یہ محلوں ، یہ تختوں ، یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟
ہر اک جسم گھائل ، ہر اک روح پیاسی
نگاہوں میں الجھن ، دلوں میں اداسی
یہ دنیا ہے یا عالمِ بد حواسی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟
یہاں اک...
شہزادے
ذہن میں عظمتِ اجداد کے قصے لے کر
اپنے تاریک گھروندوں کے خلا میں کھو جاو
مرمریں خوابوں کی پریوں سے لپٹ کر سو جاو
ابر پاروں پہ چلو، چاند ستاروں میں اڑو
یہی اجداد سے ورثہ میں ملا ہے تم کو
دور مغرب کی فضاوں میں دہکتی ہوئی آگ
اہلِ سرمایہ کی آویزش باہم نہ سہی
جنگِ سرمایہ ومحنت ہی سہی...
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاوں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی
عجب نہ تھا کہ میں بے گانہء الم ہو کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں...
تمہیں اداس سا پاتا ہوں میں کئی دن سے
نہ جانے کون سے صدمے اٹھا رہی ہوتم
وہ شوخیاں وہ تبسم وہ قہقہے نہ رہے
ہر ایک چیز کو حسرت سے دیکھتی ہو تم
چھپا چھپا کے خموشی میں اپنی بے چینی
خود اپنے راز کی تشہیر بن گئی ہو تم
میری امید اگر مٹ گئی تو مٹنے دو
امید کیا ہے بس اک پیش و پس ہے کچھ بھی...
محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو زہر یہ بھی پی لیا میں نے
ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں
کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے
انہیں اپنا نہیں سکتا، مگر اتنا بھی کیا کم ہے
کہ کچھ مدت حسیں خوابوں میں کھو کر جی لیا میں نے
بس اب تو دامنِ دل...
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے'وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکرِ باطل کے ساتھ ہے
اس ڈھنگ پر ہے زور' تو یہ ڈھنگ ہی سہی
ظالم کی کوئی ذات'نہ مذہب نہ کوئی قوم...
فرار
اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بے کار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں
اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے
میرے ماضی کو اندھیروں مین دبا رہنے دو
میرا ماضی میری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں
میروں امید کا حاصل، مری کاوش کا صلہ
ایک بے نام اذیت کے سوا کچھ...
وہ صبح کبھی تو آئے گی
ان کالی صدیوں کے سر جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دُکھ کے بادل پگھلیں گے، جب سُکھ کا ساگر جھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا، جب دھرتی نغمہ گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی
جس صبح کی خاطر جُگ جُگ سے ہم سب مر مر کے جیتے ہیں
جس صبح کے امرت کی دُھن میں ہم زہر کے پیالے پیتے...
تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
مایوسیء ماآلِ محبت نہ پوچھئے
اپنوں سے پیش آئے ہیںبیگانگی سے ہم
لو آج ہم نے توڑ دیا رشتہء امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم
ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گودب گئے ہیں بارِ غمِ زندگی سے ہم
گر...
خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے
ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے
ٹوٹا طلسمِ عہد محبت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے
ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کرسکے
کس درجہ دل...
صبحِ نو روز
پھوٹ پڑیں مشرق سے کرنیں
حال بنا ماضی کا فسانہ
گونجا مستقبل کا ترانہ
بھیجے ہیں احباب نے تحفے
اٹے پڑے ہیں میز کے کونے
دلہن بنی ہوئی ہیں راہیں
جشن مناو سالِ نو کے
نکلی ہے بنگلے کے در سے
اک مفلس دہقان کی بیٹی
افسردہ مرجھائی ہوئی سی
جسم کے دکھتے جوڑ دباتی
آنچل سے سینے...
اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بیکار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں میں
اپنی بےسود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے
میرا ماضی کو اندھیرے میں دبا رہنے دو
میراماضی میری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں
معری امیدوں کا حاصل میری خواہش کا صلہ
اک بےنام اذیت کے سوا کچھ بھی...
تاج تیرے لیے اک مظہرِ الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیء رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟
ثبت جس راہ میں ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟
میری محبوب پس پردہ تشہیرِ وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا...
پیارے دوستو، ساحر لدھیانوی کی شاعری کا سب سے مشہور حصہ ان کے فلمی گیت ہیں۔ ذیل میں ان کی شاعری سے کچھ مختصر انتخاب پیش کیا جا رہا ہے۔ اس میں ان کی تین مشہور نظمیں بھی شامل ہیں جن کے نام “چکلہ“، “عورت نے جنم دیا مردوں کو“ اور “کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے“ ہیں
سوچتا ہوں
سوچتا ہوں محبّت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانہ ترغیب و تمنّا کر لوں
سوچتا ہوں کے محبّت ہے جنونِ رسوا
چند بیکار سے بیہودہ خیالوں کا ہجوم
ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کے اپنانے کی سی موہوم
سوچتا ہوں کے محبّت ہے سرور و مستی !
اس کی تنویر سے روشن ہے فضائے ہستی...