زندگی بھی مہنگی ھے، موت بھی نہیں سستی
یہ زمین بے سایہ
گھر گئی خدا جانے کن عجب عذابوں میں
بے وجود سایوں کا یہ جو کارخانہ ھے
کن عجب سرابوں میں کس طرف روانہ ھے؟
نیستی ھے یا ہستی!
زندگی بھی مہنگی ھے موت بھی نہیں سستی
(امجد اسلام امجد)
یہ جو اب موڑ آیا ھے
یہاں رک کر کئی باتیں سمجھنے کی ضرورت ھے
کہ یہ اس راستے کا ایک حصہ ہی نہیں، سارے
سفر کا جانچنے کا ، دیکھنے کا ، بولنے کا
ایک پیمانہ بھی ھے، یعنی
یہ ایسا آئینہ ھے
جس میں عکسِ حال و ماضی اور مستقبل
بہ یک لمحہ نمایاں ہے
یہ اس کا استعارہ ھے
سنا ھے ریگِ صحرا کے سفر میں...
ملتا تھا وہ جہاں اسی آنگن میں لے کے چل
اے چاند پھر مجھے مرے بچپن میں لے کے چل
نایاب ہے یہ گردش سیارگاں کی راکھ
کچھ سر پہ ڈال کف و دامن میں لے کے چل
اے نو بہار ناز و کم آمیز اپنے ساتھ
اب کے ہمیں بھی بھیگتے ساون میں لے کے چل
پہروں ہس اک خیال کی خاموشیاں سنوں
آبادیوں سے دور کسی بن میں...
بے نام لمحوں کے نام اک بلاعنوان سوچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے طفل عقل بیٹھ کے فرصت کو اب نہ رو
وحشت یہ کہہ رہی ہے کہ وحشت کو اب نہ رو
حالت یہ بے سبب ہے تو حالت کو اب نہ رو
وہ کھیل تھا سمجھتا تھا تو جس کو کوئی کام
اب بے بسی میں دوڑتا رہ "کیا" سے "کیوں" تلک
حسرت ہے آئینے کی تو حیرت کو اب نہ رو...
ایک سکوت و اک صدا سینہ بہ سینہ نے بہ نے
خامہ بہ خامہ لب بہ لب صفحہ بہ صفحہ لے بہ لے
بے خبران ہست و نیست ڈوب لئے ابھر لئے
لمحہ بہ لمحہ دم بہ دم وقفہ بہ وقفہ پے بہ پے
دریا دلی بہ بے دلی مستی بہ قید و بند ہوش
مینا بہ مینا خم بہ خم نشہ بہ نشہ مے بہ مے
آہ سر لب فقیر یعنی حقارت حقیر
نفی...
یونہی بے سودا جینا ہے تو سر کا کیا کروں
دید بھی نادید ہو جب تو نظر کیا کیا کروں
جب ارادہ ہی نہ ہو جب کو جادہ ہی نہ ہو
پاؤں کا میں کیا کروں میں رہگزر کا کیاکروں
جب نہ اڑنے اور اڑنے کا محاصل ایک ہو
بے پری کیا کیا کروں میں بال و پر کا کیا کروں
گو پڑی ہے عجلت دل کو سہولت کی مگر
اس اگر...
کتنے اچھے تھے ہم دونوں
دھن کے پکے تھے ہم دونوں
مخلص مخلص پاگل پاگل
ایک ہی جیسے تھے ہم دونوں
مل جاتے تو پورے ہوتے
آدھے آدھے تھے ہم دونوں
واپس آنا تھا ناممکن
گزرے لمحے تھے ہم دونوں
خشک ہوئے صحرا کی صورت
جھیل سے گہرے تھے ہم دونوں
سلب کیا حالات نے ہم کو
خودرو پودے تھے ہم دونوں...
اپنی بود و باش نہ پُوچھو
ہم سب بے توقیر ہوئے
کون گریباں چاک نہیں ہے
ہم ہوئے تم ہوئے میر ہوئے
سہمی سہمی دیواروں میں
سایوں جیسے رہتے ہیں
اس گھر میں آسیب بسا ہے
عامل کامل کہتے ہیں
دیکھنے والوں نے دیکھا ہے
اک شب جب شب خون پڑا
گلیوں میں بارود کی بُو تھی
کلیوں پر سب خون پڑا
اب کے غیر...
مغربی اسلوب کی ماری ہوئی کچھ لڑکیاں
بات کرنا انگلو اردو میں سمجھیں فرض بھی
کر رہی تھی گھر میں پنکی بات یہ سسٹرز سے
پڑھ کے امریکہ سے آئے ہیں میرے سسرز بھی
باجی سچ مانو وہ اپنی "جینز" میں شاہینز ہیں
وہ لگیں ٹیچرز بھی ایکٹرز بھی شوہرز بھی
"مسجدز" میں جاکے یہ کوئی کہے "ملاز" سے
رنگ کچھ...
کس شہر نہ شہرہ ہوا نادانئ دل کا
کس پر نہ کھلا راز پریشانئ دل کا
آؤ کریں محفل پہ زر زخم نمایاں
چرچا ہے بہت بے سروسامانئ دل کا
دیکھ آہیں چلو کوئے نگاراں کا خرابہ
شاید کوئی محرم ملے ویرانی دل کا
پوچھو تو ادھر تیر فگن کون ہےیارو
سونپا تھا جسے کام نگہبانئ دل کا
دیکھو تو کدھر آج رخ بادصبا ہے...
ریاض خیرآبادی اردو شاعری میں خمریات کے امام ہیں، انکی ایک غزل نمونۂ کلام کے طور پر:
جس دن سے حرام ہو گئی ہے
مے، خلد مقام ہو گئی ہے
قابو میں ہے ان کے وصل کا دن
جب آئے ہیں شام ہو گئی ہے
آتے ہی قیامت اس گلی میں
پامالِ خرام ہو گئی ہے
توبہ سے ہماری بوتل اچھّی
جب ٹوٹی ہے، جام ہو گئی ہے
مے...
مینا کماری جس کا اصل نام 'ماہ جبین بانو' تھا انڈین فلموں میں ٹریجڈی کوئین کے طور پر مشہور ہوئی۔ وہ ایک شاعرہ بھی تھی اور ناز تخلص کرتی تھی۔
مینا کماری ناز کی ایک غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔
ذیل میں مینا کماری کی اپنی آواز میں اس غزل کی آڈیو بھی منسلک کر رہا ہوں...
کون دہرائے وہ پرانی بات
غم بھی سویا ہے جگائے کون
وہ جو اپنے ہیں ، کیا وہ اپنے ہیں
کون دُکھ جھیلے ، آزمائے کون
اب سُکھ ہے تو بھلانے میں ہے
لیکن اُس شخص کو بھلائے کون
آج پھر دل ہے کچھ اداس اداس
دیکھیئے آج یا د آئے کون ؟؟؟ جاوید اختر ۔
؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏؏
بے شک ان دونوں ممالک کی اسلام دشمنی اب کھل کر سامنے آئی ہے مگر جناب ضمیر جعفری نے یکم اگست 1995 کو جو لکھا وہ آپکی نظر ہے
دیکھے مغرب میں کیا عجیب سور
قامت فیل کے قریب سور
ہر خرابی میں "خر" خرا دے سے
بے سوادے سے، بد نہادے سے
اپنے ارذل تریں قبیلے کے
کچھ حرامی امیر زادے سے
صاف شفاف...
کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے
کہیں آنکھیں، کہیں چہرا نہیں ہے
یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے
یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے
جہاں پر تھے تری پلکوں کے سائے
وہاں اب کوئی بھی سایا نہیں ہے
زمانہ دیکھتا ہے ہر تماشہ
یہ لڑکا کھیل سے تھکتا نہیں ہے
ہزاروں شہر ہیں ہمراہ اس کے
مسافر دشت میں تنہا نہیں ہے...
كوئی بھی لمحہ كبھی لوٹ كر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا
وفا كے دشت میں رستہ نہیں ملا كوئی
سوائے گرد سفر ہم سفر نہیں آیا
پَلٹ كے آنے لگے شام كے پرندے بھی
ہمارا صُبح كا بُھولا مگر نہیں آیا
كِسی چراغ نے پُوچھی نہیں خبر میری
كوئی بھی پُھول مِرے نام پر نہیں آیا
چلو كہ...
خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
شۂ بے خودی نے عطا کیا، مجھے اب لباسِ برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی، نہ جنوں کی پردہ دری رہی
چلی سمتِ غیب سے اک ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہیں سو ہری رہی
نظرِ تغافلِ...
پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دیے
پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دیے
نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو رو دیے
غنچہ کسی نے شاخ سے توڑا تو رو دیے
اڑتا ہوا غبار سرِ راہ دیکھ کر
انجام ہم نے عشق کا سوچا تو رو دیے
بادل فضا میں آپ کی تصویر بن گئے
سایہ کوئی خیال سے گزرا تو رو دیے
رنگِ شفق سے آگ...
ہم نے ہی لَوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا
دکھ اوڑھتے نہیں کبھی جشنِ طرب میں ہم
ملبوس دل کو تن کا لبادہ نہیں کیا
جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود
سر زیرِ بارِ ساغر و بادہ نہیں کیا
کارِ جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام
اس نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا
آمد...