غزل
بتاؤں کِس طرح احباب کو آنکھیں جو ایسی ہیں
کہ کل پلکوں سے ٹُوٹی نیند کی کرچیں سمیٹی ہیں
سفر مَیں نے سمندر کا کِیا کاغذ کی کشتی میں
تماشائی نِگاہیں اِس لیے بیزار اِتنی ہیں
خُدا میرے! عطا کرمجھ کو گویائی، کہ کہہ پاؤں
زمِیں پر رات دِن جو باتیں ہوتی مَیں نے دیکھی ہے
تُو اپنے فیصلے سے وقت! اب...
غزل
ہر بات میں مہکے ہُوئے جذبات کی خوشبوُ
یاد آئی بہت، پہلی مُلاقات کی خوشبوُ
چُھپ چُھپ کے نئی صُبح کا مُنہ چُوم رہی ہے
اُن ریشمی زُلفوں میں بَسی، رات کی خوشبوُ
موسم بھی ، حَسِینوں کی ادا سِیکھ گئے ہیں
بادل ہیں چھپائے ہُوئے برسات کی خوشبوُ
گھر کتنے ہی چھوٹے ہوں ، گھنے پیڑ ملیں گے !
شہروں سے...
غزل
اچھّا تمھارے شہر کا دستوُر ہو گیا
جِس کو گلے لگا لِیا ، وہ دُور ہو گیا
کاغذ میں دب کے مر گئے کیڑے کتاب کے
دِیوانہ بے پڑھے لِکھے مشہوُر ہو گیا
محلوں میں ہم نے کتنے سِتارے سجا دیئے
لیکن زمِیں سے چاند بہت دُور ہو گیا
تنہائیوں نے توڑ دی ہم دونوں کی انا!
آئینہ بات کرنے پہ مجبوُر ہو گیا...
غزل
شانِ عطا کو، تیری عطا کی خبر نہ ہو !
یُوں بِھیک دے، کہ دستِ گدا کو خبر نہ ہو
چُپ ہُوں، کہ چُپ کی داد پہ ایمان ہے مِرا
مانگوں دُعا جو میرے خُدا کو خبر نہ ہو
کر شوق سے شِکایتِ محرُومئ وَفا
لیکن مِرے غرُورِ وَفا کو خبر نہ ہو
اِک رَوز اِس طرح بھی مِرے بازوؤں میں آ
میرے ادب کو، تیری...
غزل
نہ وہ مِلتا ہے نہ مِلنے کا اِشارہ کوئی
کیسے اُمّید کا چمکے گا سِتارہ کوئی
حد سے زیادہ، نہ کسی سے بھی محبّت کرنا
جان لیتا ہے سدا ، جان سے پیارا کوئی
بیوفائی کے سِتم تم کو سمجھ آجاتے
کاش ! تم جیسا اگر ہوتا تمھارا کوئی
چاند نے جاگتے رہنے کا سبب پُوچھا ہے
کیا کہَیں ٹُوٹ گیا خواب ہمارا...
غزل
دشت میں پُہنچے، نہ گھر میں آئے!
کِن بَلاؤں کے اثر میں آئے
قہر آندھی کا ہُوا ہے نازِل
پُھول، پھل پِھر بھی شجر میں آئے
کب سے بے عکس ہے آئینہ چشم!
کوئی تصوِیر نظر میں آئے
کِتنی حسرت تھی ،کہ سیّاح کوئی
دِل کےاِس اُجڑے نگر میں آئے
قافلہ دِل کا ، کہیں تو ٹھہرے
کوئی منزِل تو سفر میں آئے...
غزل
آنکھ رنجیدگی سے بھر آئی
آج سُننے کو وہ خبر آئی
اِن مسائل میں تیری یاد بھی کیا
جیسے تتلی پہاڑ پر آئی
اپنی ماں کی طرح اُداس اُداس
بیٹی شادی کے بعد گھر آئی
اب تو مَیں بھی نظر نہیں آتا
اے خُدا ! کون سی ڈگر آئی ؟
تم نے جو کُچھ کِیا شرافت میں!
وہ ندامت بھی میرے سر آئی
ڈاکٹر بشیر بدؔر
غزل
کیا خزانہ تھا کہ چھوڑ آئے ہیں اغیار کے پاس
ایک بستی میں کسی شہرِ خوش آثار کے پاس
دِن نِکلتا ہے، تو لگتا ہے کہ جیسے سورج
صُبحِ روشن کی امانت ہو شبِ تار کے پاس
دیکھیے کُھلتے ہیں کب، انفس و آفاق کے بھید
ہم بھی جاتے تو ہیں اِک صاحبِ اَسرار کے پاس
خلقتِ شہر کو مُژدہ ہو کہ، اِس عہد...
غزل
مُحسنؔ نقوی
شاخ ِ مِژگانِ محبّت پہ سجا لے مجھ کو
برگِ آوارہ ہُوں، صرصر سے بچا لے مجھ کو
رات بھر چاند کی ٹھنڈک میں سُلگتا ہے بدن
کوئی تنہائی کے دوزخ سے نکِالے مجھ کو
مَیں تِری آنکھ سے ڈھلکا ہُوا اِک آنسو ہُوں
تو اگر چاہے، بِکھرنے سے بچا لے مجھ کو
شب غنیمت تھی ، کہ یہ زخم نظارہ تو نہ...
غزل
اِک ہُنر تھا، کمال تھا ،کیا تھا
مجھ میں، تیرا جمال تھا ،کیا تھا
تیرے جانے پہ اب کے کُچھ نہ کہا
دِل میں ڈر تھا، ملال تھا، کیا تھا
برق نے مجھ کو کر دِیا روشن
تیرا عکسِ جمال تھا، کیا تھا
ہم تک آیا تو ، مہرِ لُطف و کَرَم
تیرا وقتِ زوال تھا، کیا تھا
جس نے تہہ سے مجھے اُچھال دِیا
ڈُوبنے کا...
غزل
چِھن گئی درد کی دولت کیسے
ہوگئی دِل کی یہ حالت کیسے
پُوچھ اُن سے جو بِچھڑ جاتے ہیں
ٹوُٹ پڑتی ہے قیامت کیسے
تیری خاطر ہی یہ آنکھیں پائیں
میں بُھلا دُوں تِری صُورت کیسے
اب رہا کیا ہے مِر ے دامن میں
اب اُسے میری ضرورت کیسے
کاش مجھ کو یہ بتا د ے کوئی !
لوگ کرتے ہیں محبّت کیسے
عدیم ہاشمی
غزل
عُمر گھٹتی رہی خبر نہ ہُوئی
وقت کی بات وقت پر نہ ہُوئی
ہجر کی شب بھی کٹ ہی جائے گی
اتفاقاً اگر سحر نہ ہُوئی
جب سے آوارگی کو ترک کِیا
زندگی لُطف سے بسر نہ ہُوئی
اُس خطا میں خلوص کیا ہوگا
جو خطا ہو کے بھی، نڈر نہ ہُوئی
مِل گئی تھی دوائے مرگ، مگر !
خضر پر وہ بھی کارگر نہ ہُوئی
کِس...
غزل
خراشِ دل پہ جمائی تھی جو کمال کے ساتھ
وہ دُھول زخم کی صُورت ہٹی خیال کے ساتھ
تمام عمر کٹے کیوں نہ پھرملال کے ساتھ
جو فیصلے ہوں محبّت کےاشتعال کے ساتھ
مری حیات کو،جھونکے ہوئے بہار کے اب
وہ چند لمحے جو بیتے تھے خوش جمال کے ساتھ
سمجھ سکے نہ تعلق وہ، لاکھ سمجھایا
گو گفتگو رہی اُن...
غزل
جب سمن یا گلاب دیکھوں میں
دل کو خود پر عذاب دیکھوں میں
زیست کی جب کتاب دیکھوں میں
سب رقم اُس کے باب دیکھوں میں
عاشقی گر نصاب دیکھوں میں !
حُسن اُس کا جواب دیکھوں میں
اُس کے لب اور چشمِ مِینا سے
کیا چَھلکتی شراب دیکھوں میں
جس کے سِینے میں دِل ہے پتّھر کا
دِل کو اُس پر ہی آب...
شکیب جلالی
غزل
اب یہ وِیران دِن کیسے ہوگا بسر
رات تو کٹ گئی درد کی سَیج پر
بس یہیں ختم ہے پیار کی رہگزر
دوست اگلا قدم کچھ سمجھ سوچ کر
اُس کی آوازِ پا تو بڑی بات ہے
ایک پتّہ بھی کھڑکا نہیں رات بھر
گھر میں طوفان آئے زمانہ ہُوا
اب بھی کانوں میں بجتی ہے زنجیرِ در
اپنا دامن بھی اب تو میسّر نہیں...
غزل
کیوں قرار اب دِل کو میرے ایک پَل آتا نہیں
دُوسروں کا غم بھی سِینے سے نِکل جاتا نہیں
کِس کو لگتے ہیں بُرے یہ پیار کے مِیٹھے سُخن
تیری باتوں سے بھی اب غم اپنا ٹل جاتا نہیں
نصفِ شب کو اُٹھ کے بیٹھوں پُرملالِ حال سے
میرے خوابوں سے کبھی خوفِ اجَل جاتا نہیں
ہے یہی اِک فکر، کیسے کربِ فُرقت دُور...
غزل
مجھ سے مِلنے شبِ غم اور تو کون آئے گا
میرا سایہ ہے جو دِیوار پہ جم جائے گا
ٹھہرو ٹھہرو، مِرے اصنامِ خیالی ٹھہرو !
میرا دِل گوشۂ تنہائی میں گھبرائے گا
لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دِلاسے مجھ کو
زخم گہرا ہی سہی، زخم ہے، بھر جائے گا
عزم پُختہ ہی سہی ترکِ وفا کا، لیکن
مُنتظر ہُوں کوئی آکر مجھے...
غزل
شفیق خلش
عرضِ اُلفت پہ وہ خفا بھی ہُوئے
ہم پہ اِس جُرم کی سزا بھی ہُوئے
زندگی تھی ہماری جن کے طُفیل
وہ ہی خفگی سے پھر قضا بھی ہُوئے
بے سبب کب ہیں میرے رنج و مَحِن
دوست، دُشمن کے ہمنوا بھی ہُوئے
کیا اُمید اُن سے کچھ بدلنے کی
ظلم اپنے جنھیں رَوا بھی ہُوئے
وہ جنھیں ہم نے دی ذرا...
غزل
خود حِجابوں سا، خود جمال سا تھا
دِل کا عالَم بھی بے مِثال سا تھا
عکس میرا بھی آئنوں میں نہیں
وہ بھی اِک کیفیت خیال سا تھا
دشت میں، سامنے تھا خیمۂ گل
دُورِیوں میں عجب کمال سا تھا
بے سبب تو نہیں تھا آنکھوں میں
ایک موسم، کہ لازوال سا تھا
تھا ہتھیلی پہ اِک چراغِ دُعا
اور ہر لمحہ اِک سوال سا...
غزل
نہ دِل میں غلبۂ قُرب و وصال پہلا سا
کبھی کبھی ہی رہے اب خیال پہلا سا
لئے ہم اُن کو تصوّرمیں رات بھر جاگیں
رہا نہ عِشق میں حاصِل کمال پہلا سا
زمانے بھر کی رہی دُشمنی نہ یُوں ہم سے
رہا نہ عِشق میں جوش و جلال پہلا سا
ذرا سا وقت گُزرنے سے کیا ہُوا دِل کو
رہا نہ حُسن وہ اِس پر...