مصطفی زیدی

  1. ش

    مصطفیٰ زیدی ساعتِ جہد ۔ مصطفیٰ زیدی

    ساعتِ جہد دیکنا اہلِ جنوں ساعتِ شب آپہچی اب کوئی نقش بدیوار نہ ہونے پائے اب کے کھل جائیں خزانے نفسِ سوزاں کے اب کے محرومی اظہار نہ ہونے پائے یہ جو غدّار ہے اپنی ہی صفِ اوّل میں غیر کے ہاتھ کی تلوار نہ ہونے پائے یوں تو ہے جوہرِ گفتار بڑا وصف مگر وجہ بیماری گفتار نہ ہونے پائے...
  2. ش

    مصطفیٰ زیدی بہ نام وطن --مصطفیٰ زیدی

    بہ نام وطن کون ہے جو آج طلبگار ِ نیاز و تکریم وہی ہر عہد کا جبروت وہی کل کے لئیم وہی عیّار گھرانے وہی ، فرزانہ حکیم وہی تم ، لائق صد تذکرہء و صد تقویم تم وہی دُشمن ِ احیائے صدا ہو کہ نہیں پسِ زنداں یہ تمہی جلوہ نما ہو کہ نہیں تم نے ہر عہد میں نسلوں سے غدّاری کی تم نے بازاروں میں...
  3. ش

    مصطفیٰ زیدی کہیں کہیں پہ ستاروں کے ٹوٹنے کے سوا ۔ مصطفیٰ زیدی

    کہیں کہیں پہ ستاروں کے ٹوٹنے کے سوا افق اداس ہے دنیا بڑی اندھیری ہے لہو جلے تو جلے اس لہو سے کیا ہوگا کچھ ایک راہ نہیں ہر فضا لُٹیری ہے نظر پہ شام کی وحشت ، لبوں پہ رات کی اوس کسے طرب میں سکوں ، کس کو غم میں سیری ہے بس ایک گوشہ میں کُچھ دیپ جگمگاتے ہیں‌ وہ ایک گوشہ جہاں زُلفِ شب...
  4. ش

    مصطفیٰ زیدی آسماں گیر ہے زلفوں کا دھواں کہتے ہیں ۔ ۔ مصطفیٰ زیدی

    آسماں گیر ہے زلفوں کا دھواں کہتے ہیں جشن بردوش ہے فردوس رواں کہتے ہیں آج انسان ہے میردوجہاں کہتے ہیں اب لچکتی نہیں کوشش سے بھی غلماں کی کمر جل گئے حِدّتِ تحقیق سے اوہام کے پر اَبَدی ہے یہ جہانِ گزراں کہتے ہیں رھرو و آگہی گئی منزلِ عصر ِ مسعود جن کو کل لوگ سمجھتے تھے بتانِ معبود...
  5. ش

    مصطفیٰ زیدی انسان پیدا ہو گیا ۔ مصطفیٰ زیدی

    انسان پیدا ہو گیا سیّالِ ماہ تاب زَر افشاں کی دھوم ہے بدلے ہوئے تصوّر ِ ایماں کی دھوم ہے اخلاق سے لطیف تر عصیاں کی دھوم ہے اعلانِ سرفروشئ رنداں کی دھوم ہے باراں کے تذکرے ہیں بہاراں کی دھوم ہے اب سرنگوں ہے کتنے بزرگانِ فن کی بات اب پیش ِ محکمات گریزاں ہیں ظَنّیات اب محض سنگِ...
  6. ش

    مصطفیٰ زیدی غزلیں نہیں لکھتے ہیں قصیدہ نہیں کہتے۔ مصطفیٰ زیدی

    غزلیں نہیں لکھتے ہیں قصیدہ نہیں کہتے لوگوں کو شکایت ہے وہ کیا کیا نہیں کہتے اور اپنا یہی جرم کہ باوصفِ روایت ہم ناصح مشفق کو فرشتہ نہیں کہتے اجسام کی تطہیر و تقدس ہے نظر میں ارواح کے حالات پہ نوحہ نہیں کہتے ہم نے کبھی دنیا کو حماقت نہیں سمجھا ہم لوگ کبھی غم کو تماشا نہیں کہتے...
  7. ش

    مصطفیٰ زیدی روشنی ۔ ۔ مصطفیٰ زیدی

    روشنی ترے حضور مرے ماہ و سال کی دیوی میں ارض ِ خاک کا پیغام لے کر آیا ہوں جسے خرد کا مکمّل شعور پا نہ سکا وہ قلبِ شاعر ناکام لے کے آیا ہوں فریبِ عشرتِ معیار میرے پاس نہیں غمِ حقائق ِ ایاّم لے کے آیا ہوں ! بپھر رہے ہیں پرستار ِ عالم ارواح کہ حسن ِ کشور ِ اَجَام لے کے آیا ہوں...
  8. ش

    مصطفیٰ زیدی تخلیق ۔ ۔ مصطفیٰ زیدی

    تخلیق کتنے جاں سوز مراحل سے گذر کر ہم نے اس قدر سلسلہء سود و زیاں دیکھے ہیں رات کٹتے ہی بکھرتے ہوئے تاروں کے کفن جُھومتی صبح کے آنچل میں نہاں دیکھے ہیں جاگتے ساز ، دمکتے ہوئے نغموں کے قریب چوٹ کھائی ہوئی قسمت کے سماں دیکھے ہیں ڈوبنے والوں کے ہمراہ بھنور میں رہ کر ...
  9. ش

    مصطفیٰ زیدی زخمِ سفر از مصطفیٰ زیدی

    زخمِ سفر ہزار راہِ مُغیلاں ہے کارواں کے لِی۔ے لہو کا رنگ ہے تزئین ِ داستاں کے لِی۔ے قدم قدم پہ بڑی سختیاں ہیں جاں کے لِی۔ے کئی فریب کے عشِوے ہیں امتحاں کے لِی۔ے زمانہ یوں تو ہر اِک پر نظر نہیں کرتا قلم کی بے ادبی درگزر نہیں کرتا قلم میں لرزش ِ مژگاں ، قلم میں رِشتئہ جاں قَلم میں...
  10. ش

    مصطفیٰ زیدی دنیا مصطفیٰ زیدی

    دُنیا اک ہم ہی نہیں کُشتئہ رفتار ِ زمانہ یہ تندئ رخش ِ گُزَراں سب کے لئے ہے رقّاصئہ طنّار ہو یا بِسمل ِ مجرُوح اسبابِ دِل آویزئِ جاں سب کے لئے ہے اک طرز ِ تفکّر ہے ارسطو ہو کہ خیّام دُنیائے معانی و بیاں سب کے لئے ہے خاموش محبّت ہو کہ میدان کی للکار محروُمی گفتار و زباں سب کے...
  11. ش

    مصطفیٰ زیدی نظم - دُوری (مصطفیٰ زیدی )

    دوری ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے تیری مُحبّتیں چُن کر آرزو کے محل بناتے تھے بے نیازانہ زیست کرتے تھے صرف تجھ کو گلے لگاتے تھے زندگے کی متاعِ سوزاں کو تیری آواز لُوٹ جاتی تھی تیرے ہونٹوں کی لے ابھرتے ہی زخم کی تان ٹوٹ جاتی تھی تو کنول تھی ایاغ تھی کیا تھی روشنی کا سراغ تھی کیا تھی...
  12. ش

    مصطفیٰ زیدی وہ تو کیا سب کے لئے فیصلہ دشوار نہیں (مصطفیٰ زیدی)

    وہ تو کیا سب کے لئے فیصلہ دشوار نہیں اک طرف برف کے ڈھیر اک طرف شعلہ طور اک طرف ساعتِ شب اک طرف صبحِ نوید ایک طرف آگ کی رو ایک طرف حور و قصور اک طرف لذّتِ ہر رنگ سو وہ بھی فوراً ایک طرف وعدہ فردا سو وہ نزدیک نہ دور اس کے اس طرزِ تغافل کی شکایت کیسی ہاں مگر اس سے یہ ادنیٰ سی شکایت ہے...
  13. ش

    مصطفیٰ زیدی اس سے ملنا تو اس طرح کہنا

    فرہاد اس سے ملنا تو اس طرح کہنا:۔ تجھ س پہلے مری نگاہوں میں کوئی روپ اس طرح نہ اترا تھا تجھ سے آباد ہے خرابئہ دل ورنہ میں کس قدر اکیلا تھا تیرے ہونٹوں پہ کوہسار کی اوس تیرے چہرے پہ دھوپ کا جادو تیری سانسوں کی تھرتھراہٹ میں کونپلوں کے کنوار کی خوشبو وہ کہے گی کہ ان خطابوں سے اور...
  14. ش

    مصطفیٰ زیدی چھوڑو ، میاں ، یہ مشغلہء شعر و شاعری

    پیشہ چھوڑو ، میاں ، یہ مشغلہء شعر و شاعری آؤ شکار کے لئے کُہسار کو چلیں اِک مہہ جبیں کہ واسطے رونے سے فائدہ تسکین قلب کے لئے بازار کو چلیں ہاں جنّتِ نگاہ بھی ہو ، رنگ و رقص بھی بے شک کسی حسینہ کے دربار کو چلیں ہاں تاج و تخت بھی ہو اک کیفیف مگر میں کیسے اپنے فقر کاپندار چھوڑ دوں...
  15. ب

    مصطفیٰ زیدی دردِ دل بھی غمِ دوراں کے برابر سے اٹھا مصطفی زیدی

    دردِ دل بھی غمِ دوراں کے برابر سے اٹھا آگ صحرا میں لگی اور دھواں گھر سے اٹھا تابشِ حُسن بھی تھی آتشِ دنیا بھی مگر شُعلہ جس نے مجھے پُھونکا، میرے اندر سے اٹُھا کسی موسم کی فقیروں کو ضرورت نہ رہی آگ بھی ، ابر بھی، طوفان بھی ساغر سے اٹُھا بے صَدف کتنے ہی دریاوں سے کچھ بھی نہ ہوا بو جھ...
  16. ب

    مصطفیٰ زیدی پاگل خانہ مصطفی زیدی

    ہر طرف چاک گریباں کے تماشائ ہیں ہر طرف غول بیاباں کی بھیانک شکلیں ہم پہ ہنسنے کی تمنا میں نکل آئ ہیں چند لمحوں کی پر اسرار رہا ئش کے ليئے عقل والے لب مسرور کی دولت لے کر دور سے آئے ہیں اشکوں کی نمائش کے لیئے عقل کو زہر ہے وہ بات جو معمول نہیں عقل والوں کے گھرانوں میں پیمبر کے ليئے تخت...
  17. ب

    مصطفیٰ زیدی پہلی محبت کے نام مصطفی زیدی

    وقت سے کس کا کلیجہ ہے کہ ٹکرا جائے وقت انسان کے ہر غم کی دوا ہوتا ہے زندگی نام ہے احساس کی تبدیلی کا صرف مر مر کے جيئے جانےسے کیا ہوتا ہے تو غم دل کی روایات میں پابند نہ ہو غم دل شعر و حکایت کے سوا کچھ بھی نہیں یہ تری کم نظری ہے کہ تیری آنکھوں میں ایک مجبور شکایت کے سوا کچھ بھی نہیں...
  18. ب

    مصطفیٰ زیدی سراب - مصطفٰی زیدی

    ہر صدا ڈوب چکی قافلے والوں کے قدم ریگ زاروں میں بگو لوں کی طرح سو تے ہیں دور تک پھیلی ہو ئ شام کا سناٹا ہے اور میں ایک تھکے ہارے مسافر کی طرح سو چتا ہوں کہ مآل سفر دل کیا ہے کیوں خزف راہ میں خورشید سے لڑ جاتے لیں تتلیاں اڑتی ہیں اور ان کو پکڑنے والے یہی دیکھا ہےکہ اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں
  19. ب

    مصطفیٰ زیدی نظم - شہر جنوں میں چل - مصطفی زیدی

    شہر جنوں میں چل مری محرومیوں کی رات اس شہر میں جہاں ترے خوں سے حنا بنے یوں رائگاں نہ جائے تری آہِ نیم شب کچھ جنبشِ نسیم بنے کچھ دعا بنے اس رات دن کی گردشِ بے سود کے عوض کوئی عمودِ فکر کوئی زاویہ بنے اک سمت انتہائے افق سے نمود ہو اک گھر دیار دیدہ و دل سے جدا بنے اک داستانِ کرب کم آموز کی جگہ تیری...
  20. ب

    مصطفیٰ زیدی ماہ و سال

    اسی روش پہ ہے قائم مزاجِ دیدہ و دل لہو میں اب بھی تڑپتی ہیں بجلیاں کہ نہیں زمیں پہ اب بھی اترتا ہے آسماں کہ نہیں؟ کسی کی جیب و گریباں کی آزمائش میں کبھی خود اپنی قبا کا خیال آتا ہے ذرا سا وسوسہءِ ماہ و سال آتا ہے ؟ کبھی یہ بات بھی سوچی کہ منتظر آنکھیں غبار راہ گزر میں اجڑ گی ہوں گی...
Top