نظر لکھنوی - غزلیں

  1. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: کفن کو کھول کے صورت دکھائی جاتی ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    کفن کو کھول کے صورت دکھائی جاتی ہے کہ زندگی کی حقیقت بتائی جاتی ہے نگاہ و دل میں وہ سب کے سمائی جاتی ہے ادائے خاص کہ ساقی میں پائی جاتی ہے خموش ہو کے میں سنتا ہوں اہلِ دنیا سے مجھی کو میری کہانی سنائی جاتی ہے مزاجِ دل یہ بدلنا تھا اور نہیں بدلا اگرچہ خوں میں تمنا نہائی جاتی ہے خوشا نصیب...
  2. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: سرور و کیفِ دل پیہم نہیں ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    سرور و کیفِ دل پیہم نہیں ہے دل ایماں سے ابھی مدغم نہیں ہے خوشا قسمت ہجومِ غم ہے لیکن سکونِ دل مرا برہم نہیں ہے تمہاری فکر میں الجھاؤ ہو گا مرے کہنے میں پیچ و خم نہیں ہے محبت باعثِ آرام و جاں بھی محبت سے وُجوبِ غم نہیں ہے نہ کر اے بے خبر تحقیرِ انساں کوئی انساں کسی سے کم نہیں ہے ہزاروں رنج و...
  3. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: تو اے غافل ابھی محرم نہیں ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    تو اے غافل ابھی محرم نہیں ہے نشاطِ دل سقوطِ غم نہیں ہے نگاہِ عشق ہی محرم نہیں ہے اشارہ حسن کا مبہم نہیں ہے عذابِ آخرت کو سوچیے کیا عذابِ زندگی کچھ کم نہیں ہے ہجومِ غم سے مشکل سانس لینا یہ جینا موت سے کچھ کم نہیں ہے گناہوں سے مبرّا ہو تو کیوں کر فرشتہ کچھ بنی آدم نہیں ہے کسے مونس کوئی جا کر...
  4. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: مرے عرضِ مدعا میں کوئی پیچ و خم نہیں ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    مرے عرضِ مدعا میں کوئی پیچ و خم نہیں ہے وہ سمجھ کے بھی نہ سمجھیں تو یہ کیا ستم نہیں ہے مرے دل میں غم ہزاروں مگر آنکھ نم نہیں ہے یہ زمانہ کیسے مانے جو ثبوتِ غم نہیں ہے خلش، اضطراب و شورش کہ غم و الم نہیں ہے بہ طفیلِ عشق یعنی مجھے کیا بہم نہیں ہے زنقوشِ یادِ رنگیں گل و گلستاں کا عالم مرے دل میں...
  5. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: کیا یہ غمِ جاناں کا تو اعجاز نہیں ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    کیا یہ غمِ جاناں کا تو اعجاز نہیں ہے اب دل پہ کوئی غم اثر انداز نہیں ہے مونس کوئی ہمدم کوئی دم ساز نہیں ہے کیا بات کریں جب کوئی ہم راز نہیں ہے مائل بہ کرم ہیں وہ مرے حال پہ اب بھی نظروں کا وہ پہلا سا پہ انداز نہیں ہے دنیا طلبی حد سے بڑھی جاتی ہے لیکن دیں کے لیے اب کوئی تگ و تاز نہیں ہے اللہ...
  6. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: دل ابھی گہوارۂ اوہام ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    دل ابھی گہوارۂ اوہام ہے رشتۂ ایماں ابھی تک خام ہے کفر سے آلودہ اُف اسلام ہے جی رہا ہوں موت کا ہنگام ہے موت ہے وجہِ سکونِ زندگی ابتدا منت کشِ انجام ہے حسن محتاجِ نگاہِ عشق کب حسن اپنا آپ ہی انعام ہے خوفِ رسوائی سے نالہ کش نہیں لوگ یہ سمجھے مجھے آرام ہے بے کسی، مجبوریاں، درد، آہ و غم...
  7. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: حسیں جتنی مری دنیائے دل ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    حسیں جتنی مری دنیائے دل ہے کہاں اتنا جہانِ آب و گِل ہے سیاہی ابرِ غم کی مستقل ہے تبسم کی چمک گاہے مخل ہے ازل ہی سے معذّب ہائے دل ہے محبت اک عذابِ مستقل ہے تھی جس سے یاد وابستہ کسی کی وہ زخمِ دل بھی اب تو مندمل ہے جنابِ شیخ سے مت بولیے گا ذرا میں طبعِ نازک مشتعل ہے ذرا پی کر ہی دیکھیں...
  8. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: رخ سے نقاب اٹھ گیا قہرِ تجلیات ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    رخ سے نقاب اٹھ گیا قہرِ تجلیات ہے دیکھ ابھی نہ الحذر لمحۂ حادثات ہے تیری ہی ذات باعثِ رونقِ کائنات ہے تیری ہی یاد سے سجی بزمِ تصورات ہے یوں تو ہر ایک رند پر ساقی کا التفات ہے مجھ پہ ہے کچھ سوا مگر میری کچھ اور بات ہے زخم کچھ اور داغ کچھ، اور متاعِ آرزو دل کو ٹٹولتے ہو کیا کل یہی کائنات ہے...
  9. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: جلوہ فرمائے دو عالم ہے مگر روپوش ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    جلوہ فرمائے دو عالم ہے مگر رو پوش ہے حسنِ معنی شوخیوں میں بھی حیا آغوش ہے پینے والے ہی نہ ہوں محفل میں تو امرِ دگر ورنہ ساقی تو ازل سے میکدہ بردوش ہے ہوش والوں کا تمسخر کیوں ہے اے مستِ جنوں نقطۂ آغاز تیرا بھی رہینِ ہوش ہے بعدہٗ کیا کیفیت گزری نہیں معلوم کچھ صاعقے چمکے تھے نزدِ آشیاں یہ...
  10. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: طورِ سینا کی کہانی اور ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    طورِ سینا کی کہانی اور ہے دل پہ کچھ جلوہ فشانی اور ہے شیخ جی کی لن ترانی اور ہے خوبیِ رطب اللسانی اور ہے قصّۂ ماضی سے ملتی ہی نہیں میری موجودہ کہانی اور ہے شوق سے ہوتا ہے دل ایذا طلب عشق کی ایذا رسانی اور ہے مسکرا دینا بھی پہلوئے خوشی دل کی لیکن شادمانی اور ہے رقص و نغمہ کب ہے، کب ہے...
  11. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: بہ شکلِ دل ہی تمہیں دل کی جستجو کیا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    بہ شکلِ دل ہی تمہیں دل کی جستجو کیا ہے اسی جگہ پہ یہ دیکھیں لہو لہو کیا ہے خدا کی ذات پہ یہ بحث و گفتگو کیا ہے سمجھ لے اپنی حقیقت کو پہلے تُو کیا ہے گہر بنا ہے چمکتا ہوا یہ خونِ صدف نہیں تو قطرۂ نیساں کی آبرو کیا ہے ہزار عالمِ رنگیں ہیں دل کی دنیا میں مری نگاہ میں دنیائے رنگ و بو کیا ہے...
  12. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: دنیائے عمل میں اے غافل سو جانے میں سب کچھ کھونا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    دنیائے عمل میں اے غافل! سو جانے میں سب کچھ کھونا ہے دو چار دنوں کی بات ہے یہ تا حشر تجھے پھر سونا ہے بیکار ہیں قسمت کے شکوے، بیکار یہ رونا دھونا ہے منظور ہے جو کچھ قدرت کو، واللہ وہی کچھ ہونا ہے یہ راہِ وفا ہے ہم نفسو! اس میں تو یہ سب کچھ ہونا ہے غم سہنا ہے، جاں کھونا ہے اور خون کے آنسو رونا...
  13. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: پختہ وہ راہِ محبت میں کہاں ہوتا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    پختہ وہ راہِ محبت میں کہاں ہوتا ہے جس کو کچھ وسوسۂ سود و زیاں ہوتا ہے آہ کش ہے کبھی سرگرمِ فغاں ہوتا ہے دل کی تقدیر میں آرام کہاں ہوتا ہے وقت حیرت زدہ ٹھہرا کہ جہاں ہوتا ہے شبِ اسرا جو کوئی عرش مکاں ہوتا ہے عالمِ جذبِ تصور مرا سبحان اللہ جیسے وہ سامنے بیٹھے ہیں گماں ہوتا ہے زخمِ شمشیر و...
  14. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: ان کی الفت کا جہاں شور و شرر ہوتا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    ان کی الفت کا جہاں شور و شرر ہوتا ہے دل وہی مرکزِ الطافِ نظر ہوتا ہے ہوش اڑ جاتے ہیں بے چاری خرد کے دیکھا غم مقابل ہو تو دل سینہ سپر ہوتا ہے واعظِ شہر نے برباد کیا وقت مرا صرف باتوں کا کہیں دل پہ اثر ہوتا ہے لاکھ انسانوں میں ہوتا ہے کوئی ایک بشر یوں بشر کہنے کو ہر شخص بشر ہوتا ہے میں تو...
  15. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: بے سبب کب کسی سے ملتا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    بے سبب کب کسی سے ملتا ہے خود غرض کام ہی سے ملتا ہے دردِ سر ، سر بسر ہے آقائی کیفِ دل بندگی سے ملتا ہے دین و دنیا میں ہر بلند مقام بس تری پیروی سے ملتا ہے سلسلہ ظاہری ہے یہ جتنا پردۂ غیب ہی سے ملتا ہے دل کو کیفِ تمام و سوزِ مدام جذبۂ عاشقی سے ملتا ہے ہے تکبر متاعِ رسوائی مرتبہ عاجزی سے...
  16. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: اف کہ گرویدۂ اصنام ہوا جاتا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    اف کہ گرویدۂ اصنام ہوا جاتا ہے کیا سے کیا پیروِ اسلام ہوا جاتا ہے چشمِ ساقی کا جو انعام ہوا جاتا ہے خود ہی دل مجتنبِ جام ہوا جاتا ہے بے نیازِ غمِ ایام ہوا جاتا ہے دل کو اس طرح کچھ آرام ہوا جاتا ہے زندگی بھر نہ ملی قبر کی منزل مجھ کو مر کے اب فاصلہ دو گام ہوا جاتا ہے اشک آنکھوں میں نظرؔ...
  17. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: ہر بات ہے الٹی دنیا کی الٹے ہیں سب اس کے افسانے ٭ نظرؔ لکھنوی

    ہر بات ہے الٹی دنیا کی الٹے ہیں سب اس کے افسانے جب ہوش خرد کو آیا کچھ کہلائے گئے ہم دیوانے تاریک پسندی عام سہی پھر بھی ہے قرینہ محفل کا جب شمعِ حقیقت جل اٹھی گرد آ ہی گئے کچھ پروانے ہے ہوش ہمیں اتنا تو ابھی مجبور نہ کر اے وحشتِ دل برباد ہی ہوتا معمورہ آباد کروں گر ویرانے طوفانِ مجسم بن کے وہی...
  18. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: رہِ صواب کو چھوڑیں کبھی نہ فرزانے ٭ نظرؔ لکھنوی

    رہِ صواب کو چھوڑیں کبھی نہ فرزانے ہماری طرح سے وہ تو نہیں ہیں دیوانے چلے ہیں فلسفۂ عشق سب کو سمجھانے جنابِ شیخ کو کیا ہو گیا خدا جانے پھِرا کے سَبحۂ گرداں کے ایک سو دانے چلا ہے زاہدِ ناداں خدا کو اپنانے وہ اپنی بات سے پھرتے نہیں کبھی کہہ کر ہم اپنے دین سے پھر جائیں ایسے دیوانے قدم اٹھانے سے...
  19. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: محوِ دیدارِ بتاں تھے پہلے ٭ نظرؔ لکھنوی

    محوِ دیدارِ بتاں تھے پہلے ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے خود بھی خود پر نہ عیاں تھے پہلے وہ بھی آئے ہی کہاں تھے پہلے اتنے کب شعلہ بجاں تھے پہلے ہم کو غم اتنے کہاں تھے پہلے دور تر ہم سے ہوئی ہے منزل اب وہاں کب کہ جہاں تھے پہلے اب تو ہیں خود ہی معمہ ہم لوگ کاشفِ سرِّ نہاں تھے پہلے اپنی منزل پہ...
  20. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: کام ہونے کا نہیں آہِ رسا سے پہلے ٭ نظرؔ لکھنوی

    کام ہونے کا نہیں آہِ رسا سے پہلے ختم ہو جائیں گے ہم ختمِ جفا سے پہلے طالبِ مرگ تری سادہ دلی کے صدقے زندگی پھر تو نہیں پوچھ قضا سے پہلے تقویِٰ واعظِ ناداں سے خدا کی ہے پناہ مے بھی پیتا نہیں جو حمد و ثنا سے پہلے کون سا سانپ تجھے سونگھ گیا اے فرعون سانپ پھرتے تھے بہت ضربِ عصا سے پہلے نارِ دوزخ...
Top