حضرت علیؓ کی شاعری
قدیم عرب دانش کی وہ جھلکیاں جنہیں آج کی عقل بھی سجدے کرتی ہیں
اکثر اسلامی تاریخی روایات کے مطابق حضرت علیؓ کو فن شاعری سے بھی رغبت تھی۔ 1928ء میں آپ ؓ کا دیوان ہندوستان میں، عربی متن اور اردو ترجمہ کے ساتھ پہلی بار شائع ہوا، مترجم مولی سعید احمد اعظم گڑھی تھے۔ "یہ اس عظیم...
کعبہ میں لٹکی نظم
عربی ادب کی ایک لازوال نظم کا اردوترجمہ
امیر حسن نورانی کے قلم کا کرشمہ
-------------------------------------------
مکہ کے اطراف میں تین بہت بڑے میلے ہوتے تھے۔ ایک مجنہ میں، دوسرا ذوالمجاز میں اور تیسرا سب سے بڑا اور اہم میلہ عکاظ میں لگتا تھا۔ انہیں میلوں میں شعر و شاعری کی...
محترم الف عین کی پیشِ خدمت
جناب محمد یعقوب آسی کی نظر
ایک حقیر اور ادنی کاوش ۔۔۔ بھول اور غلطیاں میرے حصے میں کچھ اچھا لگے تو وہ آپ کی ذرہ نوازی ہے ۔آپ دونوں کا حسنِ ظن ہے ورنہ میں کہاں قابل کچھ کہ سکوں ۔۔۔۔
بے انتہا جنوں ہے، اب عشق لا دوا ہے.
آئینہ بن گیا دل ، مدت کوئی رہا ہے.
آوارگی...
میری ایک طرحی غزل ۔ دسویں غزل (نویں غزل کے بعد )
طرحی مصرع ۔دل کا موسم بہت سہانا ہے۔
بجلیوں کا وہی نشانہ ہے
وہ شجر جس پہ آشیانہ ہے
-
کیوں بڑھائی گئی سزا میری ؟
کیا مرا جرم مسکرا نا ہے
-
شیخ کی پارسائی کی مانند
تیری نظروں کا تازیانہ ہے
-
میں سمجھ ہی نہ پایا آخر تک
اس کا انداز دوستانہ ہے
-...
میرے والد صاحب سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری کی ایک غزل احباب کے لیے۔ضیائے خورشید سے انتخاب۔
عیاں اور بھی ہیں نہاں اور بھی ہیں
مری حسرتوں کے نشاں اور بھی ہیں
پُکارو گے کس کس کو اس انجمن میں
مرے نام کےمیہماں اور بھی ہیں
مرے گھر کے دیوارو در کو نہ دیکھو
غریبوں کے کچے مکاں اور بھی ہیں
ضیاؔ...
میری ایک بہت پرانی غزل ۔جیسا کہ بحرو قوافی سے ظاہر ہے۔یہ خدائے سخن کے ایک مصرع کی طرحی غزل ہے۔یہاں محفل میں آمد کا سبب یہی غزل بنی تھی۔
غزل
شعلہ جب جسم و جاں سے اٹھتا ہے
ضبط غم خوردگاں سے اٹھتاہے
شور یہ گلستاں سے اٹھتا ہے
یا یہ قلبِ تپاں سے اٹھتا ہے
ایک موہوم سا یقین تھا وہ
جیسے میرے گماں...
عید الاضحی کے دن میری آٹھویں غزل کے بعد
ایک تازہ غزل پیش ہےتمام احبابِ محفلین کے لیے۔
کوئے بتاں میں تیرا نشاں ڈھونڈتے رہے
ہم لامکاں میں ایک مکاں ڈھونڈتے رہے
مسحور اک طلسم ِ ندیدہ سے عمر بھر
تھامے چراغ تیرا نشاں ڈھونڈتے رہے
زیر ِزمین گھر کا نہ گزرا ہمیں خیال
ہم زیر ِآسمان اماں ڈھونڈتے رہے...
اہلیان محفل کوعید الاضحی کی مبارک باد کے بعد میری ساتویں غزل کے بعد عید الاضحی کے دن ایک اور تازہ کاوش آٹھویں غزل۔ اگر چہ اصلاح ِ سخن میں پیش نہیں کی کہ اصلاح وصول ہی نہیں ہوتی یا بہت کم ۔سو یہاں عرض ہےاور احباب کی تنقیدی رائے بہر حال قیمتی ہوگی۔
ماہ نے تجھ کو لب ِ بام سنبھلتے دیکھا...
۔چند تازہ اشعار تغزل کے پیش ہیں ۔
چھٹا شعر عرفی شیرازی کے ایک فارسی شعر سے ماخوذ ہے ۔۔ اور آخری مصرع خواجہ میر درد کی تضمینی بندش ہے۔
تجھ پاس ہے جو چیز، وہ گل پاس نہیں ہے
وہ رنگ نہیں اس میں وہ بوُ باس نہیں ہے
لب لعلِ بدخشاں ہیں تو آنکھیں ہیں زمرُّد
طرّے کو ترے حاجت ِ الماس نہیں ہے
ہے خون ِ...
وہ ملنے کو تڑپتا ہے چلو ہم مان لیتے ہیں
اسے مجھ سے محبت ہے یہ قصہ جان لیتے ہیں
محبت ،عشق ،مستی کو سمجھنا بھی ضروری ہے
ولی،مومن و غالب ،میر کا دیوان لیتے ہیں
محبت کرنے والوں سے یہی پیغام ملتا ہے
جنہیں ملنے کی حسرت ہو وہ لمبی تان لیتے ہیں
گریباں چاک ہوتا ہے ،کبھی رسوا بھی ہوتا ہے
محبت میں...
۔چند تازہ اشعار تغزل کے پیش ہیں ۔اساتذہ اور دوستوں سے کچھ تنقید اور تبصرے کی گزارش ہے کہ کئی جگہ کچھ اطمئنان نہیں ۔
چھٹا شعر عرفی شیرازی کے ایک فارسی شعر سے ماخوذ ہے ۔۔ اور آخری مصرع خواجہ میر درد کی تضمینی بندش ہے۔
تجھ پاس ہے جو چیز، وہ گل پاس نہیں ہے
وہ رنگ نہیں اس میں وہ بوُ باس نہیں ہے...
یوم دفاع ِ پاکستان پر میرے والد صاحب کا خراج تحسین ۔نظم یوم ِدفاع
ہماری سرزمینِ پاک میں دشمن در آئے تھے
اسی شب ہم نے عزمِ خاص کے سورج جگائے تھے
قیامت ساز ہنگامے وہ اپنے ساتھ لائے تھے
مگر ہم نے مقابل میں نئے محشر اٹھائے تھے
جوان و پیر و کمسن سب بھرے گھر سے نکل آئے
کماں تھی باپ کے ہاتھوں...
میرے والد صاحب سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری کی ایک غزل ۔ضیائے خورشید سے انتخاب۔
جو مرا ہمنوا نہیں ہوتا
وہ ترے شہر کا نہیں ہوتا
شاخ پر ہیں ہرے بھرے پتّے
پھول لیکن ہرا نہیں ہوتا
آج بھی آہنی جنوں کا حق
پتھروں سے ادا نہیں ہوتا
کہکشاں کو نچوڑ کر پی لیں
جام پھر بھی جُدا نہیں ہوتا
منصفی...
میرے والد صاحب سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری کی ایک۔ نعت۔ احباب کے لیے۔ضیائے خورشید سے منتخب کی گئی۔
میں جاہ طلب ہوں نہ کوئی جاہ حشم ہے
اک بندہ ناچیز طلبگارِکرم ہے
تو احمدِ مختار نویدِ بن مریم
ہاں تو ہی دعائے دمِ تعمیر حرم ہے
موسیٰ کے لئے برق تھی ،میرے لئے قندیل
اب وہ ہی تجلّی سرِ دیوار...
میرے والد صاحب سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری کی ایک غزل احباب کے لیے۔ضیائے خورشید سے انتخاب۔
اشکِ غم و فراق ہیں گنگ و جمن کی آگ
یہ آگ ڈھونڈتی ہے تری انجمن کی آگ
آرائش جمال سے پہلے ترا جمال
یہ سادگی کی آگ ہے وہ بانکپن کی آگ
اپنے لبوں کی آپ ہی تعریف کیجئے
جب آپ کہہ رہے ہیں گلوں کہ...
حالیہ مشاعرے کے لیے کہی گئی میری غزل
تری نسبتوں کا نشاں چاہیے
جبیں کو یہی آستاں چاہیے
مجھے ایک ایسا جہاں چاہیے
اثر جس میں ہو وہ فغاں چاہیے
مَحّبت کی ارزاں دکاں چاہیے
مگر جنس اس میں گراں چاہیے
نہ سمجھا کوئی آنسوؤں کو مرے
مجھے مجھ سااک ترجماں چاہیے
میں لوح و قلم کا تو منکر نہیں
مگر آج تیر و...
میرے والد صاحب سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری کی ایک غزل احباب کے لیے۔ضیائے خورشید سے انتخاب۔
ترے جمال کو ہم لاجواب کہتے ہیں
ہمِیں نہیں، یہ مہ و آفتاب کہتے ہیں
کہاں وہ چہرہ انور کہاں یہ مہرمنیر
ہم آفتاب کو ذروں کا خواب کہتے ہیں
ترے جمال کے اوراق میری ترتیلیں
ترے جمال کو ام الکتاب کہتے...
میرے حصے میں بھی ثواب آئے
ہے شب ِ قدر ، بے حساب آئے
آج رحمت کے جام بٹتے ہیں
ہر سیہ کار اب شتاب آئے
کشت ِ ویراں میں کچھ نہیں اُگتا
فکر میری پہ بھی شباب آئے
رات بھر آج ہوں کھڑا در پر
جانے کس وقت کچھ جواب آئے
رات افضل ہو کیوں نہ راتوں پر
جس میں معجز نما کتاب آئے
نام ورد ِ زباں ہے احمد کا
مجھ...
میرے والد صاحب مرحوم (سید خورشید علی ضیا عزیزی جے پوری) کی ایک اور غزل۔
صراحی سر نگوں ، مینا تہی اور جام خالی ہے
مگر ہم تائبوں نے نیّتوں میں مے چھپالی ہے
کبھی اشکوں کی صورت میں کبھی آہوں کی صورت میں
نکلنے کی تمنّا نے یہی صورت نکالی ہے
یہی ڈر ہے کہیں گلچیں نہ کہہ دیں یہ جہاں والے
کبھی...
ایک غز ل کی تازہ کاوش احباب و محفلین کی خدمت میں ۔
شب ِ تاریک میں لرزا ں شرار ِ زندگانی ہے
ترے غم کی رفاقت سے یہ عمر ِجاودانی ہے
مرا پیہم تبسم ہی مرے غم کی نشانی ہے
مرا دھیما تکلّم ہی مری شعلہ بیانی ہے
فقیہِ شہر کا اب یہ وظیفہ رہ گیا باقی،
امیر ِ شہر کی دہلیز پہ بس دُم ہلانی ہے
کوئی زنداں...