پہلی بات ہی آخری تھی از منیر نیازی
پہلی بات ہی آخری تھی
اس سے آگے بڑھی نہیں
ڈری ہوئی کوئی بیل تھی جیسے
پورے گھر پہ چڑھی نہیں
ڈر ہی کیا تھا کہہ دینے میں
کھل کر بات جو دل میں تھی
آس پاس کوئی اور نہیں تھا
شام تھی نئی محبت کی
ایک جھجک سی ساتھ رہی کیوں
قرب کی ساعتِ حیراں میں
حد سے آگے بڑھنے کی
پھیل...
اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا
جان کر ہم نے انھیں نا مہرباں رہنے دیا
آرزوِ قرب بھی بخشی دلوں کو عشق نے
فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا
کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا
اپنے اپنے حوصلے اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے تمھیں سارا جہاں رہنے دیا...
زود پشیماں از پروین شاکر
گہری بھوری آنکھوں والا اک شہزادہ
دور دیس سے
چمکیلے مُشکی گھوڑے پر ہوا سے باتیں کرتا
جگر جگر کرتی تلوار سے جنگل کاٹتا
دروازے سے لپٹی بیلیں پرے ہٹاتا
جنگل کی بانہوں میں جکڑے محل کے ہاتھ چھڑاتا
جب اندر آیا تو دیکھا
شہزادی کے جسم کی ساری سوئیاں زنگ آلودہ تھیں
رستہ دیکھنے...
اس نے حق بات کو لوگوں سے چھپا رکھا ہے
اک تماشا سا سر بازار لگا رکھا ہے
وہ کہتا ہے کہ انصاف ملے گا سب کو
جس نے منصف کو بھی سولی پے چڑھا رکھا ہے
اس نے چوروں سے سر عام شراکت کی ہے
اس نے قاتل کو بھی مسند پے بٹھا رکھا ہے
اے خدا، لوگ دیکھتے ہیں تجھے اور تو نے
ایک فوعون کی مہلت...
"غزل"
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق طاری ہے
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمھاری ہے
اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتطاری ہے
ایک مہک سمت دل سے آئی تھی
میں یہ سمجھا تری سواری ہے
خوش رہے تو کہ زندگی...
سرابِ شب بھی ہے ، خوابِ شکستہ پا بھی ہے
کہ نیند مانگتے رہنے کی کچھ سزا بھی ہے
تمام عمر چنوں گی میں ریزہ ریزہ تجھے
پسِ غبارِ نگہ ایک آءینہ بھی ہے
سپردِ رقص کیا میں نے ہر تمنا کو
لہو کے شور کی اب کوءی انتہا بھی ہے
میں کیوں نہ ایک ہی قطرہ سے سیر ہو جاءوں
کسی کی پیاس کو دریا کبھی ملا...
ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے
دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لیے
ہم نے تو اپنے جسم پہ زخموں کے آئینے
ہر حادثے کی یاد سمجھ کر سجا لیے
میزانِ عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
لوگوں کی چادروں پہ بناتی...
عذاب یہ بھی کسی اور پر نہیں آیا
کہ ایک عمر چلے اور گھر نہیں آیا
اس ایک خواب کی حسرت میں جل بجھیں آنکھیں
وہ ایک خواب کہ اب تک نظر نہیں آیا
کریں تو کس سے کریں نا رسائیوں کا گلہ
سفر تمام ہوا ہم سفر نہیں آیا
دلوں کی بات بدن کی زباں سے کہہ دیتے
یہ چاہتے تھے مگر دل ادھر نہیں آیا
عجیب ہی تھا...
خاموشی خود اپنی صدا ہو ، ایسا بھی ہوسکتا ہے
سناٹا ہی گونج رہا ہو ، ایسا بھی ہوسکتا ہے
میرا ماضی مجھ سے بچھڑ کر ، کیا جانے کس حال میں ہے
میری طرح وہ بھی تنہا ہو ، ایسا بھی ہوسکتا ہے
صحرا صحرا کب تک میں ، ڈھونڈوں الفت کا ایک عالم
عالم عالم ایک صحرا ہو ، ایسا بھی ہوسکتا ہے
اہلِ...
بے بسی جرم ہے ، حوصلہ جرم ہے
زندگی تیری اک اک ، ادا جرم ہے
اے صنم تیرے بارے میں کچھ سوچ کر
اپنے بارے میں کچھ سوچنا ، جرم ہے
یاد رکھنا تجھے ، میرا ایک جرم تھا
بھول جانا تجھے ، دوسرا جرم ہے
کیا ستم ہے کہ تیرے ، حسیں شہر میں
ہر طرف غور سے دیکھنا ، جرم ہے
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کوگھر کر دے
یہ روشنی کے تعاقب میں بھاگتا ہوا دن
جو تھک گیا ہے تو اب اس کو مختصر کر دے
میں زند گی کی دعا مانگنے لگا ہوں بہت
جو ہو سکے تو دعاؤں کو بے اثر کر دے
ستارۂ سحری ڈو بنے کو آیا ہے
ذرا کوئی میرے سورج کو باخبر...
مجبوری
میں تم کو تنگ کرتا ہوں
تمہیں غصہ بھی آتا ہے
کبھی تم مسکراتے ہو
کبھی آنکھیں دکھاتے ہو
کبھی تم شوخ لگتے ہو
کبھی گھبرا بھی جاتے ہو
تمہاری سب ادائیں کس قدر حیران کرتی ہیں
کبھی میں سوچتا ہوں
لطف تو آتا ہے تم کو بھی !
کبھی محسوس ہوتا ہے تمہارا دل دکھاتا ہوں
مگر پھر بھی...
آپ نے یہ غزل سماعت فرمائی ہوگی، مسرت نذیر اور جگجیت سنگھ نے اسے گایا ہے اور دونوں نے گائیکی کا حق ادا کردیا ہے، مگر شاید جگجیت نے یہ غزل زیادہ اچھی گائی اور اسلیئے بھی کہ اسکے شعروں کا انتخاب اعلی ہے، مقطع بھی مسرت نذیر نے نہیں گایا، بہرحال مکمل غزل پیش ہے.
اہنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے...
دل میں اب آواز کہاں ہے
ٹوٹ گیا تو ساز کہاں ہے
آنکھ میں آنسو لب پہ خموشی
دل کی بات اب راز کہاں ہے
سرو و صنوبر سب کو دیکھا
ان کا سا اندا ز کہاں ہے
دل خوابیدہ، روح فسردہ
وہ جوشِ آغاز کہاں ہے
پردہ بھی جلوہ بن جاتا ہے
آنکھ تجلی ساز کہاں ہے
بت خانے کا عزم ہے ماہر
کعبے کا در باز کہاں ہے...
یہ دشتِ ہجر یہ وحشت یہ شام کے سائے
خدا یہ وقت تری آنکھ کو نہ دکھلائے
اسی کے نام سے لفظوں میں چاند اترے ہیں
وہ ایک شخص کہ دیکھوں تو آنکھ بھر آئے
کلی سے میں نے گلِ تر جسے بنایا تھا
رتیں بدلتی ہیں کیسے، مجھے ہی سمجھائے
جو بے چراغ گھروں کو چراغ دیتا ہے
اسے کہو کہ مرے شہر کی طرف آئے
یہ...
حقیقت کا اگر افسانہ بن جائے تو کیا کیجے
گلے مل کر بھی وہ بیگانہ بن جائے تو کیا کیجے
ہمیں سو بار ترکِ مے کشی منظور ہے لیکن
نظر اس کی اگر میخانہ بن جائے تو کیا کیجے
نظر آتا ہے سجدے میں جو اکثر شیخ صاحب کو
وہ جلوہ، جلوۂ جانانہ بن جائے تو کیا کیجے
ترے ملنے سے جو مجھ کو ہمیشہ منع کرتا ہے
اگر...
وہ نہیں ملا تو ملال کیا ، جو گذر گیا سو گذر گیا
اُسے یاد کرکے نہ دل دُکھا ، جو گذر گیا سو گذر گیا
نہ گلہ کیا ، نہ خفا ہوئے ، یونہی راستے میں جدا ہوئے
نہ تُو بے وفا ، نہ میں بے وفا ، جو گذر گیا سو گذر گیا
تجھے اعتبار و یقین نہیں ، نہیں دنیا اتنی بُری نہیں
نہ ملال کر ، میرے ساتھ آ ،...
بزم سے جب نگار اٹھتا ہے
میرے دل سے غبار اٹھتا ہے
میں جو بیٹھا ہوں تو وہ خوش قامت
دیکھ لو! بار بار اٹھتا ہے
تیری صورت کو دیکھ کر مری جاں
خود بخود دل میں پیار اٹھتا ہے
اس کی گُل گشت سے روش بہ روش
رنگ ہی رنگ یار اٹھتا ہے
تیرے جاتے ہی اس خرابے سے
شورِ گریہ ہزار اٹھتا ہے
کون ہے جس...
جدھر دیکھو ہجومِ رہبراں ہے
کدھر ڈھونڈوں مرا رہزن کہاں ہے
جرس کی ہر صدا اب رائگاں ہے
تباہی کارواں در کارواں ہے
لہو کی بُو ہے، آتش ہے دھواں ہے
بہرسُو گلستاں جنت نشاں ہے
معاذ اللہ پستی کی بلندی
زمیں اُوپر ہے، نیچے آسماں ہے
وہ ایماں کا صفایا کر چکے ہیں
اب ان کا شغل، استحصالِ جاں ہے...
یہ شعلہ نہ دب جائے یہ آگ نہ سو جائے
پھر سامنے منزل ہے ایسا نہ ہو کھو جائے
ہے وقت یہی یارو، جو ہونا ہے ہو جائے
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم
ہر جابر و ظالم کا کرتے ہی چلو سر خم
اس وادی پرخوں سے اٹھے گا دھواں کب تک
محکومی گلشن پر روئے گا سماں کب تک
محروم نوا ہوگی غنچوں کی زباں کب تک...