غزلِ
اِفتخارعارِف
رنگ تھا، روشنی تھا، قامت تھا
جس پہ ہم مر مِٹے، قیامت تھا
خُوش جمالوں میں دُھوم تھی اپنی
نام اُس کا بھی وجہِ شُہرت تھا
پاسِ آوارگی ہمیں بھی بہت !
اُس کو بھی اعترافِ وحشت تھا
ہم بھی تکرار کے نہ تھے خُوگر
وہ بھی ناآشنائے حُجّت تھا
خواب تعبیر بَن کے آتے تھے
کیا عجب موسمِ...
غزلِ
شفیق خلش
مِرے دُکھوں کا خلِش اب یہی ازالہ ہے
اُمیدِ وصل ہے جس نے مجھے سنبھالا ہے
جو تم نہیں ہو، تو ہے زندگی اندھیروں میں
مِرے نصیب میں باقی کہاں اُجالا ہے
سکوت مرگ سا طاری تھا اک زمانے سے
یہ کِس کی یاد نے پھر دِل مِرا اُچھالا ہے
رہا نہ کوئی گلہ اب وطن کے لوگوں سے
یہاں بھی خُوں...
غزل
شفیق خلش
دِل یہ جنّت میں پھر کہاں سے رہے
عِشق جب صُحبتِ بُتاں سے رہے
لاکھ سمجھا لِیا بُزرگوں نے !
دُورکب ہم طِلِسمِ جاں سے رہے
کب حَسِینوں سے عاشقی نہ رہی
کب نہ ہونٹوں پہ داستاں سے رہے
دِل میں ارمان کُچھ نہیں باقی
اِک قدم آگے ہم زماں سے رہے
دِل میں حسرت کوئی بھی باقی ہو
ایسے جانے...
غزلِ
شفیق خلش
نہ آئیں گے نظر باغ و بہاراں ہم نہ کہتے تھے
ہُوا وِیراں نگر شہرِ نِگاراں، ہم نہ کہتے تھے
رہو گے شہر میں اپنے ہراساں، ہم نہ کہتے تھے
تمھارے گھررہیں گے تم کوزنداں ہم نہ کہتے تھے
نہ پاؤگے کسے بھی دُور تک، یوں بیکسی ہوگی!
ہراِک سے مت رہو دست وگریباں ہم نہ کہتے تھے
بشر کی زندگی...
احمد فراز
اماں مانگو نہ اِن سے جاں فِگاراں، ہم نہ کہتے تھے
غنیمِ شہر ہیں چابُک سَواراں، ہم نہ کہتے تھے
خِزاں نے تو فقط ملبُوس چِھینے تھے درختوں سے
صلیبیں بھی تراشے گی بہاراں ہم نہ کہتے تھے
ترس جائے گی ہم سے بے نواؤں کو تِری گلیاں
ہمارے بعد اے شہرِ نگاراں ہم نہ کہتے تھے
جہاں میلہ لگا ہے...
غزلِ
خواجہ حیدرعلی آتش
ہوتا ہے سوزِ عِشق سے جل جل کے دِل تمام
کرتی ہے رُوح، مرحلۂ آب و گِل تمام
حقا کے عِشق رکھتے ہیں تجھ سے حَسینِ دہر
دَم بھرتے ہیں تِرا بُتِ چین و چگِل تمام
ٹپکاتے زخمِ ہجر پر اے ترک ، کیا کریں
خالی ہیں تیل سے تِرے، چہرے کے تِل تمام
دیکھا ہے جب تجھے عرق آ آ گیا ہے...
غزلِ
پروین شاکر
میں ہجر کے عذاب سے انجان بھی نہ تھی
پر کیا ہُوا کہ صبح تلک جان بھی نہ تھی
آنے میں گھر مِرے، تجھے جتنی جھجک رہی
اس درجہ تو میں بے سرو سامان بھی نہ تھی
اِتنا سمجھ چُکی تھی میں اُس کے مِزاج کو
وہ جا رہا تھا اور میں حیران بھی نہ تھی
آراستہ تو خیر نہ تھی زندگی کبھی
پر تجھ سے...
غزلِ
اکبر الٰہ آبادی
سمجھے وہی اِس کو جو ہو دِیوانہ کسی کا
اکبر، یہ غزل میری ہے افسانہ کسی کا
گر شیخ و برہمن سُنیں افسانہ کسی کا
معبد نہ رہیں کعبہ و بُتخانہ کسی کا
اﷲ نے دی ہے جو تمھیں چاند سی صُورت
روشن بھی کرو جا کے سیہ خانہ کسی کا
اشک آنکھوں میں آ جائیں عِوضِ نیند کے صاحب
ایسا بھی...
غزلِ
احمر کاشی پوری
شہر سے دُور، جو ٹُوٹی ہُوئی تعمیریں ہیں !
اپنی رُوداد سُناتی ہُوئی تصویریں ہیں
میرے اشعار کو اشعار سمجھنے والو !
یہ مِرے خُون سے لِکھّی ہُوئی تحریریں ہیں
جانے کب تیز ہَوا کِس کو اُڑا کر لے جائے
ہم سبھی فرش پہ بِکھری ہُوئی تصویریں ہیں
ذہن آزاد ہے ہر قید سے اب بھی میرا...