ذوق طغیانی میں ڈھل کے دیکھ کبھی
موج بن کر اچھل کے دیکھ کبھی
تو صدف ہے تو اس سمندر میں
سنگ ریزے نگل کے دیکھ کبھی
آتشِ آرزو عجب شے ہے
اس کی ٹھنڈک میں جل کے دیکھ کبھی
خشک صحرا بھی رشکِ گلشن ہے
اپنے گھر سے نکل کے دیکھ کبھی
اے گرفتار رہبرو منزل
بے ارادہ بھی چل کے دیکھ کبھی
زندگی...
دلوں کو اجالو! سحر ہو گئی ہے
نگاہیں ملا لو ! سحر ہو گئی ہے
اٹھو ! کشتیِ زیست کو ظلمتوں کے
بھنور سے نکالو ! سحر ہو گئی ہے
سنوارو یہ زلفیں کہ شب کٹ چکی ہے
یہ آنچل سنبھالو ! سحر ہو گئی ہے
شکستہ امیدوں کی پروائیوں کو
گلے سے لگا لو ! سحر ہو گئی ہے
پگھلنے لگا ہے ضمیرِ مشیت
اٹھو! سونے والو ! سحر...
زندگی رقص میں ہے جھومتی ناگن کی طرح
دل کے ارمان ہیں بجتی ہوئی جھانجن کی طرح
زلف رخسار پہ بل کھائی ہوئی کیا کہنا !
اِک گھٹا چھائی ہوئی چیت میں ساون کی طرح
بحرِ امید میں جب کوئی سہارا نہ ملا
میں نے ہر موج کو دیکھا ترے دامن کی طرح
جس طرف دیکھئے ٹوٹے ہوئے پیمانے ہیں
اب تو نغمات بھی ہیں نالہ و...
ترانہ
چمن چمن کلی کلی روش روش پکار دو
وطن کو سر فروش دو وطن کا جاں نثار دو
جو اپنے غیض بے کراں سے کوہسار پیس دیں
جو آسماں کو چیر دیں ہمیں وہ شہسوار دو
یہی ہے عظمتوں کا اک اصول جاوداں حضور
امیر کو شجاعتیں غریب کو وقار دو
نظر نظر میں موجزن تجلیوں کے قافلے
وہ جذبہ حیات نو بشر بشر ابھار دو...
تاروں سے میرا جام بھرو میں نشے میں ہوں
اے ساکنان خلد سنو میں نشے میں ہوں
کچھ پھول کھل رہے ہیں سرِ شاخ مے کدہ
تم ہی ذرا یہ پھول چنو میں نشے میں ہوں
ٹھہرو ابھی تو صبح کا مارا ہے ضوفشاں
دیکھو مجھے فریب نہ دو میں نشے میں ہوں
نشہ تو موت ہے غمِ ہستی کی دھوپ میں
بکھرا کے زلف ساتھ چلو میں نشے میں...
(ساغرؔ صدیقی کی اور اپنی روح سے معذرت کے ساتھ :laughing::laughing::laughing:)
ہم نہائیں تو کیا تماشا ہو
مر نہ جائیں تو کیا تماشا ہو
غسل خانے میں، ٹھنڈے پانی میں
مسکرائیں تو کیا تماشا ہو
نام اللہ کا لے کے گھس تو گئے
نکل آئیں تو کیا تماشا ہو
ناچ اٹھیں یار دوست اور ہم بھی
کپکپائیں تو کیا تماشا...
تہذیبِ جنوں کار پہ تنقید کا حق ہے
گرتی ہوئی دیوار پہ تنقید کا حق ہے
ہاں میں نے لہو اپنا گلستاں کو دیا ہے
مجھ کو گل و گلزار پہ تنقید کا حق ہے
میں یاد دلاتا ہوں شکایت نہیں کرتا
بھولے ہوئے اقرار پہ تنقید کا حق ہے
مجروح جو کر دے دلِ انساں کی حقیقت
اس شوخیِ گفتار پہ تنقید کا حق ہے
ساغر صدیقی
آہن کی سُرخ تال پہ ہم رقص کر گئے
تقدیر تیری چال پہ ہم رقص کر گئے
پنچھی بنے تو رفعتِ افلاک پر اُڑے
اہل زمیں کے حال پہ ہم رقص کر گئے
کانٹوں سے احتجاج کیا ہے کچھ اس طرح
گلشن کی ڈال ڈال پہ ہم رقص کر گئے
واعظ ! فریبِ شوق نے ہم کو لُبھا لیا
فردوس کے خیال پہ ہم رقص کر گئے
ہر اعتبارِ حُسنِ نظر سے...
فضائے نیم شبی کہہ رہی ہے سب اچھا
ہماری بادہ کشی کہہ رہی ہے سب اچھا
نہ اعتبارِ محبت، نہ اختیارِ وفا
جُنوں کی تیز روی کہہ رہی ہے سب اچھا
دیارِ ماہ میں تعمیر مَے کدے ہوں گے
کہ دامنوں کی تہی کہہ رہی ہے سب اچھا
قفس میں یوُں بھی تسلّی بہار نے دی ہے
چٹک کے جیسے کلی کہہ رہی ہے سب اچھا...
کب سماں تھا بہار سے پہلے
غم کہاں تھا بہار سے پہلے
ایک ننھا سا آرزو کا دیا
ضوفشاں تھا بہار سے پہلے
اب تماشا ہے چار تنکوںکا
آشیاں تھا بہار سے پہلے
اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے
پچھلی شب میں خزان کا سناٹا
ہم زباںتھا بہار سے پہلے
چاندنی میںیہ آگ کا دریا...
نالہ حدودِ کوُئے رسا سے گزر گیا
اب دَردِ دل علاج و دوا سے سے گزر گیا
ان کا خیال بن گئیں سینے کی دھڑکنیں
نغمہ مقامِ صوت وصدا سے گزر گیا
اعجازِ بے خودی ہے کہ حُسنِ بندگی
اِک بُت کی جستجو میں خدا سے گزر گیا
انصاف سیم و زر کی تجلّی نے ڈس لیا
ہر جرم احتیاجِ سزا سے گزر گیا...
محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا
ہر مسرت غمِ دیروز کا عنوان بنی
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا
اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑدیا
آج پھر بُجھ گئے جَل جَل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے...
بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے
نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے
گُم صُم...
رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دو دِن کی مُسرّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے
جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں
اِک ہوش کی ساعت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گیے
اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنّم رقصاں ہے
بیدادِ مشیّت کیا کہئیے کُچھ یاد...
میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست
سونے کے نرم تار کا قائل نہیں ہوں دوست
مُجھ کو خزاں کی ایک لُٹی رات سے ہے پیار
میں رونقِ بہار کا قائل نہیں ہُوں دوست
ہر شامِ وصل ہو نئی تمہیدِ آرزو
اتنا بھی انتظار کا قائل نہیں ہوں دوست
دوچار دن کی بات ہے یہ زندگی کی بات
دوچار دن کے پیار...
غزل
ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے کا نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جسکی آبرو پر جان دے دے جھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے ، فنا ہوتا نہیں
اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو انکا طور پر بھی...
چند اشعار
آؤ بادہ کشوں کی بستی سے
کوئی انسان ڈھونڈ کر لائیں
میں فسانے تلاش کرتا ہوں
آپ عنوان ڈھونڈ کر لائیں
انقلابِ حیات کیا کہیے
آدمی ڈھل گئے مشینوں میں
میرے نغموں ک دل نہیں لگتا
ماہ پاروں میں، مہ جبینوں میں
جاؤ اہلِ خرد کی محفل میں
کیا کرو گے جنوں نشینوں میں
رہبروں کے ضمیر...
غزل
شام خزاں کی گم صم بولی - جیون لمحے زہر کی گولی
میرے آنسو اور ستارے - کھیل رہے ہیں آنکھ مچولی
دو پھولوں کی خاطر ترسیں - آج بہاروں کے ہمجولی
چاند کا سایہ چھت سے اترا - ہمسائے نے کھڑکی کھولی
توڑ دیا دم دیوانوں نے - عمر جنوں کی پوری ہو لی
پھول بھی ہے وہ کانٹا بھی ہے - من میلا...
راہزن آدمی راہنما آدمی
با رہا بن چکا ہے خدا آدمی
ہائے تخلیق کی کار پردازیاں
خاک سی چیز کو کہہ دیا آدمی
کھل گئے جنتوں کے وہاں زائچے
دو قدم جھوم کر جب چلا آدمی
زندگی خانقاہ شہود و بقا
اور لوح مزار فنا آدمی
صبحدم چاند کی رخصتی کا سماں
جس طرح بحر میں ڈوبتا آدمی
کچھ فرشتوں کی...
مرے سوزِ دل کے جلوے یہ مکاں مکاں اجالے
مری آہِ پر اثر نے کئی آفتاب ڈھالے
مجھے گردشِ فلک سے نہیں احتجاج کوئی
کہ متاعِ جان و دل ہے تری زلف کے حوالے
یہ سماں بھی ہم نے دیکھا سرِ خاک رُل رہے ہیں
گل و انگبیں کے مالک مہ و کہکشاں کے پالے
ابھی رنگ آنسوؤں میں ہے تری عقیدتوں کا
ابھی دل...