غزل
( سمپورن سنگھ کلرا، گلزار)
پھولوں کی طرح لب کھول کبھی
خوشبو کی زباں میں بول کبھی
الفاظ پرکھتا رہتا ہے
آواز ہماری تول کبھی
انمول نہیں لیکن پھر بھی
پوچھ تو مفت کا مول کبھی
کھڑکی میں کٹی ہیں سب راتیں
کچھ چورس تھیں کچھ گول کبھی
یہ دل بھی دوست زمیں کی طرح
ہو جاتا ہے ڈانوا ڈول کبھی
نئی غزل پیش خدمت ہے۔ خوبیوں خامیوں پر روشنی ڈالیں۔ بہت شکریہ! :)
گہن لگائے نہ رنگِ گل کو جمالِ سیمیں بدن تو کیسے؟
وہ سیم تن جب ہو عکس افگن سمن کو دیکھے چمن تو کیسے؟
نہ وہ سجاوٹ نہ جگمگاہٹ نہ تمتماہٹ نہ جھل جھلاہٹ
ہمارے یاقوت لب کے آگے جو بولے لعلِ یمن تو کیسے؟
پتا وہ میرا ہی پوچھتا ہے گلی میں...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
یہ کس فضا میں نامِ خدا جا رہا ہوں میں
مانندِ جبرئیل اُڑا جا رہا ہوں میں
منزل مری کہاں ہے، مجھے کچھ خبر نہیں
دریا ہوں اپنی رَو میں بہا جا رہا ہوں میں
پردے سے لاؤں کیا تمہیں باہر نکال کر
اپنی نظر سے آپ چھپا جا رہا ہوں میں
نو واردانِ محفلِ ہستی، خوش آمدید...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
تُو میرے ہر راز سے محرم
پھر بھی مجھ سے واقف کم کم
سب کے لب پر تیرا نغمہ
سب کے ہاتھ میں تیرا پرچم
تجھ میں گنگا، تجھ میں جمنا
تُو ہی تربینی کا سنگم
اور نہیں کچھ خواہش میری
دے دے بخشش میں اپنا غم
موت آئی کس وقت منوّر
ہر گھر میں ہے تیرا ماتم
بیٹھے ہیں چین سے کہیں جانا تو ہے نہیں
ہم بے گھروں کا کوئی ٹھکانا تو ہے نہیں
تم بھی ہو بیتے وقت کے مانند ہو بہو
تم نے بھی یاد آنا ہے آنا تو ہے نہیں
عہد وفا سے کس لیے خائف ہو میری جان
کر لو کہ تم نے عہد نبھانا تو ہے نہیں
وہ جو ہمیں عزیز ہے کیسا ہے کون ہے
کیوں پوچھتے ہو ہم نے بتانا تو ہے نہیں...
غزل
(شمس ولی اللہ ولی دکنی)
عاشِقاں پر ہمیشہ رَوشن ہے
کہ فنِ عاشِقی، عجب فن ہے
دُشمنِ دیں کا، دین دُشمن ہے
راہ زن کا چِراغ رہزن ہے
سفرِ عِشق کیوں نہ ہو مُشکِل؟
غمزہء چشمِ یار رہزن ہے
مُجھ کوں رَوشن دِلاں نے دی ہے خبر
کہ سُخن کا چِراغ رَوشن ہے
عِشق میں شمع رو کے جلتا ہوں
حال میرا سبھوں پہ...
دن نکلے تو سوچ الگ ، شام ڈھلے وجدان الگ
امید الگ ، آس الگ ، سکون الگ ، طوفان الگ
تشبیہ دوں تو کس سے ، کہ تیرے حسن کا ہر رنگ
نیلا الگ ، زمرد الگ ، یاقوت الگ ، مرجان الگ
تیری الفت کے تقاضے بھی عجب انداز کے تھے
اقرار الگ ، تکرار الگ ، تعظیم الگ ، فرمان الگ
گر ساتھ نہیں دے سکتے تو بانٹ دو یکجان...
غزل
(حمایت علی شاعر)
بدن پہ پیرہنِ خاک کے سوا کیا ہے
مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے
یہ شہرِ سجدہ گزاراں دیارِ کم نظراں
یتیم خانہء اداک کے سوا کیا ہے
تمام گنبد و مینار و منبر و محراب
فقیہِ شہر کی املاک کے سوا کیا ہے
کھلے سروں کا مقدر بہ فیض جہلِ خرد
فریب سایہء افلاک کے سوا کیا ہے
یہ میرا...
غزل
(شو رتن لال برق پونچھوی)
جب ترا آسرا نہیں ملتا
کوئی بھی راستا نہیں ملتا
اپنا اپنا نصیب ہے پیارے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ملتا
تو نے ڈُھونڈا نہیں تہ دل سے
ورنہ کس جا خدا نہیں ملتا
لوگ ملتے ہیں پھر بچھڑتے ہیں
کوئی درد آشنا نہیں ملتا
ساری دنیا کی ہے خبر مجھ کو
صرف اپنا پتا نہیں ملتا
حسرتیں...
غزل
(گوپال متل)
زبان رقص میں ہے اور جھومتا ہوں میں
کہ داستانِ محبت سنا رہا ہوں میں
نہ پوچھ مجھ سے مری بے خودی کا افسانہ
کسی کی مست نگاہی کا ماجرا ہوں میں
کہاں کا ضبطِ محبت، کہاں کی تاثیریں
تسلیاں دلِ مضطر کو دے رہا ہوں میں
پھر ایک شعلہء پر پیچ و تاب بھڑکے گا
کہ چند تنکوں کو ترتیب دے رہا ہوں...
غزل
(انور مرزا پوری)
کسی صورت بھی نیند آتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں
کوئی شے دل کو بہلاتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں
اکیلا پا کے مجھ کو یاد اُن کی آ تو جاتی ہے
مگر پھر لوٹ کر جاتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں
جو خوابوں میں مرے آ کر تسلّی مجھ کو دیتی تھی
وہ صورت اب نظر آتی نہیں، میں کیسے سو جاؤں
تمہیں تو...
غزل
(جمیل الدین عالی - 1925-2015 ، کراچی)
بہت دنوں سے مجھے تیرا انتظار ہے آ جا
اور اب تو خاص وہی موسمِ بہار ہے آ جا
گزر چکی ہیں بہت غم کی شورشیں بھی حدوں سے
مگر ابھی تو ترا سب پہ اختیار ہے آ جا
غزل کے شکوے غزل کے معاملات جدا ہیں
مری ہی طرح سے تو بھی وفا شعار ہے آ جا
بدل رہا ہے زمانہ مگر جہانِ...
غزل
(مخدوم محی الدین - حیدرآباد 1908-1969)
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشمِ نم مُسکراتی رہی رات بھر
رات بھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کی لو تھرتھراتی رہی رات بھر
بانسری کی سریلی سہانی صدا
یاد بن بن کے آتی رہی رات بھر
یاد کے چاند دل میں اُترتے رہے
چاندنی جگمگاتی رہی رات بھر
کوئی دیوانہ گلیوں میں...
غزل
(قتیل شفائی)
جب اپنے اعتقاد کے محور سے ہٹ گیا
میں ریزہ ریزہ ہو کے حریفوں میں بٹ گیا
دشمن کے تن پہ گاڑ دیا میں نے اپنا سر
میدانِ کارزار کا پانسہ پلٹ گیا
تھوڑی سی اور زخم کو گہرائی مل گئی
تھوڑا سا اور درد کا احساس گھٹ گیا
درپیش اب نہیں ترا غم کیسے مان لوں
کیسا تھا وہ پہاڑ جو رستے سے ہٹ گیا...
غزل
(شاد عارفی)
جو بھی اپنوں سے الجھتا ہے وہ کر کیا لے گا
وقت بکھری ہوئی طاقت کا اثر کیا لے گا
خار ہی خار ہیں تاحدِّ نظر دیوانے
ہے یہ دیوانہء انصاف ادھر کیا لے گا
جان پر کھیل بھی جاتا ہے سزاوار قفس
اس بھروسے میں نہ رہیئے گا یہ کر کیا لے گا
پستیء ذوقِ بلندیء نظر ، دار و رسن
ان سے تو مانگنے...