پابندیاں لگانے والوں کے نام معذرت کے ساتھ - :)
غزل
(ساغر صدیقی)
چشم ساقی کی عنایات پہ پابندی ہے
ان دنوں وقت پہ، حالات پہ پابندی ہے
بکھری بکھری ہوئی زلفوں کے فسانے چھیڑو
مے کشو! عہد خرابات پہ پابندی ہے
دل شکن ہو کے چلے آئے تری محفل سے
تیری محفل میں تو ہر بات پہ پابندی ہے...
غزل
(ساغر صدیقی)
تن سلگتا ہے من سلگتا ہے
جب بہاروں میں من سلگتا ہے
نوجوانی عجیب نشہ ہے
چھاؤں میں بھی بدن سلگتا ہے
جب وہ محو خرام ہوتے ہیں
انگ سرو سمن سلگتا ہے
جانے کیوں چاندنی میں پچھلے رات
چپکے چپکے چمن سلگتا ہے
تیرے سوزِ سخن سے اے ساغر
زندگی کا چلن سلگتا ہے
غزل
(ساغر صدیقی)
ہر شے ہے پر ملال بڑی تیز دھوپ ہے
ہر لب پہ ہے سوال بڑی تیز دھوپ ہے
چکرا کے گر نہ جاؤں میں اس تیز دھوپ میں
مجھ کو ذرا سنبھال بڑی تیز دھوپ ہے
دے حکم بادلوں کو خیاباں نشیں ہوں میں
جام و سبو اچھال بڑی تیز دھوپ ہے
ممکن ہے ابر رحمت یزداں برس پڑے
زلفوں کی چھاؤں ڈال بڑی...
غزل
(ساغر صدیقی)
اے چمن والو! متاعِ رنگ و بُو جلنے لگی
ہر روش پر نکہتوں کی آبرو جلنے لگی
پھر لغاتِ زندگی کو دو کوئی حرفِ جُنوں
اے خرِد مندو! ادائے گفتگو جلنے لگی
قصرِ آدابِ محبت میں چراغاں ہو گیا
ایک شمعِ نو ورائے ما و تو جلنے لگی
ہر طرف لُٹنے لگی ہیں جگمگاتی عصمتیں
عظمت...
غزل
(ساغر صدیقی)
اگرچہ ہم جارہے ہیں محفل سے نالہء دلفگار بن کر
مگر یقین ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہء نوبہار بن کر
یہ کیا قیامت ہے باغبانو کہ جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمہاری آنکھوں میں خار بن کر
جہاں والے ہمارے گیتوں سے جائزہ لیں گے سسکیوں کا
جہان میں پھیل جائیں گے ہم...
غزل
(ساغر صدیقی)
یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا
مرا شعور مزاج عوام بدلے گا
یہ کہہ رہی ہیں فضائیں بہار ہستی کی
نیا طریق قفس اور دام بدلے گا
نفس نفس میں شرارے سے کروٹیں لیں گے
دلوں میں جذبہء محشر خرام بدلے گا
مروتوں کے جنازے اٹھائے جائیں گے
سنا ہے ذوق سلام و پیام بدلے گا
دل...
غزل
(ساغر صدیقی)
جام ٹکراؤ! وقت نازک ہے
رنگ چھلکاؤ! وقت نازک ہے
حسرتوں کی حسین قبروں پر
پھول برساؤ! وقت نازک ہے
اک فریب اور زندگی کے لیئے
ہاتھ پھیلاؤ! وقت نازک ہے
رنگ اڑنے لگا ہے پھولوں کا
اب تو آجاؤ! وقت نازک ہے
تشنگی تشنگی ارے توبہ!
زلف لہراؤ ! وقت نازک ہے
بزم ساغر...
غزل
(ساغر صدیقی)
محبت کے مزاروں تک چلیں گے
ذرا پی لیں! ستاروں تک چلیں گے
سنا ہے یہ بھی رسم عاشقی ہے
ہم اپنے غمگساروں تک چلیں گے
چلو تم بھی! سفر اچھا رہے گا
ذرا اجڑے دیاروں تک چلیں گے
جنوں کی وادیوں سے پھول چن لو
وفا کی یادگاروں تک چلیں گے
حسین زلفوں کے پرچم کھول دیجیے...
کوئی نالہ یہاں رسا نہ ہوا
اشک بھی حرفِ مدعا نہ ہوا
تلخی درد ہی مقدر تھی
جامِ عشرت ہمیں عطا نہ ہوا
ماپتابی نگاہ والوں سے
دل کے داغوں کا سامنا نہ ہوا
آپ رسمِ جفا کے قائل ہیں
میں اسیرِ غمِ وفا نہ ہوا
وہ شہنشہ نہیں بھکاری ہے
جو فقیروں کا آسرا نہ ہوا
رہزن عقل و ہوش دیوانہ
عشق میں...
پاکستان کے سیاستدان
(ساغر صدیقی)
گرانی کی زنجیر پاؤں میں ہے
وطن کا مقدر گھٹاؤں میں ہے
اطاعت پہ ہے جبر کی پہرہ داری
قیادت کے ملبوس میں ہے شکاری
سیاست کے پھندے لگائے ہوئے ہیں
یہ روٹی کے دھندے جمائے ہوئے ہیں
یہ ہنس کر لہو قوم کا چوستے ہیں
خدا کی جگہ خواہشیں پوجتے ہیں
یہ ڈالر...
عورت
(ساغر صدیقی)
اگر بزم ِ انساں میں عورت نہ ہوتی
خیالوں کی رنگین جنت نہ ہوتی
ستاروں کے دل کش فسانے نہ ہوتے
بہاروں کی نازک حقیقت نہ ہوتی
جبینوں پہ نور مسرت نہ ہوتی
نگاہوں میں شانِ مروت نہ ہوتی
گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے
فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی
فقیروں کو عرفان ہستی...
غزل
(ساغر صدیقی)
صراحی جام سے ٹکرائیے ، برسات کے دن ہیں
حدیثِ زندگی دہرائیے، برسات کے دن ہیں
سفینہ لے چلا ہے کس مخالف سمت کو ظالم
ذرا ملّاح کو سمجھائیے، برسات کے دن ہیں
کسی پُرنور تمہت کی ضرورت ہے گھٹاؤں کو
کہیں سے مہ وشوں کو لائیے، برسات کے دن ہیں
طبیعت گردشِ دوراں کی...
غزل
(ساغر صدیقی)
برگشتہء یزداں سے کچھ بھول ہوئی ہے
بھٹکے ہوئے انساں سے کچھ بھول ہوئی ہے
تاحّد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں
پھولوں کے نگہباں سے کچھ بھول ہوئی ہے
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کچھ بھول ہوئی ہے
ہنستے ہیں مری صورت مفتوں پہ شگوفے
میرے دل...
غزل
(ساغر صدیقی)
میں تلخیء حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوئے تھے جام، پریشان تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں، کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج...
غزل
(ساغر صدیقی)
زلفوں کی گھٹائیں پی جاؤ
وہ جو بھی پلائیں پی جاؤ
اے تشنہ دہانِ جور خزاں
پھولوں کی ادائیں پی جاؤ
تاریکی دوراں کے مارو
صبحوں کی ضیائیں پی جاؤ
نغمات کا رس بھی نشہ ہے
بربط کی صدائیں پی جاؤ
مخمور شرابوں کے بدلے
رنگین خطائیں پی جاؤ
اشکوں کا مچلنا ٹھیک...
غزل
(ساغر صدیقی)
نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس میں شرار سا ہے
میں جا نتا ہوں کہ تم نہ آؤگے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے
مرے عزیزو! میرے رفیقو! چلو کوئی داستان چھیڑو
غم زمانہ کی بات چھوڑو یہ غم تو اب سازگار سا ہے
وہی فسر دہ سا رنگ محفل وہی ترا ایک عام جلوہ
مری نگاہوں میں بار سا تھا مری نگا ہوں...
فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا
ہماری بادہ کشی کہہ رہی ہے سب اچھا
نہ اعتبارِ محبت، نہ اختیارِ وفا
جُنوں کی تیز روی کہہ رہی ہے سب اچھا
دیارِ ماہ میں تعمیر مَے کدے ہوں گے
کہ دامنوں کی تہی کہہ رہی ہے سب اچھا
قفس میں یوُں بھی تسلّی بہار نے دی ہے
چٹک کے جیسے کلی کہہ رہی ہے سب اچھا...
کب سماں تھا بہار سے پہلے
غم کہاں تھا بہار سے پہلے
ایک ننھا سا آرزو کا دیا
ضوفشاں تھا بہار سے پہلے
اب تماشا ہے چار تنکوںکا
آشیاں تھا بہار سے پہلے
اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے
پچھلی شب میں خزان کا سناٹا
ہم زباںتھا بہار سے پہلے
چاندنی میںیہ آگ کا دریا...
نالہ حدودِ کوُئے رسا سے گزر گیا
اب دَردِ دل علاج و دوا سے سے گزر گیا
ان کا خیال بن گئیں سینے کی دھڑکنیں
نغمہ مقامِ صوت وصدا سے گزر گیا
اعجازِ بے خودی ہے کہ حُسنِ بندگی
اِک بُت کی جستجو میں خدا سے گزر گیا
انصاف سیم و زر کی تجلّی نے ڈس لیا
ہر جرم احتیاجِ سزا سے گزر گیا...