السلا م علیکم ورحمۃ اللہ تعالی و برکاۃ
نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ ہم سب کے محترم دوست، اردو محفل کے رکن بزرگ شاعرعبدالعزیز راقم کی والدہ ماجدہ گزشتہ روز روالا کوٹ کشمیر میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئیں ہیں، مالک ومولا والدہ ماجدہ کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبرِ ایوبی عطا...
غزل
ترا خیال سراسر بنا رہا ہے مجھے
یہ کون خاک سے بڑھ کر بنا رہا ہے مجھے
یہ کس کی یاد کی کِن مِن ہے کیسا موسِم ہے
کہ دشت زارسمندر بنا رہا ہے مجھے
اتر رہے ہیں مسلسل سوارگانِ خیال
ترا فراق پیمبر بنا رہا ہے مجھے
سنوارتا ہے خدو خال اپنی سانسوں سے
یہ کون مجھ سے بھی بہتر بنا رہا ہے مجھے
یہ...
(پروین شاکر کی غزل پچھلے کئی دنوں سے حواس پر طاری ہے ، سوچا آپ کو بھی شریک کروں ، مذکورہ غزل کا ایک شعر زبان زدِ عام ہے )
غزل
بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہوگئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہوگئے
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہوگئے
جگنو کو دن کے وقت...
آمنہ مغل کی تازہ تصاویر اور ویڈیو
( جیہ بہنا، ملو بٹیا اور شمشاد انکل کی فرمائش پر )
( گزشتہ لڑٰی کا ربط )
آمنہ بنتِ محمود ، موسیقی کی دلدادہ ہیں
:biggrin: :biggrin:---آمنہ بجو کے نقشِ قدم پر ۔۔۔ :biggrin: :biggrin:
( یہ تو رہی ویڈیو اب اگلے مراسلات میں آپ اگست سے تاحال...
غزل
نگارِ وقت پہ موجود ہر تحریر جھوٹی ہے
کہیں پر تاج جھوٹے ہیں کہیں زنجیر جھوٹی ہے
کہیں بے نور سجدوں کے نشاں روشن ہیںماتھے پر
کہیں روشن جبیں سے پھوٹتی تنویر جھوٹی ہے
کہیں پر قہقہے نوحہ کناں ہیںزیرِلب خود بھی
کہیں چہرے پہ اشکوں سے لکھی تحریر جھوٹی ہے
کہیںحق، حلقۂ حلقوم ِ باطل...
(زہرہ نگاہ کی ایک نظم جو پچھلے کافی ہفتوں سے حواس پر طاری ہے ، سہوِ حافظہ سے پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں)
’’دستور‘‘
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے
تو وہ حملہ نہیںکرتا
سنا ہے جب
کسی ندی کے پانی میں
بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو...
’’ سال کی کوکھ میں پلتے ہوئے دن ‘‘
( سال 2010 کی پہلی نظم)
سال کی کوکھ میں پلتے ہوئے دن
سال کی آخری رات - - -
خوف کے کھردرے ہاتھوں سے تولُّد ہوکر
ایک کہرام مچا دیتے ہیں تا شرق و شمال
تا غرب و جنوب - -- -
چاند گہنایا ہوا دیکھ کے خوش ہوتے ہیں
رقص ابلیس کے چیلوں کا دکھاتے ہیںمدام
صبح...
نہ سَونا اَے دِل
( عیسوی سال کی شبِ آخر و اوّل)
شاہدؔحمید
آج کی رات نہ سَونا اَے دِل
آج کی رات مُرادوں سے بھری آتی ہے
آج کی رات سواری ہے ہَوا کے رَتھ پر
غم مِٹا دیتی ہے ہر لہر خوشی کی آ کر
آج کی رات نہ سَونا اَے دِل
آج کی رات مُقَدَّر سے چلی آئی ہے
جس سے مِلنے کے لئے ایک بَرس...
غزل
ہم تو جیسے وہاںکے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں
ہم کہ ہیں تیری داستاں یکسر
ہم تری داستاں کے تھے ہی نہیں
ان کو آندھی میں ہی بکھیرا تھا
بال و پر آشیاں کے تھے ہی نہیں
اب ہمارا مکان کس کا ہے ؟
ہم تو اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں
ہو تری خاکِ آستاں پہ سلام
ہم ترے...
’’ ضرورتِ رشتہ ‘‘
<<نو شادی دفتر >>
محفل کے سب سے زیادہ مراسلات کے مالک شمشاد صاحب کے ’’ توتے ‘‘ ( جیسے وہ ط سے لکھتے ہیں)
میاں جسے موصوف نے بڑے ناز سے پالا ہے ، دیسی گھی کی چُوری کھاکھا کر گھٹا ہو ا کسرتی وجود، نیک پارسا،
حاجی ، نمازی، زکواتی ، ( صرف ’’جہادی‘‘ نہیں ہے ) غرض یہ کہ ہر طرح...
ایک آزاد نظم -(تازہ کلام)- سیدہ بہن ( سیدہ شگفتہ ) کے نام انتساب
’’ گزشتہ سے پیوستہ ‘‘
یاد آیا مجھے پچھلے اظہار میں
کچھ نئے زاویے ، کچھ نئے رخ ملے
یاد آیا مجھے راستہ پھر مِرا، جب حذر سے سفر مجھ کو مقدور تھا
آخرِ وقت میں تھا جہاں ہمنفس
’’ اس طرف روشنی تھی مگر روشنی صرف خوش خواب...
ایک منظوم انشائیہ ، اسرارالحق مجاز کے حوالے سے ۔ ’’ ناطقہ‘‘ سے
’’ پرسش ‘‘
تھے مجاز ایک شام آوارہ
ساتھ میں ان کے کوئی دوست بھی تھا
دیکھ کر راستے میں اک مسجد
جس کے دروازے پر لکھا تھا شعر
’’ روزِ محشر کہ جاں گداز بود
اولیں پرسشِ نماز بود ‘‘
رک کہ کہنے لگا مجاز کا دوست
شعر جو یہ لکھا ہوا ہے...
غزل
ہجر سے مرحلہِ زیست عدم ہے ہم کو
فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ کم ہے ہم کو
سائے سے اُٹھ کے ابھی دھوپ میں جا بیٹھیں گے
گھر سے صحرا تو فقط ایک قدم ہے ہم کو
پا بہ جولاں ترے کوچے میں بھی کھیِنچے لائے
شحنہِ شہر سے اُمیّدِ کرم ہے ہم کو
قحطِ معمور ۂصورت سے ہیں پتھر آنکھیں
اب خدا بھی نظر...
غزل
جو خود میں سمٹ کے رہ گئے ہیں
دنیا سے وہ کٹ کے رہ گئے ہیں
مجمع تھا یہاں پہ جن کے دم سے
وہ بھیڑ سے چھٹ کے رہ گئے ہیں
بازارِ سُخن میں ہے مول اپنا
ہم لوگ ٹکٹ کے رہ گئے ہیں
نگلا ہے زمین نے بستیوں کو
بادل سبھی پھٹ کے رہ گئے ہیں
اب کھیت میں بھوک اگے گی کیوں کر
سب کھوٹ کپٹ کے رہ...
غزل
گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے
اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے
اک خواب نما بیداری میں جاتے ہوئے اس کو دیکھا تھا
احساس کی لہروں میں اب تک حیرت کا سفینہ بہتاہے
پھر جسم کے منظر نامے میں سوئے ہوئے رنگ نہ جاگ اٹھیں
اس خوف سے وہ پوشاک نہیں ، بس خواب...
غزل
رات پھر رات کے سنّاٹے میں وہ جان پڑی
کہ سُنائی نہ دی آواز کوئی کان پڑی
تھک گیا خواب کہیں یاد کے صد راہے پر
رہ گئی بات کہیں جانبِ نسیان پڑی
رہ گیا راہ میں اک ہوش پریشان کھڑا
رہ گئی سوچ میں اک حیرتِ حیران پڑی
دل تھا آنکھوں میں سو آنکھیں تھیں اُنہی آنکھوں میں
تھی زباں سو...
غزل
غزل اس کو سنا کر مائلِ اغماز مت کیجے
اگر انجام سے واقف ہیں تو اغماض مت کیجے
کرشمے آپ کی جادو بیانی کے بہت دیکھے
مزید اپنے تئیں اپنا سخن اعجاز مت کیجے
سخن کرتے طوالت حسبِ گنجائش روا رکھیے
برائے نام اس کو اور بھی ایجاز مت کیجے
پرائی آنکھ سے بینائی کی خیرات مت لیجے
کبھی جذبات...