کفِ مومن سے نہ دروازۂ ایماں سے ملا
رشتۂ درد اسی دشمنِ ایماں سے ملا
اس کا رونا ہے کہ پیماں شکنی کے با وصف
وہ ستمگر اسی پیشانیٔ خندہ سے ملا
طالبِ دستِ ہوس اور کئی دامن تھے
ہم سے ملتا جو نہ یوسف کے گریباں سے ملا
کوئی باقی نہیں اب ترکِ تعلق کے لیئے
وہ بھی جا کر صفِ احبابِ گریزاں سے ملا
کیا...
زمیں نئی تھی فلک نا شناس تھا جب ہم
تری گلی سے نکل کر سوئے زمانہ چلے
نظر جھکا کہ بہ اندازِ مجرمانہ چلے
چلے بَجیب دریدہ، بہ دامنِ صَد چاک
کہ جیسے جنسِ دل و جاں گنوا کے آئے ہیں
تمام نقدِ سیادت لٹا کہ آئے ہیں
جہاں اک عمر کٹی تھی اسی قلمرو میں
شناختوں کے لیئے ہر شاہراہ نے ٹوکا
ہر اک نگاہ کے نیزے...
جس دن سے اپنا طرز فقیرانہ چھٹ گيا
شاہی تو مل گئ دل شاہانہ چھٹ گيا
کوئ تو غم گسار تھا، کوئ تو دوست تھا
اب کس کے پاس جائیں کہ ویرانہ چھٹ گيا
دنیا تمام چھٹ گئ پیمانے کے ليئے
وہ میکدے میں آے تو پیمانہ چھٹ گيا
کیا تیز پا تھے دن کی تمازت کے قافلے
ہاتوں سے رشتہء شب افسانہ چھٹ گیا
اک دن...
صبا ہمارے رفیقوں سے جا کے یہ کہنا
بہ صَد تشکر و اخلاص و حسن و خو ش ادبی
کہ جو سلوک بھی ہم پر روا ہوا اس میں
نہ کو ئ رمز نہاں ہے نہ کوئ بوالعجبی
ہمارے واسطے یہ رات بھی مقدر تھی
کہ حرف آے ستاروں پہ بے چراغی کا
لباس چاک پہ تہمت قبائے زریں کی
دل شکستہ پر الزام بد دما غی کا
صبا جو راہ...
یاد
رات اوڑھے ہوئے آئی ہے فقیروں کا لباس
چاند کشکولِ گدائی کی طرح نادم ہے
دل میں دہکے ہوئے ناسور لئے بیٹھا ہوں
یہی معصوم تصور جو ترا مجرم ہے
کون یہ وقت کے گھونگٹ سے بلاتا ہے مجھے
کس کے مخمور اشارے ہیں گھٹاؤں کے قریب
کون آیا ہے چڑھانے کو تمنّاؤں کے پھول
ان سلگتے ہوئے لمحوں کی چتاؤں کے...
آندھی چلی تو نقشِ کفِ پا نہیں ملا
دل جس سے مل گیا تھا دوبارہ نہیں ملا
ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے
اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا
آواز کو تو کون سمجھتا کہ دور دور
خاموشیوں کا درد شناسا نہیں ملا
قدموں کو شوقِ آبلہ پائی تو مل گیا
لیکن بہ ظرفِ وسعت صحرا نہیں ملا
کنعاں میں میں بھی نصیب...
کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے،
غم دل مرے رفیقو! غم رائیگاں نہیں ہے
کوئی ہم نفس نہیں ہے، کوئ رازداں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو و ہ مہرباں نہیں ہے
کسی آنکھ کو صدا دو کسی زلف کو پکار و
بڑی دھوپ پڑرہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آؤ
مرے گھر کے...
جو دن گزر گئے ہیں ترے التفات میں
میں ان کو جوڑ لوں کہ گھٹا دوں حیات میں
کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی
دنیا تو لطف لے گی مرے واقعات میں
میرا تو جرم تذکرہ عام ہے مگر
کچھ دھجیاں ہیں میری زلیخا کے ہاتھ میں
آخر تمام عمر کی وسعت سما گئی
اک لمحۂ گزشتہ کی چھوٹی سے بات میں
اے...
روکتا ہے غمِ اظہار سے پِندار مُجھ
روکتا ہے غمِ اظہار سے پِندار مُجھے
مرے اشکوں سے چُھپا لے مرے رُخسار مُجھے
دیکھ اے دشتِ جُنوں بھید نہ کُھلنے پائے
ڈھونڈنے آئے ہیں گھر کے در و دیوار مُجھے
سِی دیے ہونٹ اُسی شخص کی مجبوری نے
جِس کی قُربت نے کیا مِحرمِ اسرار مُجھے
میری آنکھوں کی طرف...