ساغر صدیقی

  1. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی سرِ مقتل ہمیں نغمات کی تعلیم دیتے ہیں - ساغر صدیقی

    سرِ مقتل ہمیں نغمات کی تعلیم دیتے ہیں یہاں اہلِ نظر ظلمات کی تعلیم دیتے ہیں یہاں کلیاں مہکتی ہیں مگر خوشبو نہیں ہوتی شکوفے برملا آفات کی تعلیم دیتے ہیں یہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں زرتابی قباؤں میں سحر کا نام لے کر رات کی تعلیم دیتے ہیں جنہیں فیضانِ گلشن ہے نہ عرفانِ بہاراں ہے وہ پھولوں کو نئے...
  2. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی تفریق نے جادو بھی جگایا ہے بلا کا - ساغر صدیقی

    تفریق نے جادو بھی جگایا ہے بلا کا خطرے میں ہے اے یار! چمن مہرو وفا کا توہین ہے درویش کا اس شہر میں جینا ہو فاقہ کشی نام جہاں صبر و رضا کا اب تک کا تفکرّ غمِ تقدیر کا چارہ سینے میں پتہ رکھتے ہیں جو ارض و سما کا جی چاہتا ہے اے مرے افکار کی مُورت ملبُوس بنا دُوں تجھے تاروں کی رِدا کا محفوظ...
  3. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی مانگی ہے اس دیار میں دونوں جہاں کی بھیک - ساغر صدیقی

    مانگی ہے اس دیار میں دونوں جہاں کی بھیک لیکن ملی ہمیں دلِ نا کامراں کی بھیک ایسے بھی راہِ زیست میں آئے کئی مقام مانگی ہے پائے شوق نے عزمِ جواں کی بھیک بے نُور ہو گئی ہیں ستاروں کی بستیاں ساقی عطا ہو بادۂ شعلہ فشاں کی بھیک اب اور کیا تغیرِ تقدیر چاہیئے جھولی میں ڈال دی تِرے نام و نشاں کی بھیک...
  4. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی کچھ کیفِ سحر ہے نہ مجھے شام کا نشہ - ساغر صدیقی

    کچھ کیفِ سحر ہے نہ مجھے شام کا نشہ ہے میرے لیے بادۃِ بے نام کا نشہ آنکھوں سے چھلکتے ہوئے عرفاں کے ترانے زُلفوں سے برستا ہوا الہام کا نشہ ہر گام لرزتے ہوئے تدبیر کے پیکر تقدیر کی آنکھوں میں ہے آلام کا نشہ ہر دل میں تڑپتے ہوئے ارماں کی کہانی ہر آنکھ میں خونِ دلِ ناکام کا نشہ پھر ڈوب گیا...
  5. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی فضا مغموم ہے ساقی ! اُٹھا چھلکائیں پیمانہ - ساغر صدیقی

    فضا مغموم ہے ساقی ! اُٹھا چھلکائیں پیمانہ اندھیرا بڑھ چلا ہے ، لا ذرا قندیلِ میخانہ بہ فیضِ زندگی گزرے ہیں ایسے مرحلوں سے ہم کہ اپنے راستے میں اب نہ بستی ہے نہ ویرانہ بس اتنی بات پر دشمن بنی ہے گردشِ دوراں خطا یہ ہے کہ چھیڑا کیوں تری زلفوں کا افسانہ چراغِ زندگی کو ایک جھونکے کی ضرورت ہے...
  6. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی خطا وارِ مروّت ہو نہ مرہُونِ کرم ہو جا - ساغر صدیقی

    خطا وارِ مروّت ہو نہ مرہُونِ کرم ہو جا مسرت سر جھکائے گی پرستارِ الم ہو جا انہی بے ربط خوابوں سے کوئی تعبیر نکلے گی انہی اُلجھی ہوئی راہوں پہ میرا ہمقدم ہو جا کسی زردار سے جنسِ تبسم مانگنے والے کسی بیکس کے لاشے پر شریکِ چشمِ نم ہو جا کسی دن ان اندھیروں میں چراغاں ہو ہی جائے گا جلا کر داغِ...
  7. فرحان محمد خان

    دل و نظر میں لیے عشقِ مصطفی آؤ - ساغر صدیقی

    دل و نظر میں لیے عشقِ مصطفی آؤ خیال و فکر کی حدّوں سے ماورا آؤ درِ رسولؐ سے آتی ہے مجھ کو یہ آواز یہاں ملے گی تمہیں دولتِ بقا آؤ جلائے رہتی ہے عصیاں کی آگ محشر میں بس اب نہ دیر کرو شافعِ الورا آؤ برنگِ نغمہِ بلبل سنا کے نعتِ نبیؐ ذرا چمن میں شگوفوں کا منہ دھلا آؤ برس رہی ہیں چمن پر...
  8. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی تدبیر کا کاسہ ہے تقدیر گداگر ہے -ساغر صدیقی

    تدبیر کا کاسہ ہے تقدیر گداگر ہے ایوانِ سخاوت کی تعمیر گداگر ہے سو رنگ بھرے اس میں پھر بھی یہ رہی مُورت احساسِ مصوّر میں تصویر گدا گر ہے حالات کے دامن میں افلاس تغیر ہے اس دور میں انساں کی توقیر گداگر ہے اب شہرِ بصیرت کی اُونچی ہوئی دیواریں چڑھتے ہوئے سُورج کی تنویر گداگر ہے ہر داغِ تمنّا ہے...
  9. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں - ساغر صدیقی

    چھپائے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں تمہاری بزم میں ہم بے زبان بیٹھے ہیں یہ اور بات کہ منزل پہ ہم پہنچ نہ سکے مگر یہ کم ہے کہ راہوں کو چھان بیٹھے ہیں فغاں ہے، درد ہے، سوز و فراق و داغ و الم ابھی تو گھر میں بہت مہربان بیٹھے ہیں اب اور گردشِ تقدیر کیا ستائے گی لٹا کے عشق میں نام و نشان بیٹھے...
  10. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی کچھ حرفِ التجا تھے دعاؤں سے ڈر گئے - ساغر صدیقی

    کچھ حرفِ التجا تھے دعاؤں سے ڈر گئے ارمانِ بندگی کے خداؤں سے ڈر گئے اب کون دیکھتا ہے ترے شمس کی طرف سورج مکھی کے پھول شعاعوں سے ڈر گئے ہنس کر جو جھیلتے تھے زمانے کی تلخیاں اے چشمِ یار تیری اداؤں سے ڈر گئے رنگیں فضا میں جل گئیں خاموش تتلیاں آنچل اڑے تو پھول ہواؤں سے ڈر گئے آہوں کو اعتبار سماعت...
  11. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی چوٹ کھا کر خود شناش و خود نگر ہو جائیے - ساغر صدیقی

    چوٹ کھا کر خود شناش و خود نگر ہو جائیے کیوں کسی کے عشق میں شوریدہ سر ہو جائیے اپنے دل کے داغ بھی لو دے اٹھیں تو کم نہیں اپنی منزل کے لیے خود راہبر ہو جائیے چھوڑ دیجے ! عظمتِ یزداں کی جھوٹی داستاں آج انساں کی نظر میں معتبر ہو جائیے آپ بھی دو چار قطرے پی کے میرے جام کے اہلِ دل ، اہلِ دفا ،...
  12. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی پریشاں عکسِ ہستی ، آئینہ بے نُور دیکھا ہے - ساغر صدیقی

    پریشاں عکسِ ہستی ، آئینہ بے نُور دیکھا ہے مِری آنکھوں نے افسردہ چراغِ طُور دیکھا ہے سُرور و کیف کا معیار اپنی ذات ہے ساقی شرابِ درد سے ہر جام کو معمور دیکھا ہے بڑی مُدّت سے آشفتہ اُمیدیں یاد کرتی ہیں کہیں اُس بزم میں یارو دلِ مجبور دیکھا ہے یہ دستورِ وفا صدیوں سے رائج ہے زمانے میں صدائے...
  13. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی امید کے موتی ارزاں ہیں ، درویش کی جھولی خالی ہے- ساغر صدیقی

    امید کے موتی ارزاں ہیں ، درویش کی جھولی خالی ہے پھولوں کے مہکتے داماں ہیں ،درویش کی جھولی خالی ہے احساس صفاتی پتھر ہے، ایمان سلگتی دھونی ہے بے رنگ مزاجِ دوراں ہیں ، درویش کی جھولی خالی ہے بے نور مروت کی آنکھیں بے کیف عنایت کے جذبے ہر سمت بدلتے عنواں ہیں ، درویش کی جھولی خالی ہے گدڑی کے پھٹے...
  14. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی مرے افسانہِء بے نام کی تحریر ظالم ہے-ساغر صدیقی

    یہ دنیا ہے یہاں ہر لمہِء تقدیر ظالم ہے مرے افسانہِء بے نام کی تحریر ظالم ہے مصور کا قلم رنگینیوں میں ڈوب کر ابھرا تصور مسکرا کر کہہ گیا تصویر ظالم ہے غمِ ہستی کی زنجروں سے انساں کو کہاں فرصت کبھی حالات ظالم ہیں کبھی تدبیر ظالم ہے چراغِ آرزو کو اک سہارا دے ہی جاتی ہے یہاں ڈھلتے ہوئے سورج کی...
  15. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی یہ تیری گلیوں میں پھر رہے ہیں جو چاک داماں سے لوگ ساقی- ساغر صدیقی

    یہ تیری گلیوں میں پھر رہے ہیں جو چاک داماں سے لوگ ساقی کریں گے تاریخِ مے مرتب یہی پریشاں سے لوگ ساقی اگر یہ اندھیر اور کچھ دن رہا تو ایسا ضرور ہو گا الجھ پڑیں گے بنامِ حالات زلفِ جاناں سے لوگ ساقی لگا کوئی ضرب اس ادا سے کہ ٹوٹ جائیں دلوں کی مُہریں تری قسم تنگ آگئے ہیں سکوتِ پنہاں سے لوگ ساقی...
  16. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻏﻢ ﮨﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻏﻢ ﮐﺎ ﮔﮩﻮﺍﺭﮦ- ساغر صدیقی

    ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻏﻢ ﮨﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻏﻢ ﮐﺎ ﮔﮩﻮﺍﺭﮦ جو آنسو رنگ لے آئے وہی دامن کا شہ پارہ مرا ذوقِ خریداری ہے اک جنسِ گراں مایہ کبھی پھولوں کا شیدائی کبھی کانٹوں کا بنجارہ جہاں منصب عطا ہوتے ہیں بے فکر و فراست بھی وہاں ہر جستجو جھوٹی وہاں ہر عزم ناکارہ بسا اوقات چھو لیتی ہے دامن کبریائی کا تمہاری جنبش ابرُو...
  17. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی جب گلستاں میں بہاروں کے قدم آتے ہیں-ساغر صدیقی

    جب گلستاں میں بہاروں کے قدم آتے ہیں یاد بھولے ہوئے یاروں کے کرم آتے ہیں لوگ جس بزم سے آتے ہیں ستارے لے کر ہم اسی بزم سے بادیدہء نم آتے ہیں میں وہ اک رند خرابات ہوں میخانے میں میرے سجدے کے لئے ساغرِ جم آتے ہیں اب ملاقات میں وہ گرمیِ جذبات کہاں اب تو رکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں قربِ...
  18. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی منزلِ غم کی فضاؤں سے لپٹ کر رو لوں-ساغر صدیقی

    منزلِ غم کی فضاؤں سے لپٹ کر رو لوں تیرے دامن کی ہواؤں سے لپٹ کر رو لوں جامِ مے پینے سے پہلے مرا جی چاہتا ہے بکھری زلفوں کی گھٹاؤں سے لپٹ کر رو لوں زرد غنچوں کی نگاہوں میں نگاہیں ڈالوں سرخ پھولوں کی قباؤں سے لپٹ کر رو لوں آنے والے ترے رستے میں بچھاؤں آنکھیں جانے والے ترے پاؤں سے لپٹ کر رو لوں...
  19. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی "وقارِ یزداں نہ حسنِ انساں، ضمیرِ عالم بدل گیا ہے " ساغر صدیقی

    بہارِ سر و سمن فسردہ، گلوں کی نگہت تڑپ رہی ہے قدم قدم پر الم کدے ہیں، نگارِ عشرت تڑپ رہی ہے شعور کی مشعلیں جلائیں، اُٹھو ستاروں کے ساز چھیڑیں کرن کرن کی حسین مورت بحالِ ظلمت تڑپ رہی ہے کبھی شبستاں کے رہنے والو! غریب کی جھونپڑی بھی دیکھو خزاں کے پتوں کی جھانجھنوں میں کسی کی عصمت تڑپ رہی ہے...
  20. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی حاضر شراب و جام ہیں تو جاگ تو سہی

    حاضر شراب و جام ہیں تو جاگ تو سہی الطاف خاص و عام ہیں تو جاگ تو سہی ہیں اختیار شوق میں تاروں کی منزلیں بہکے ہوئے مقام ہیں تو جاگ تو سہی کانٹے بھی ایک چیز ہیں تو دیکھ تو سہی گل بھی شرارہ فام ہیں تو جاگ تو سہی ان شب کی طلمتوں میں کہیں آس پاس ہی صبحوں کے اہتمام ہیں تو جاگ تو سہی افسردگی...
Top