غزل
آسُودگی کا کیا نہیں سامان تھا لئے
گھر پھربھی میری قید کا بُہتان تھا لئے
طرزوعمل سے مجھ پہ نہ پہچان تھا لئے
جیسے کہ ہاتھ ، ہاتھ میں انجان تھا لئے
کچھ کم نہ میری موت کا اِمکان تھا لئے
دل پھر بھی اُس کی وصل کا ارمان تھا لئے
دِیوار کا سہارا، یُوں بے جان تھا لئے
ہاتھ اُس کا، کوئی ہاتھ...
غزل
نہ ہوں آنکھیں تو پیکر کچھ نہیں ہے
جو ہے باہر، تو اندر کچھ نہیں ہے
محبّت اور نفرت کے عِلاوہ
جہاں میں خیر یا شر کچھ نہیں ہے
مجھے چھوٹی بڑی لگتی ہیں چیزیں
یہاں شاید برابر کچھ نہیں ہے
حقِیقت تھی، سو میں نے عرض کردی
شِکایت بندہ پَروَر کچھ نہیں ہے
نہ ہو کوئی شریکِ حال اُس میں
تو...
جہاں میں ہُوں !
آنند نرائن مُلّا
وہی حِرص و ہَوَس کا تنگ زِنداں ہے جہاں میں ہُوں
وہی اِنساں، وہی دُنیائے اِنساں ہے، جہاں میں ہُوں
تمنّا قید، ہمّت پابَجولاں ہے جہاں میں ہُوں
مجھے جکڑے ہُوئے زنجیرِ اِمکاں ہے جہاں میں ہُوں
کبھی شاید فرشتہ آدمِ خاکی بھی بن جائے
ابھی تو بھیس میں اِنساں کے...
غزلِ
شفیق خلش
منظر مِرے خیال میں کیا دِید کے رہے
جب وہ رہے قریب تو دِن عید کے رہے
مِلنے کی، تھے وہاں تو نِکلتی تھی کچھ سبِیل
پردیس میں سہارے اب اُمّید کے رہے
بارآور اُن سے وصل کی کوشِش بَھلا ہو کیوں
لمحے نہ جب نصِیب میں تائید کے رہے
اب کاٹنے کو دوڑے ہیں تنہایاں مِری
کچھ روز و شب...
غزلِ
دل و نظر پہ نئے رنگ سے جو پھیلے ہیں
یہ سارے ماہِ دسمبر نے کھیل کھیلے ہیں
کہِیں جو برف سے ڈھک کر ہیں کانْچ کی شاخیں
کہِیں اِنھیں سے بنے ڈھیر سارے ڈھیلے ہیں
بِچھی ہے چادرِ برف ایسی اِس زمِیں پہ، لگے
پڑی برس کی سفیدی میں ہم اکیلے ہیں
کچھ آئیں دِن بھی اُجالوں میں یُوں اندھیرے لئے
کہ...
غزل
حفیظ جالندھری
عاشِق سا بدنصیب کوئی دُوسرا نہ ہو
معشُوق خود بھی چاہے تو اِس کا بَھلا نہ ہو
ہے مُدّعائے عِشق ہی دُنیائے مُدّعا
یہ مُدّعا نہ ہو تو کوئی مُدّعا نہ ہو
عِبرت کا درس ہے مجھے ہر صورتِ فقِیر
ہوتا ہے یہ خیال کوئی بادشاہ نہ ہو
پایانِ کارموت ہی آئی بروئے کار
ہم کو تو وصل چاہیے...
غزلِ
روکوں مجال، لے گیا
خود کو غزال لے گیا
دام و سِحر سے عِشق کی
جاں کو نِکال لے گیا
کرکے فقیرِ ہجر سب
جاہ و جلال لے گیا
راحتِ وصل کب مِلی
میرا سوال لے گیا
اُس سے کہا نہ حالِ دِل
در پہ ملال لے گیا
کھائی قسم ہے جب نئی
پھر سے خیال لے گیا
وہ جو نہیں غزل نہیں
کشْف و کمال لے...
غزلِ
سو دُوریوں پہ بھی مِرے دِل سے جُدا نہ تھی
تُو میری زندگی تھی، مگر بے وفا نہ تھی
دِل نے ذرا سے غم کو قیامت بنا دِیا
ورنہ وہ آنکھ اِتنی زیادہ خفا نہ تھی
یُوں دِل لرز اُٹھا ہے کسی کو پُکار کر
میری صدا بھی جیسے کہ میری صدا نہ تھی
برگِ خِزاں جو شاخ سے ٹوُٹا وہ خاک تھا
اِس جاں سُپردگی کے تو...
غزلِ
حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ وہ آئے
دینے دلِ مُضطر کو آرام نہ وہ آئے
جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ وہ آئے
کم کرنے کو بے بس کے آلام نہ وہ آئے
لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ وہ آئے
بِھجوائے کئی اُن کو پیغام نہ وہ آئے
افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے
تا عُمْر کے وعدے پر دو...
غزلِ
ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس
روزِ رحلت پہ کہَیں سب مِرے غمخوار کہ بس
خُوگرِ غم ہُوا اِتنا، کہ بُلانے پر بھی !
خود کہَیں مجھ سے اب اِس دہر کے آزار کہ بس
حالِ دِل کِس کو سُناؤں، کہ شُروعات ہی میں
کہہ اُٹھیں جو بھی بظاہر ہیں مِرے یار کہ بس
کیا زمانہ تھا دھڑکتے تھے بیک رنگ یہ...
غزلِ
حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ تم آئے
دینے دلِ مضطر کو آرام نہ تم آئے
جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ تم آئے
تھی چارہ گری خاطر اِک شام نہ تم آئے
لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ تم آئے
بِھجوائے کئی تم کو پیغام نہ تم آئے
افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے
تا عُمْر کے وعدے پر دو گام نہ تم...
غزلِ
جل بھی چُکے پروانے، ہو بھی چُکی رُسوائی
اب خاک اُڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
تاروں کی ضِیا دِل میں اِک آگ لگاتی ہے
آرام سے راتوں کو سوتے نہیں سودائی
راتوں کی اُداسی میں خاموش ہے دِل میرا
بے حِس ہیں تمنّائیں نیند آئی کہ موت آئی
اب دِل کو کسی کروَٹ آرام نہیں مِلتا
اِک عُمْر کا رونا ہے دو...
غزلِ
دوستی اُن سے میری کب ٹھہری
اِک شناسائی تھی غضب ٹھہری
ساری دُنیا کے غم مِٹا ڈالے
یاد اُن کی بھی کیا عجب ٹھہری
حالِ دل خاک جانتے میرا
گفتگو بھی تو زیرِ لب ٹھہری
تِیرَگی وضْع کرگئی بدلے
اِک ملاقاتِ نِیم شب ٹھہری
دِل کے ہاتھوں رہے ہم آزردہ
اِک مُصیبت نہ بے سبب ٹھہری
کیا عِلاج...
غزلِ
بَد مَست شوق شاہدِ کون و مکاں ہے آج
شاید فِضا میں جذب مئے ارغواں ہے آج
جو پندِ عقل و ہوش ہے وہ رائیگاں ہے آج
حرفِ جُنوں کے آگے خِرد بے زباں ہے آج
برقِ جَفا بھی خوف سے گِرتی نہیں جہاں
اِک ایسی شاخِ گُل پہ مِرا آشیاں ہے آج
لال و گُہر سُبک سے سُبک تر ہُوئے ہیں اب
جنسِ وفا کا خیر سے...
غزلِ
دردِ غمِ فِراق سے روتے نہیں ہیں ہم
لیکن سُکوں سے پل کو بھی سوتے نہیں ہیں ہم
لمحہ کوئی وصال کا کھوتے نہیں ہیں ہم
تنہا تِرے خیال سے ہوتے نہیں ہیں ہم
دامن تو آنسوؤں سے بھگوتے نہیں ہیں ہم
یوں کاش کہہ سکیں بھی کہ، روتے نہیں ہم
بدلِیں نہ عادتیں ذرا پردیس آ کے بھی !
دُکھ کب تِرے خیال سے...
شامِ رنگیں
حفیظ جالندھری
پچّھم کے در پہ سُورج بِستر جما رہا ہے
رنگین بادلے میں چہرہ چُھپا رہا ہے
کِرنوں نے رنگ ڈالا بادل کی دھارِیوں کو
پھیلا دِیا فلک پر گوٹے کِناریوں کو
عکسِ شَفَق نے کی ہے اِس طرح زرفشانی
گُھل مِل کے بہ رہے ہیں ندی میں آگ پانی
اوڑھے سِیہ دوپٹّے سرسبز وادِیوں نے...
غزلِ
ناصر کاظمی
وہ اِس ادا سے جو آئے تو یُوں بَھلا نہ لگے
ہزار بار مِلو پھر بھی آشنا نہ لگے
کبھی وہ خاص عِنایت کہ سَو گُماں گُزریں
کبھی وہ طرزِ تغافل، کہ محرمانہ لگے
وہ سیدھی سادی ادائیں کہ بِجلیاں برسیں
وہ دلبرانہ مرُوّت کہ عاشقانہ لگے
دکھاؤں داغِ محبّت جو ناگوار نہ ہو
سُناؤں قصّۂ...
غزلِ
جو شخص بھی باتوں میں دلائل نہیں رکھتا
تقرِیر میں اپنی وہ فضائل نہیں رکھتا
قِسمت میں نہیں میری، پہ مائل نہیں رکھتا
دل ایسے میں مفرُوضہ کا قائل نہیں رکھتا
سادہ ہُوں، طبیعت میں قناعت بھی ہے میری
چاہُوں تو میں کیا کیا کے وسائل نہیں رکھتا
چاہا جسے، صد شُکر کہ حاصل ہے مجھے وہ
عاشِق ہُوں مگر...
غزلِ
ناصر کاظمی
وا ہُوا پھر درِ میخانۂ گُل
پھرصبا لائی ہے پیمانۂ گُل
زمزمہ ریز ہُوئے اہلِ چمن
پھر چراغاں ہُوا کاشانۂ گُل
رقص کرتی ہُوئی شبنم کی پَری
لے کے پھر آئی ہے نذرانۂ گُل
پُھول برسائے یہ کہہ کر اُس نے
میرا دِیوانہ ہے دِیوانۂ گُل
پھرکسی گُل کا اِشارہ پا کر
چاند نِکلا سرِ مےخانۂ...