ماں
شجر کی چھایا بھی ہے سر پہ آسماں ہے ماں
زمیں کی وسعتیں محدود بے کراں ہے ماں
پیمبروں کو شرف حوا زادیوں سے ملا
عطائے ربیّ پیمبر کی پاسباں ہے ماں
سبق حیات کا آغاز ماں سے ہوتا ہے
حدیثِ مہد پڑھو پہلا سائباں ہے ماں
کبھی وہ ایڑی رگڑتے سے دور ہوتی ہے٭
کہیں پہ اپنے جوانوں کی نوحہ خواں...
غزل
جتنی بھی تم سے ہے یقیں کرلو
دوستی تم سے ہے یقیں کرلو
میرا ایمان میرا سرمایہ
زندگی تم سے ہے یقیں کرلو
تم ہی پروردگارِ عالم ہو
بندگی تم سے ہے یقیں کرلو
ایک نسبت سے تم ہمارے ہو
ہرگھڑی تم سے ہے یقیں کرلو
پھر نہ منسوب عشق ہوگا مرا
یہ ابھی تم سے ہے یقیں کرلو
شور سنتا ہو میں...