پاداش
کبھی اس سبک رو ندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو
تمھیں کیا خبر ہے
وہاں اَن گنت کُھردرے پتھروں کو
سجل پانیوں نے
ملائم، رسیلے، مدھر گیت گا کر
امٹ چکنی گولائیوں کو ادا سونپ دی ہے
وہ پتھر نہیں تھا
جسے تم نے بے ڈول، اَن گھڑ سمجھ کر
پرانی چٹانوں سے ٹکرا کے توڑا
اب اس کے سلگتے تراشے
اگر پاؤں میں...
آئینۂ جذباتِ نہاں ہیں تری آنکھیں
اک کار گہِ شیشہ گراں ہیں تری آنکھیں
سر چشمۂ افکار جواں ہیں تری آنکھیں
تابندہ خیالات کی جاں ہیں تری آنکھیں
اندازِ خموشی میں ہے گفتار کا پہلو
گویا نہ سہی، چپ بھی کہاں ہیں تری آنکھیں
جاؤں گا کہاں توڑ کے زنجیرِ وفا کو
ہر سو مری جانب نگراں ہیں تری آنکھیں
کہنا ہے...
مجھے شکیب جلالی کی یہ نظم بہت پسند ہے۔ آج ایک عرصے کے بعد اس نظم کے خوابیدہ مصرعوں نے ذہن کے گوشوں سے نکل کر انگڑائیاں لی تو سوچا کیوں نہ اس نظم کو تلاش کیا جائے۔ مگر افسوس ایسی خوبصورت نظم صرف ہلا گلا سائٹ پر ملی اور وہ بھی اغلاط سے بھرپور۔ اپنی یاد داشت کی مدد سے ان اغلاط کو درست تو کر رہا...
غمِ الفت مرے چہرے سے عیاں کیوں نہ ہوا
آگ جب دل میں سلگتی تھی دھوں کیوں نہ ہوا
سیلِ غم رکتا نہیں ضبط کی دیواروں سے
جوشِ گریہ تھا تو میں گریہ کناں کیوں نہ ہوا
کہتے ہیں حسن خد و خال کا پابند نہیں
ہر حسیں شے پہ مجھے تیرا گماں کیوں نہ ہوا
دشت بھی اس کے مکیں، شہر بھی اس میں آباد
تو جہاں...
ہمارا دور
گلوں میں حسن شگوفوں میں بانکپن ہو گا
وہ وقت دور نہیں جب چمن چمن ہو گا
جہاں پہ آج بگولوں کا رقص جاری ہے
وہیں پہ سایہ شمشاد و نسترن ہو گا
فضائیں زرد لبادے اتار پھینکیں گی
عروسِ وقت کا زرکار پیرہن ہو گا
نسیمِ صبح کے جھونکے جواب دہ ہوں گے
کسی کلی کا بھی ماتھا جو پر شکن ہو...
غزل
ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص جو پیاسا پلٹ گیا
لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں
پہنچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا
یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگِ گُل سے کٹ گیا
بانہوں میں آ سکا نہ حویلی کا اک سُتون
پُتلی میں میری آنکھ کی ،...
خموشی بول اٹھے ھر نظر پیغام ھوجائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ھو جائے
ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں جنگلوں میں شام ھوجائے
میں وہ آدم گزیدہ ھوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ھو جائے
مثال ایسی ھےاس دورِ خرد کے ھوشمندوں کی
نہ ھو دامن...
خزاں کے چاند نے جھک کے یہ پوچھا کھڑکی میں
کبھی چراغ بھی جلتا ھے اس حویلی میں
یہ آدمی ھیں کہ سائے ھیں آدمییت کے
گزر ھوا ھے میرا کس اجاڑ بستی میں
جھکی چٹان،پھسلتی گرفت جھولتا جسم
میں اب گرا ھی گرا تنگ و تار گھاٹی میں
زمانے بھر سے نرالی ھے آپ کی منطق
ندی کو پار کیا کس نے الٹی کشتی میں
جلائے ھی کیوں...
کنارِ آب کھڑا خود سے کہہ رھا ھے کوئی
گماں گزرتا ھے یہ شخص دوسرا ھے کوئی
ھوا نے توڑ کے پتہ زمیں پر پھینکا ھے
کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ھے کوئی
بٹا سکے ھیں پڑوسی کسی کا درد کبھی
یہی بہت ھے چہرے سے آشنا ھے کوئی
درخت راہ بتائیں ھلا ھلا کے ھاتھ
کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ھے کوئی
چھڑا کے ھاتھ بہت...
مرجھا کے کالی جھیل میں گرتے ھوئے بھی دیکھ
سورج ھوں میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ
ھر چند راکھ ھو کے بکھرنا ھے راہ میں
جلتے ھوئے پروں سے اڑا ھوں مجھے بھی دیکھ
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
تو نے کہا تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ھوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ...
آ کے پتھر تو میرے صحن میں دو چار گِرے
جِتنے اُس پیڑ کے پھل تھے پسِ دیوار گِرے
مُجھکو گِرنا ہے تو پِھر اپنے ہی قدنوں پہ گِروں
جِس طرح سائہِ دیوار پہ دیوار گِرے
تیرگی چھوڑ گئی دِل میں اُجالے کے خطوط
یہ سِتارے میرے گھر ٹوٹ کے بیکار گِرے
کیا کہوں دیدہِ تر ، یہ تو مِرا چہرا ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں...
جس قدر خود کو وہ چھپاتے ہیں
لوگ گرویدہ ہوتے جاتے ہیں
جو بھی ہمدرد بن کے آتے ہیں
غم کا احساس ہی جگاتے ہیں
عہدِ ماضی کے زرفشاں لمحے
شدتِ غم میں مسکراتے ہیں
خود کو بدنام کررہا ہوں میں
ان پہ الزام آئے جاتے ہیں
اجنبی بن کے جی رہا ہوں میں
لوگ مانوس ہوتے جاتے ہیں
شکیب جلالی
لہو ترنگ
(پہلی آواز)
ہمیں قبول نہیں زندگی کی اسیری
ہم آج طوق و سلاسل کو توڑ ڈالیں گے
ہمارے دیس پہ اغیار حکمراں کیوں ہوں
ہم اپنے ہاتھ میں لوح و قلم سنبھالیں گے
فضا مہیب سہی، مرحلے کٹھن ہی سہی
سفینہ حلقہءطوفاں سے ہم نکالیں گے
نقوشِ راہ اگر تیرگی میں ڈوب گئے
ہم اپنے خوں سے ہزاروں دیے...
گلے ملا نہ کبھی چاند ، بخت ایسا تھا
ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا
ستارے سِسکیاں بھرتے تھے، اوس روتی تھی
فسانئہِ جگرِ لخت لخت ایسا تھا
ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے
چٹخ کے ٹوٹ گیا ، دل کا سخت ایسا تھا
یہ اور بات کہ وہ لَب تھے پھول سے نازک
کوئی نہ سہہ سکے ، لہجہ کرخت ایسا تھا...
پاس رہ کر بھی بہت دور ہیں دوست
اپنے حالات سے مجبور ہیں دوست
ترکِ الفت بھی نہیں کر سکتے
ساتھ دینے سے بھی معذور ہیں دوست
گفتگو کے لئے عنواں بھی نہیں
بات کرنے پہ بھی مجبور ہیں دوست
یہ چراغ اپنے لیے رہنے دو
تیر راتیں بھی تو بے نور ہیں دوست
سبھی پثرمردہ ہیں محفل میں شکیب
میں پریشان...
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتّا دکھائی دیتا ہے
برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا
انھیں تو دن کو بھی سایا دکھائی دیتا ہے
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے...
آگ کے درمیان سے نکلا
میں بھی کس امتحان سے نکلا
پھر ہوا سے سلگ اٹھے پتے
پھر دھواں گلستان سے نکلا
جب بھی نکلا ستارہ امید
کہر کے درمیان سے نکلا
چاندنی جھانکتی ہے گلیوں میں
کوئی سایہ مکان سے نکلا
ایک شعلہ پھر ایک دھویں کی لکیر
اور کیا خاکدان سے نکلا
چاند جس آسمان میں ڈوبا
کب اسی...
عزیزانِ محترم،
آداب و تسلیمات،
جنابِ شکیب جلالی کا کلام آپ دوستوں
کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔
امید ہے پسند فرمائینگے ۔
چوٹ ہر گام پہ کھا کر جانا
قُربِ منزل کے لئے مر جانا
ہم بھی کیا سادہ نظر رکھتے تھے
سنگ ریزوں کو جواہر جانا
مشعلِ درد جو روشن دیکھی
خانہِ دل کو منّور جانا
رشتہِ غم کو غمِ...