سوال: گزارش ہے کہ حضرات علمائے کرام سے سنتے رہتے ہیں کہ دین کی بنیادی اور ضروری باتوں کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، جیساکہ حدیث پاک میں ہے ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“ لیکن دین کی بنیادی اور ضروری باتوں کی تعیین ہم جیسے عامی مسلمانوں کو معلوم نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح...
نگاہِ مسلم جو زورِ باطل کو آج حیرت سے تک رہی ہے
یہ ساری طاقت غلام بن کر کہ عرصۂ طول تک رہی ہے
عمل سے برقِ یقین کوندی ، اب اسکی مدت کڑک رہی ہے
زمانہ حیرت سے تک رہا تھا، یہ کونسی شے چمک رہی ہے
وہی چمک تو نگاہِ باطل میں آج تک بھی کھٹک رہی ہے
وصالِ مومن کی جستجو میں جو آج در در بھٹک رہی ہے...
ایک غیر طرحی مشاعرے میں لکھی گئی غزل۔ قارئین کی نذر۔
غزل
اشکِ شبنم سے مجھے نرگس کا رو کر دیکھنا
بعد مُردن تم مری تربت پہ آ کر دیکھنا
پاؤ گے گل کاریِ خنجر سراسر دیکھنا
زخمِ دل کا تم ذرا پھاہا چھٹا کر دیکھنا
رنگ لائے گی فغاں کیا سر پہ چھا کر دیکھنا
کھا ئے گا یہ آسماں چکر پہ چکر دیکھنا
ایک...
مبارک ہو بہت اے شاعرِ کم سن ، اے مزمل!
ہوئے ہیں دو ہزار اب آپ کے پیغام بھی کامل
عروض و قافیہ کی خوب معلومات ہم کو دیں
ہمیشہ آپ کو رکھے خدا خوشحال اے بسمل!
میرے عزیز دوست جناب منیر انور کا تعلق لیاقت پور سے ہے۔
اردو اور پنجابی میں شعر کہتے ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’روپ کا کندن‘‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔
انتساب
وہ کہتی تھی ’’پاپا آپ تھک گئے ہوں گے
میں آپ کو کہانی سناتی ہوں!‘‘
’’روپ کا کندن‘‘ اسی محبت، اسی معصومیت،
اسی چہکار، سمن منیر کے نام...
ہنوز نا تمام تازہ غزل پیش خدمت ہے ابھی وارد ہوئی ہے۔ اصحابِ ذوق کی نذر:
گر چہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی تھا
پر وہیں خانہ خرابوں کے لئے زنداں بھی تھا
ہم خرابے میں پڑے مرتے ہیں وقتِ نزع آج
تھوڑا آگے بڑھتے تو عشرت کا ہر ساماں بھی تھا
دل میں ڈر اور ہاتھ میں ساغر لئے پھرتا رہا
گو بظاہر رند...
یاس عظیم آبادی کو کون نہیں جانتا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ یاس کا نام سن کر اکثر لوگوں کا خون جوش مارنے لگتا ہے، دل میں ایک عجیب ہی گستاخ اور بے ادب انسان کا خاکہ بن جاتا ہے۔ مگر کوئی بات نہیں۔ بات تو یہ ہے کہ بد نام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا؟؟؟ یہ مثال یاس پر بالکل صادق آتی ہے۔ یاس کی بدنامی ہی...
ابتدائی دنوں میں ایک غزل لکھنی شروع کی تھی جو ایک قطعہ سی بن کے رہ گئی۔۔۔ پیشِ خدمت ہے تنقید و اصلاح کے لئے:
کر کے وعدہ وفا نہیں کرتا
اور جفا یہ جفا نہیں کرتا
دوست ہے وہ برا نہیں کرتا
بات کر کے خفا نہیں کرتا
دیکھ کر میری بیقراری کو
کوئی راحت عطا نہیں کرتا
وہ مسیحا تو ہے مرا لیکن
مصلحت سے...
غزل
پت جھڑ کے زمانے ہیں، گم گشتہ ٹھکانے ہیں
ہم ظلم کے ماروں کے، ہر گام فسانے ہیں
کب یاد نہ تم آئے، کس لمحہ نہ ہم روئے
تم تو نہ رہے اپنے، ہم اب بھی دوانے ہیں
کانٹوں پہ چلے آتے، اک بار بلاتے تو
معلوم تو تھا تم کو، ہم کتنے سیانے ہیں
اک ڈوبتی کشتی ہے، تنکے کا سہارا ہے
اب وصل نہیں ممکن، بس...
یہ میری ابتدائی غزلوں میں سے ایک ہے۔ آپ حضرات کی تنقید برائے اصلاح کا منتظر رہوں گا۔ سکریہ!
غزل
پت جھڑ کے زمانے ہیں، گم گشتہ ٹھکانے ہیں
ہم ظلم کے ماروں کے، ہر گام فسانے ہیں
کب یاد نہ آئے تم، کس لمحہ نہ روئے ہم
تم تو نہ رہے اپنے، ہم اب بھی دوانے ہیں
کانٹوں پہ چلے آتے، اک بار بلاتے تو
کیا...
غزل
دل ہی دل میں کسے بلاتے ہو
کس قدر تنگ دلی دکھاتے ہو
ہم تو ہیں منتظر کہ کب،کس دن
ہم کو آواز تم لگاتے ہو
کیا محبت اِسی کو کہتے ہیں
کہ فراموش کرتے جاتے ہو
کر لیا وعدۂِ وصال تو...
غزل
سخت کافر جناب تم نکلے
کر کے الفت عذاب تم نکلے
جو بھی دیکھے تھے خواب تم نکلے
سب کو پرکھا جواب تم نکلے
ہم سے وعدے کئے بہاروں کے
اور سوکھے گلاب تم نکلے
وحشتوں نے ہمیں کو گھیر لیا
جب سے جاناں سراب تم نکلے
تم سے نفرت نہ تھی نہ ہونی ہے
کیسے مانیں خراب تم نکلے
تم کو اک عمر پڑھ کے دیکھا...
پچھلے سبق میں بحر رمل سالم اور محذوف پر گفتگو رہی اب آگے چلتے ہیں۔
محذوف کے بارے میں تو بتا چکا ہوں کے بحر کے آخری اور سالم رکن سے آخری سبب خفیف کم کردینے کا نام حذف ہے، آج اسی بحر کے اسی وزن میں مزید اجازتوں پر بات کرتے ہیں۔
عروض یہ اجازت دیتا ہے کہ کسی بھی بحر کے آخر میں ہم ایک ساکن یا متحرک...
غالب کے اسلوب میں:
پیش خیمہ موت کا خوابِ گراں ہو جائے گا
سیکڑوں فرسنگ آگے کارواں ہو جائے گا
قالبِ خاکی کہاں تک ساتھ دے گا روح کا
وقت آ جانے دو اک دن امتحاں ہو جائے گا
چپکے چپکے ناصحا، پچھلے پہر رو لینے دے
کچھ تو ظالم، چارۂ دردِ نہاں ہو جائے گا
شب کی شب مہماں ہے یہ ہنگامۂ عبرت سرا
صبح تک...
(منقبت)
ثنا انکی سنبھل کر لکھ قلم صدیق اکبر ہیں
صداقت سے ہو، جو کچھ ہو، رقم، صدیق اکبرؓ ہیں
ذرا سوچو تو کیسے محترم صدےق اکبرؓ ہیں
بذات خود شہِ خیر الامم صدیق اکبرؓ ہیں
ہمارے اہل ایماں پر کرم صدیق اکبرؓ ہیں
بروزِ حشر امت کا بھرم صدیق اکبرؓ ہیں
عدالت میں امامت کی خبر از حکم پیغمبر
مصلّے پر...
اساتزہ سے ایک معاملے پرمشورہ درکار ہے۔ کیا ایک ہی شعر کے ایک مصرع میں ' تُو' اور دوسرے میں مجبورا ' تم' استعمال کیا جا سکتا ہے؟ ردیف کی وجہ سے مصرعِ ثانی میں 'تُو' استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ شکریہ۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ درج ذیل اشعار کس شاعر کے ہیں۔۔۔
ستم تو یہ ہے کی وہ بھی نہ بن سکا اپنا
قبول ہم نے کیے جس کے غم خوشی کی طرح
اسی لئے میرے گیتوں میں سوز ہوتا ہے
کہ کھوکھلا ہوں میں اندر سے بانسری کی طرح
رہنمائی فرمائیے
"بارشوں کے موسم میں"
سردیوں کی بارش میں
بارشوں کے موسم میں
جب شجر نہاتے ہیں
پھول مسکراتے ہیں
مُرغ چہچہاتے ہیں
کھڑکیوں کے شیشوں پر
بوندیں جب تھرکتی ہیں
مل کے رقص کرتی ہیں
چائے کی پیالی سے
جب دھواں سا اُٹھتا ہے
اک خیال پھر دل میں
شکل سی بناتا ہے
کوئی یاد آتا ہے
جس کو یاد کر کے پھر
دل اُداس ہوتا...
ملنا
اتنا
سلنا
مٹنا
کِھلنا
دِکھنا
بِکنا
لِکھنا
کتنا
جتنا۔۔۔
مجھے "ملنا" کے ساتھ قوافی کی ضرورت ہے مگر ذہن میں کِھلنا، سِلنا، ہِلنا کے علاوہ کچھ نہیں آ رہا اس لیئے سوچا پتہ کر لوں اگر یہ سب استعمال کر سکتی ہوں تو کر لوں۔
برتھ ڈے
آج کا دن وہ دن ہے کہ جس دن انہیں
اس زمانے میں آنے کی زحمت ہوئی
ضد کا پیکر صنم عقل سے دشمنی
اہل خانہ نے سمجھا کہ رحمت ہوئی
بات کی بات ہے بات کہہ دیں کوئی
اس پہ پہرہ بٹھاتے ہیں ٹلتے نہیں
ان کی آغوش میں دلبری دلگی
درد دل جیسے جذبات پلتے نہیں
کون وعدے نبھانا سکھائے اسے
یاد ماضی...