ہے جہاں لگ چلی گُل سے ہم داغ ہیں اگرچہ صبا بھی ہوا خواہ ہے غمِ عشق ہے ناگہانی بلا جہاں دل لگا کڑھنا جانکاہ ہے چراغانِ گُل سے ہے کیا روشنی گلستاں کسو کی قدم گاہ ہے محبت ہے دریا میں...
  13. فرخ منظور

    میر یہ سَرا سونے کی جاگہ نہیں ، بیدار رہو۔ میر تقی میر

    غزل یہ سَرا سونے کی جاگہ نہیں ، بیدار رہو ہم نے کر دی ہے خبر تم کو ، خبردار رہو آپ تو ایسے بنے اب کہ جلے جی سب کا ہم کو کہتے ہیں کہ تم جی کے تئیں مار رہو لاگ اگر دل کو نہیں ، لطف نہیں جینے کا الجھے سلجھے کسو کاکُل کے گرفتار رہو گرچہ وہ گوہرِ تر ہاتھ نہیں لگتا لیک دم میں دم جب تئیں ہے ،...
  14. فرخ منظور

    کلاسیکی شعرا کے کلام سے انتخاب

    از بسکہ چشمِ تر نے بہاریں نکالیاں مژگاں ہیں اشکِ سرخ سے پھولوں کی ڈالیاں اے مصحفی تو ان سے محبت نہ کیجیو ظالم غضب ہی ہوتی ہیں یہ دلّی والیاں (مصحفی)
  15. ش

    میر تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا ۔ میر تقی میر

    تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا شکر خدا کہ حقِ محب۔ت ادا ہوا قاصد کو دے کے خط نہیں کچھ بھیجنا ضرور جاتا ہے اب تو جی ہی ہمارا چلا ہوا وہ تو نہیں کہ اشک تھمے ہی نہ آنکھ سے نکلے ہے کوئی لخت دل اب سو جلا ہوا حیراں رنگِ باغ جہاں تھا بہت رُکا تصویر کی کلی کی طرح دل نہ وا ہوا ...
  16. پ

    میر غزل -تیری گلی سے جب ہم عزمِ سفر کریں گے -میر تقی میر

    غزل تیری گلی سے جب ہم عزمِ سفر کریں گے ہر ہر قدم کے اوپر پتھر جگر کریں گے آزردہ خاطروں سے کیا فائدہ سخن کا تم حرف سر کرو گے ، ہم گریہ سر کریں گے عذرِ گناہِ خوباں ، بد تر گناہ سے ہو گا کرتے ہوئے تلافی بے لطف تر کریں گے سر جائے گا ولیکن آنکھیں ادھر ہی ہو ں گی کیا تیری تیغ سے ہم قطع...
  17. دل پاکستانی

    میر ہستی اپنی حباب کی سی ہے - میر تقی میر

    ہستی اپنی حباب کی سی ہے یہ نمائش سراب کی سی ہے نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں حالت اب اضطراب کی سی ہے میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز اُسی خانہ خراب کی سی ہے میر اُن نیم باز آنکھوں میں ساری مستی شراب کی سی ہے
  18. عمران شناور

    میر تا بہ مقدور انتظار کیا (میر تقی میر)

    تا بہ مقدور انتظار کیا دل نے اب زور بے قرار کیا دشمنی ہم سے کی زمانے نے کہ جفاکار تجھ سا یار کیا یہ توہم کا کارخانہ ہے یاں وہی ہے جو اعتبار کیا ایک ناوک نے اس کی مژگاں کے طائرِ سدرہ تک شکار کیا ہم فقیروں سے بے ادائی کیا آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا سخت کافر تھا جن نے...
  19. عمران شناور

    میر کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیں‌جان پر (میر تقی میر)

    کیا کیا نہ لوگ کھیلتے جاتے ہیں‌جان پر اطفالِ شہر لائے ہیں آفت جہان پر کچھ ان دنوں اشارہء ابرو ہیں تیز تیز کیا تم نے پھر رکھی ہے یہ تلوار سان پر کس پر تھے بے دماغ کے ابرو بہت ہے خم کچھ زور سا پڑا ہے کہیں اس گمان پر چرچا سا کر دیا ہے مرے شورَ عشق نے مذکور اب بھی ہے یہ ہر اک کی...
  20. عمران شناور

    میر تجھ بِن خراب و خستہ زبوں خوار ہو گئے (میر تقی میر)

    تجھ بِن خراب و خستہ زبوں خوار ہو گئے کیا آرزو تھی ہم کو کہ بیمار ہو گئے ہم نے بھی سیر کی تھی چمن کی پر اے نسیم! اٹھتے ہی آشیاں سے گرفتار ہو گئے وہ تو گلے لگا ہوا سوتا تھا خواب میں‌ بخت اپنے سو گئے کہ جو بیدار ہو گئے (میر تقی میر)
Top