کراچی پاکستان

  1. کاشفی

    سب تھے منظورِ نظر ، ایک میں رسوا تھا فقط - ڈاکٹر جاوید جمیل

    غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل سب تھے منظورِ نظر ، ایک میں رسوا تھا فقط تھے تماشائی سبھی، میں ہی تماشا تھا فقط سامنے حدِ نظر تک مرے صحرا تھا فقط اور یہ نظارہ ہی جینے کا سہارا تھا فقط اس کی دولت کی تمنا مری دشمن نکلی میرے قبضے میں محبت کا خزانہ تھا فقط ایسا محسوس ہوا جیسے کہ تو آیا تھا در حقیقت ترے...
  2. کاشفی

    سہہ نہیں پائیں گے فرقت کی سزا جیتے جی - ڈاکٹر جاوید جمیل

    غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل سہہ نہیں پائیں گے فرقت کی سزا جیتے جی ہم تو مر جائیں گے ہمدم بخدا جیتے جی آؤ کروادیں ملاقات دلوں کی چھپ کر دیکھنا پھر نہ کبھی ہونگے جدا جیتے جی تو نے سجھا تری ہر چیز ترے ساتھ گئی مجھ سے بچھڑے گی نہ خوشبوئے حنا جیتے جی تو نے اک بات کہی کہہ کے جسے بھول گیا بات نے تیری...
  3. کاشفی

    چپ چاپ کر کے کام وہ بزدل کہاں گیا - ڈاکٹر جاوید جمیل

    غزل ڈاکٹر جاوید جمیل چپ چاپ کر کے کام وہ بزدل کہاں گیا جذباتِ التفات کا قاتل کہاں گیا آتے ہی جس نے شمع بجھادی بلا سبب وہ نامراد دشمنِ محفل کہاں گیا تم ہی تلاش کرکے بتا دو کچھ اسکا حال ہم کو تو یہ پتہ ہی نہیں دل کہاں گیا ہم تو مقابلے کو بھنور سے نکل پڑے یہ تم خیال رکھنا کہ ساحل کہاں گیا پیدا...
  4. کاشفی

    خواب میں آکر یاد تمہاری پہلو بدلتی ہے - راشد آزر

    غزل (راشد آزر) خواب میں آکر یاد تمہاری پہلو بدلتی ہے بستر کی ہر سلوَٹ میں اک کروٹ جلتی ہے سینے میں سیلاب امنڈتا ہے ارمانوں کا جب کچھ کرجانے کی خواہش دل کو مسلتی ہے زیست ہماری کچھ ایسی ہے جیسی لغزشِ پا خود ہی ٹھوکر کھاتی ہے اور خود ہی سنبھلتی ہے بہتا دریا مت سمجھو اس سے گھبرانا کیا عمر ہماری...
  5. کاشفی

    ہم سوچتے تھے طاقتِ گفتار رہ گئی - راشد آزر

    غزل (راشد آزر) ہم سوچتے تھے طاقتِ گفتار رہ گئی پر ہم میں صرف جراءتِ انکار رہ گئی شہرِ ہوس نے لُوٹی متاعِ ہنر تو کیا بیدار دل میں خواہشِ پیکار رہ گئی رخصت ہوئی اُمیدِ وصال آرزو کے ساتھ لے دے کے ایک حسرتِ دیدار رہ گئی ذوقِ جگر خراشی کہاں، خوش دِلی کہاں سب کھو چکے ہیں، چشم گنہگار رہ گئی ہے فخر...
  6. کاشفی

    تمہارا نام لے کر در بہ در ہوتا رہوں گا - راشد آزر

    غزل (راشد آزر) تمہارا نام لے کر در بہ در ہوتا رہوں گا کہ برسوں داغ دل اشکوں سے میں دھوتا رہوں گا تو خوشیاں ہی سمیٹ اور غم مجھے دے دے، میں ہوں نا ترے حصے کی غمگینی کو میں روتا ہوں گا جگایا منتظر آنکھوں نے برسوں، اب یہ سوچا کہ مرنے کا بہانہ کرکے میں سوتا رہوں گا مجھے بس ایک لمحہ سوچنے دو، زندگی...
  7. کاشفی

    پڑی نظر جو مری تو شباب جھوم اٹھا - ڈاکٹر جاوید جمیل

    غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل پڑی نظر جو مری تو شباب جھوم اٹھا پڑا ہوا تھا جو اس پر نقاب جھوم اٹھا قبول اس نے کیا جیسے ہی وہ سرخ گلاب تو میں نے دیکھا خوشی سے گلاب جھوم اٹھا لپک کے پھرتی سے شیطان کو مٹا ڈالا فلک نے دیکھا کہ ساقب شہاب جھوم اٹھا کھڑی تھی دیر سے کشتی تو جھیل تھی خاموش چلائی جیسے ہی...
  8. کاشفی

    کیا جھیل، جھرنے، سا گر، دریا نہیں جہاں میں - ڈاکٹر جاوید جمیل

    غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل کیا جھیل، جھرنے، سا گر، دریا نہیں جہاں میں سیراب پھر بھی کوئی دیکھا نہیں جہاں میں دعوے سنو تو کوئی جھوٹا نہیں جہاں میں سچ یہ مگر ہے، کوئی سچا نہیں جہاں میں پیچھے ہے کیا کسی کے اور دل میں کیا چھپا ہے جو یہ بتا دے ایسا شیشا نہیں جہاں میں خود غرضیوں کی کھیتی ہوتی جہاں...
  9. کاشفی

    ہم سمجھ بیٹھےمئےناب خبربھی نہ ہوئی - رضیہ کاظمی

    غزل رضیہ کاظمی ۲۸مارچ ۲۰۱۳ ہم سمجھ بیٹھےمئےناب خبربھی نہ ہوئی تھی وہ تاثیرمیں تیزاب خبر بھی نہ ہوئی۔ ق آخرش جل کے ہوا خاک نشیمن اپنا۔۔۔۔ خود بھی ہوتےرہےغرقاب خبربھی نہ ہوئی تھی یہی کوشش بسیار نہ غم آئے پاس جمع ہوتے رہےاسباب خبر بھی نہ ہوئی ق اور پھرفضل خدا سےسبھی اندوہ مرے مثل گلشن ہوئے شاداب...
  10. کاشفی

    ایسی ہے چمک گویا اترا ماہ آنکھوں میں - ڈاکٹر جاوید جمیل

    غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل ایسی ہے چمک گویا اترا ماہ آنکھوں میں دفعتاً ابھر آئی دل کی چاہ آنکھوں میں بے حجاب ہونے کو ہے شباب بھی بیتاب ہے اِدھر بھی بیتابی بے پناہ آنکھوں میں ہو گیا سکوں غائب، بڑھ گئی ہے بیچینی کوئی آ کے بس بیٹھا خواہ مخواہ آنکھوں میں اس کا حسن ہے گویا پر کشش غزل کوئی دل میں...
  11. کاشفی

    رات گیسو، چاند چہرہ، زلف بادل، اور کیا - راشد آزر

    غزل (راشد آزر) رات گیسو، چاند چہرہ، زلف بادل، اور کیا اب ہمارے دیکھنے کو رہ گیا کل، اور کیا عشق میں تیرے ہوا کیا، اس سے بڑھ کر کیا کہیں چلتے چلتے رُک گیا تھا وقت اک پل، اور کیا کیا بیاں کرتے ترے ملنے کی کیفیت کہ جب تجھ کو دیکھا تو مچی تھی دل میں ہل چل، اور کیا کون ہے جو سُن سکے گا شرحِ...
  12. کاشفی

    قحط میرے لئے، برسات ہے اوروں کے لئے - ڈاکٹر جاوید جمیل

    غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل قحط میرے لئے، برسات ہے اوروں کے لئے میں اکیلا ہوں، ترا ساتھ ہے اوروں کے لئے بات اتنی ہے تجھے پیار ہوا ہے مجھ سے اتنی سی بات بڑی بات ہے اوروں کے لئے آنکھیں ہیں بند کہ بیدار، ہے اس پر موقوف دن ہے میرے لئے اور رات ہے اوروں کے لئے آپ کے اپنے یہاں قدرکہاں چھوٹوں کی آپ کا...
  13. کاشفی

    ہر ایک شب کو ترے نام ہونا پڑتا ہے - ڈاکٹر جاوید جمیل

    غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل ہر ایک شب کو ترے نام ہونا پڑتا ہے اداس دل کو سرِ شام ہونا پڑتا ہے خبیث تہمتیں دامن کو چیر جاتی ہیں تمہارے واسطے بدنام ہونا پڑتا ہے ہمیں سے لگتا نہیں ہے کسی پہ بھی الزام ہمیں کو موردِ الزام ہونا پڑتا ہے قلم ہیں کتنے جو تلوار بن کے جیتے ہیں یہاں قلم کو بھی نیلام ہونا...
  14. کاشفی

    لگتا تو یوں ہے جیسے سمجھتا نہیں ہے وہ - ڈاکٹر جاوید جمیل

    غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل لگتا تو یوں ہے جیسے سمجھتا نہیں ہے وہ معصوم جتنا لگتا ہے اتنا نہیں ہے وہ مجھ میں بسا ہوا بھی ہے وہ سر سے پیر تک اور کہہ رہا ہے یہ بھی کہ میرا نہیں ہے وہ کر دونگا موم باتوں میں سوز و گداز سے جذبات کی تپش سے مبرا نہیں ہے وہ واضح یہ کر چکا ہے یقیں دل کے وہم پر میرا ہے...
  15. کاشفی

    اہلِ ثروت کو محلات بنانے کی ہے فکر - ڈاکٹر جاوید جمیل

    غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل اہلِ ثروت کو محلات بنانے کی ہے فکر ہم غریبوں کو فقط جسم چھپانے کی ہے فکر کون کرتا ہے نگہداشت کسی کی لوگو جس کو دیکھو اسے اپنے کو بچانے کی ہے فکر ہم جدائی کے تصور سے بھی کانپ اٹھتے ہیں آپ کو ہم سے فقط پیچھا چھڑانے کی ہے فکر آپ ہر روزلگاتے ہیں پلستر اس پر ہم کو یہ بیچ...
  16. کاشفی

    جو برا تھا بھلا ہوگیا - ڈاکٹر جاوید جمیل

    غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل جو برا تھا بھلا ہوگیا جو بھلا تھا برا ہو گیا زہر کیا گھل گیا خاک میں ہر ثمر بے مزا ہو گیا کیوں منائیں اسے بار بار ہونے دو جو خفا ہو گیا دل ہوئے مبتلائے نفاق یہ مرض لا دوا ہو گیا میں ہوں ڈوبا ہوا شرم سے ہر کوئی بےحیا ہو گیا ڈھک لیا ارض نے اس طرح کہ قمر بے ضیا ہو گیا...
  17. کاشفی

    سفر کے مرحلے، اب دردِ سر بنے ہوئے ہیں - محمد ممتاز راشد

    غزل از: محمد ممتاز راشدؔ سفر کے مرحلے، اب دردِ سر بنے ہوئے ہیں یہ کیسے لوگ مرے ہم سفر بنے ہوئے ہیں ذرا سی آنچ ہیں، برق و شرر بنے ہوئے ہیں وہ ایک خوف کے مارے نڈر بنے ہوئے ہیں بساط کچھ نہیں، باتیں پیمبروں جیسی بجھے چراغ بھی شمس و قمر بنے ہوئے ہیں نہیں جمال میں ان کے کوئی بھی رنگِ جمال وہ اپنے...
  18. کاشفی

    خود ہی پہلے تو سمندر میں تھا کودا کوئی - ڈاکٹر جاوید جمیل

    غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل خود ہی پہلے تو سمندر میں تھا کودا کوئی اور اب ڈھونڈتا پھرتا ہے وہ تنکا کوئی ایسوں ایسوں میں بھی دیکھی ہے نزاکت ہم نے حسن سے جنکا نہیں دور کا رشتہ کوئی ہم تری بزم سے چپ چاپ چلے جائینگے اب خدارا نہ کھڑا کرنا تماشا کوئی ایک بس تیری تمنا تھی جو کر بیٹھے تھے چاہ کر بھی...
  19. کاشفی

    انسان! رہے یاد کہ مرنا بھی پڑے گا - ڈاکٹر جاوید جمیل

    غزل از ڈاکٹر جاوید جمیل انسان! رہے یاد کہ مرنا بھی پڑے گا اور قبر کے گڈھے میں اترنا بھی پڑے گا کرنا ہے اگر سارے زمانے کو معطر خوشبو! تجھے ہر سمت بکھرنا بھی پڑے گا معشوق کو گرویدہ اگر کرنا ہے اپنا مرغوب طریقے سے سنورنا بھی پڑے گا مانا کہ تری آنکھیں سمندر سی ہیں گہری اس گہرے سمندر میں اترنا...
  20. کاشفی

    ہم ترے عشق میں ہر درد سے ہیں بے بہرا - راشد آزر

    غزل (راشد آزر) ہم ترے عشق میں ہر درد سے ہیں بے بہرا لے ترے حسن کے سر جاتا ہے اس کا سہرا ہم نے تو حسن کا معیا ر تجھے جا نا ہے کھل کے ہر رنگ لگے تیرے بدن پر گہرا کس کے روکے سے رکا دشت نوردی کا جنوں میری وحشت کے لئے کم ہے کوئی بھی صحرا یاد کوئل کی دلاتی ہے ترے گیت کی لَے...
Top