ساغر

  1. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی قیدِ تصورات میں مدت گزر گئی

    قیدِ تصورات میں مدت گزر گئی ساقی غمِ حیات میں مدت گزر گئی مجھ کو شکستِ جام کے نغموں سے واسطہ میخانہِ ثبات میں مدت گزر گئی کچھ بھی نہی ہے گیسوئے خمدار کے سوا تفسیر کائنات میں مدت گزر گئی پابند خرف دارو رسن داستان شوق عرض و گزارشات میں مدت گزر گئی روٹھے تو اور بن گئے تصویرِ التفات کیفِ...
  2. فرحان محمد خان

    "گل کوئی عشق دی کر پیار دا قصہ سنا" ساغر صدیقی

    گل کوئی عشقِ دی کر پیار دا قصہ سنا داستاں منصور دی یا دار دا قصہ سنا چھڈ گُنجل دار زلفاں دی بجھارت شاعرا انقلابِ وقت دی جھنکار دا قصہ سنا اج وارث دے قلم دی سرسراہٹ نوں بُلا ابن قاسم دی جری تلوار دا قصہ سنا جتھے پی کے کجھ شرابی غیرتاں نئیں دیچدے ساقیا اوس محفلِ سرشار دا قصہ سنا اج سوہنی تے...
  3. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی ذوقِ طغیانی میں ڈھل کے دیکھ کبھی

    ذوق طغیانی میں ڈھل کے دیکھ کبھی موج بن کر اچھل کے دیکھ کبھی تو صدف ہے تو اس سمندر میں سنگ ریزے نگل کے دیکھ کبھی آتشِ آرزو عجب شے ہے اس کی ٹھنڈک میں جل کے دیکھ کبھی خشک صحرا بھی رشکِ گلشن ہے اپنے گھر سے نکل کے دیکھ کبھی اے گرفتار رہبرو منزل بے ارادہ بھی چل کے دیکھ کبھی زندگی...
  4. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی دلوں کو اجالو! سحر ہو گئی ہے

    دلوں کو اجالو! سحر ہو گئی ہے نگاہیں ملا لو ! سحر ہو گئی ہے اٹھو ! کشتیِ زیست کو ظلمتوں کے بھنور سے نکالو ! سحر ہو گئی ہے سنوارو یہ زلفیں کہ شب کٹ چکی ہے یہ آنچل سنبھالو ! سحر ہو گئی ہے شکستہ امیدوں کی پروائیوں کو گلے سے لگا لو ! سحر ہو گئی ہے پگھلنے لگا ہے ضمیرِ مشیت اٹھو! سونے والو ! سحر...
  5. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی زندگی رقص میں ہے جھومتی ناگن کی طرح

    زندگی رقص میں ہے جھومتی ناگن کی طرح دل کے ارمان ہیں بجتی ہوئی جھانجن کی طرح زلف رخسار پہ بل کھائی ہوئی کیا کہنا ! اِک گھٹا چھائی ہوئی چیت میں ساون کی طرح بحرِ امید میں جب کوئی سہارا نہ ملا میں نے ہر موج کو دیکھا ترے دامن کی طرح جس طرف دیکھئے ٹوٹے ہوئے پیمانے ہیں اب تو نغمات بھی ہیں نالہ و...
  6. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی "ترانہ"

    ترانہ چمن چمن کلی کلی روش روش پکار دو وطن کو سر فروش دو وطن کا جاں نثار دو جو اپنے غیض بے کراں سے کوہسار پیس دیں جو آسماں کو چیر دیں ہمیں وہ شہسوار دو یہی ہے عظمتوں کا اک اصول جاوداں حضور امیر کو شجاعتیں غریب کو وقار دو نظر نظر میں موجزن تجلیوں کے قافلے وہ جذبہ حیات نو بشر بشر ابھار دو...
  7. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی تاروں سے میرا جام بھرو میں نشے میں ہوں

    تاروں سے میرا جام بھرو میں نشے میں ہوں اے ساکنان خلد سنو میں نشے میں ہوں کچھ پھول کھل رہے ہیں سرِ شاخ مے کدہ تم ہی ذرا یہ پھول چنو میں نشے میں ہوں ٹھہرو ابھی تو صبح کا مارا ہے ضوفشاں دیکھو مجھے فریب نہ دو میں نشے میں ہوں نشہ تو موت ہے غمِ ہستی کی دھوپ میں بکھرا کے زلف ساتھ چلو میں نشے میں...
  8. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی تری نظر کے اشاروں سے کھیل سکتا ہوں

    تری نظر کے اشاروں سے کھیل سکتا ہوں جگر فروز شراروں سے کھیل سکتا ہوں تمہارے دامن رنگیں کا آسرا لے کر چمن کے مست نظاروں سے کھیل سکتا ہوں کسی کے عہد محبت کی یاد باقی ہے بڑے حسین سہاروں سے کھیل سکتا ہوں مقام ہوش و خرد انتقام وحشت ہے جنوں کی راہ گزاروں سے کھیل سکتا ہوں مجھے خزاں کے بگولے...
  9. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا

    کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا میں بھی ترے گلشن میں پھولوں کا خدا ہوتا ہر چیز زمانے کی آئینہ دل ہوتی خاموش محبت کا اتنا تو صلہ ہوتا تم حال پریشاں کی پرسش کے لیے آتے صحرائے تمنا میں میلہ سا لگا ہوتا ہر گام پہ کام آتے زلفوں کے تری سائے یہ قافلۂ ہستی بے راہنما ہوتا احساس کی ڈالی...
  10. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی نظم: سانحہ اقصٰی

    سانحہ اقصٰی انسان کی وحشت کیا کہیئے انساں کے چلن میں آگ لگی موسیؑ کا تقدس راکھ ہوا عیسیؑ کے وطن میں آگ لگی توریت کی سطریں نوحہ کناں انجیل کے نغمے فریادی یعقوبؑ کے سجدے چیخ اٹھے یوسفؑ کے چمن میں آگ لگی احساس یہ سن کر جل اٹھا آدم کی امامت شعلوں میں پھر چشم فلک نے دیکھی ہے اسلام کی جنت شعلوں میں...
  11. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی چمن پہ دام پہ درویش مسکراتا ہے

    چمن پہ دام پہ درویش مسکراتا ہے ہر اک مقام پہ درویش مسکراتا ہے صراحی بزم میں جب قہقہے اگلتی ہے سکوت جام پہ درویش مسکراتا ہے ہزار حشر اٹھا اے تغیر دنیا تیرے خرام پہ درویش مسکراتا ہے شفق میں خون شہیداں کارنگ شامل ہے فروغ شام پہ درویش مسکراتا ہے کبھی خدا سے شکایت کبھی گلہ خود سے مذاق عام پہ...
  12. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی جگر کے زخم جاگے ایک شامِ نو بہار آئی

    جگر کے زخم جاگے ایک شامِ نو بہار آئی نہ جانے تیری گلیوں سے فضائے مشکبار آئی اسیروں نے نئی دُھن میں کوئی فریاد چھڑی ہے شگوفے مُسکرائے اِک صدائے کیف بار آئی ہے گردِ کارواں کی گود میں شاید کوئی منزل سُنو اے رہنماؤ! اک نویدِ لالہ زار آئی کِسی رندِ جہاں کش نے کوئی پیمانہ توڑا ہے تمناؤں کے گلزاروں...
  13. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں

    متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں جہان رنگ و بو الجھا ہوا ہے ان کے ڈوروں میں لگی ہیں کاکل تقدیر سلجھانے تری آنکھیں اشاروں سے دلوں کو چھیڑ کر اقرار کرتی ہیں اٹھاتی ہیں بہار نو کے نذرانے تری آنکھیں وہ دیوانے زمام لالہ و گل تھام لیتے ہیں جنہیں منسوب...
  14. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی میرے تصورات ہیں تحریروں عشق کی

    میرے تصورات ہیں تحریریں عشق کی زندانیٔ خیال ہیں زنجیریں عشق کی تعبیر حسن ہے دل مجروح کا لہو چھینٹے پڑے تو بن گئیں تصویریں عشق کی داغ فراق زخم وفا اشک خوں فشاں روز ازل سے ہیں یہی جاگیریں عشق کی شام خزاں کو صبح بہاراں بنا دیا ترتیب زیست بن گئیں تعزیریں عشق کی ساغرؔ جہان شوق میں دیکھی ہے جاوداں...
  15. طارق شاہ

    ساغر صدیقی :::: ایک پیکر -- Saghar Siddiqui

    ساغر صدیقی ایک پیکر بکھرے ہوئے ہیں کالے گیسُو دل پر ڈسنے والے گیسُو گوری گوری کومل بانہیں شام و سحر کی جلوہ گاہیں پلکوں پر کجلے کے ڈورے رنگ حِنائی پورے پورے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسّم آنکھوں میں اعجازِ تکلّم ماتھے چندا، ٹھوڑی تارہ چاکِ گریباں ذوقِ نظارہ کانوں میں چاندی کے بالے...
  16. طارق شاہ

    ساغر صدیقی :::: سوکھ گئے پٹ جھڑ میں پات -- Saghar Siddiqui

    غزلِ ساغرصدیقی سُوکھ گئے پت جھڑ میں پات ٹُوٹ گئے پُھولوں کے ہات کتنا نازُک ہے یہ دَور اشک گِراں غم کی بُہتات دشتِ الم کی ویرانی میں کاٹی ہے برکھا کی رات ہم دیوانے، ہم آوارہ چل نہ سکو گے اپنے سات ساغر مے خانے میں ہوگا چھوڑ بھی دو پگلے کی بات ساغر صدیقی
  17. طارق شاہ

    ساغر صدیقی :::: یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

    غزلِ ساغر صدیقی یہ جو دِیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں اِن میں کچُھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں دُور تک کوئی سِتارہ ہے نہ کوئی جگنو مرگِ اُمّید کے آثار نظر آتے ہیں میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں آپ پُھولوں کے خریدار...
  18. طارق شاہ

    ساغر صدیقی :::: میں اِلتفاتِ یار کا قائِل نہیں ہُوں دوست

    غزلِ ساغر صدیقی میں اِلتفاتِ یار کا قائِل نہیں ہُوں دوست سونے کے نرم تار کا قائل نہیں ہُوں دوست مُجھ کو خِزاں کی ایک لُٹی رات سے ہے پیار میں رونقِ بہار کا قائِل نہیں ہُوں دوست ہر شامِ وصل ہو نئی تمہیدِ آرزُو ! اِتنا بھی اِنتظار کا قائِل نہیں ہُوں دوست دوچار دِن کی بات ہے، یہ زندگی کی بات...
  19. طارق شاہ

    ساغر صدیقی :::: جو حادثے یہ جہاں میرے نام کرتا ہے

    غزلِ ساغر صدیقی جو حادثے یہ جہاں میرے نام کرتا ہے بڑے خلوص سے دل نذرِ جام کرتا ہے ہمیں سے قوسِ قزح کو مِلی ہے رنگینی ہمارے در پہ زمانہ قیام کرتا ہے ہمارے چاکِ گریباں سے کھیلنے والو ہمیں بہار کا سورج سلام کرتا ہے یہ میکدہ ہے یہاں کی ہر ایک شے کا حضور غمِ حیات بہت احترام کرتا ہے فقیہہِ شہر...
  20. طارق شاہ

    ساغر صدیقی :::: حادثے کیا کیا تمہاری بے رُخی سے ہو گئے

    غزلِ ساغرصدیقی حادثے کیا کیا تُمہاری بے رُخی سے ہو گئے ساری دُنیا کے لیے ہم اجنبی سے ہو گئے کچُھ تمہارے گیسوؤں کی برہمی نے کر دئیے ! کچُھ اندھیرے میرے گھر میں روشنی سے ہو گئے بندہ پرور، کُھل گیا ہے آستانوں کا بَھرم آشنا کچھ لوگ رازِ بندگی سے ہو گئے گردشِ دَوراں، زمانے کی نظر، آنکھوں کی...
Top