غزل
وہ سُکُوت، اپنے میں جو شور دَبا دیتے ہیں
جُوں ہی موقع مِلے طُوفان اُٹھا دیتے ہیں
خواہِشیں دِل کی اِسی ڈر سے دَبا دیتے ہیں
پیار کرنے پہ یہاں لوگ سَزا دیتے ہیں
چارَہ گر طبع کی بِدعَت کو جِلا دیتے ہیں
ٹوٹکا روز کوئی لا کے نیا دیتے ہیں
آشنا کم لَطِیف اِحساسِ محبّت سے نہیں
لیکن اسباب تماشہ...
غزل
لالا کے چشمِ نم میں مِرے خواب تھک گئے
جُھوٹے دِلاسے دے کےسب احباب تھک گئے
یادیں تھیں سَیلِ غم سے وہ پُرآب تھک گئے
رَو رَو کے اُن کے ہجر میں اعصاب تھک گئے
خوش فہمیوں کےڈھوکے ہم اسباب تھک گئے
آنکھوں میں بُن کے روز نئے خواب تھک گئے
جی جاں سے یُوں تھے وصل کو بیتاب تھک گئے
رکھ کر خیالِ خاطر و...
غزل
ہو خیال ایسا جس میں دَم خَم ہو
شاید اُس محوِیّت سے غم کم ہو
پھر بہار آئے میرے کانوں پر!
پھر سے پائل کی اِن میں چھم چھم ہو
اب میسّر کہاں سہولت وہ !
اُن کو دیکھا اور اپنا غم کم ہو
ہاتھ چھوڑے بھی اِک زمانہ ہُوا
اُس کی دُوری کا کچھ تو کم غم ہو
مِلنےآتے بھی ہیں، تو ایسے خلشؔ!
جیسے، دِل اُن...
غزل
شفیق خلشؔ
کُھلے بھی کُچھ، جو تجاہُل سے آشکار کرو!
زمانے بھر کو تجسّس سے بیقرار کرو
لکھا ہے رب نے ہمارے نصیب میں ہی تمھیں
قبول کرکے، محبّت میں تاجدار کرو
نہ ہوگی رغبتِ دِل کم ذرا بھی اِس سے کبھی!
بُرائی ہم سے تُم اُن کی، ہزار بار کرو
یُوں اُن کے کہنے نے چھوڑا نہیں کہیں کا ہَمَیں
مَیں لَوٹ...
غزل
خواہش،حصُولِ یار کا اِک زِینہ ہی تو ہے
سُود و زیاں کا زِیست میں تخمینہ ہی تو ہے
حاصل ہو حُسنِ نسواں کو جس سے غضب وقار
ملبُوس سردیوں کا وہ پشمینہ ہی تو ہے
ایسا نہیں کہ آج ہی آیا ہَمَیں خیال
پانا اُنھیں ہی خواہشِ دیرینہ ہی تو ہے
بڑھ چڑھ کے ہے دباؤ غمِ ہجر کے شُموُل
ڈر ہے کہ پھٹ نہ جائے...
غزل
رغبت ِ دِل کوزمانے سے چُھپایا تھا بہت
لیکن اُس ضبطِ محبّت نے رُلایا تھا بہت
دسترس نے بھی تو مٹّی میں مِلایا تھا بہت
جب تماشا دِلی خواہش نے بنایا تھا بہت
بے بسی نے بھی شب و روز رُلایا تھا بہت
خواہشِ ماہ میں جی اپنا جلایا تھا بہت
کُچھ تو کم مایَگی رکھّے رہی آزردہ ہَمَیں!
کُچھ ہَمَیں اُس کی...
غزل
سبھی سوالوں کے ہم سے جواب ہو نہ سکے
کرم تھے اِتنے زیادہ ، حساب ہو نہ سکے
عَمل سب باعثِ اجر و ثَواب ہو نہ سکے
دَوائے درد و دِلی اِضطراب، ہو نہ سکے
رہے گراں بہت ایّام ِہجر جاں پہ مگر!
اُمیدِ وصل سے حتمی عذاب ہو نہ سکے
بَدل مہک کا تِری، اے ہماری نازوجِگر !
کسی وَسِیلہ سُمن اور گُلاب ہو نہ...
غزل
خواہشِ دل دبائے رکّھا ہے
اُن سے کیا کیا چُھپائے رکّھا ہے
ڈر نے ہَوّا بنائے رکّھا ہے
کہنا کل پر اُٹھائے رکھا ہے
مُضطرب دِل نے آج پہلے سے
کُچھ زیادہ ستائے رکّھا ہے
مِل کے یادوں سے تیری، دِل نے مِرے
اِک قیامت اُٹھائے رکّھا ہے
تیری آمد کے اِشتیاق نے پِھر
دِیدۂ دِل بچھائے رکّھا ہے
از سَرِ...
غزل
دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا
اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا
کُچھ روز بڑھ رہا تھا مُقابل جو لانے کو!
جذبہ وہ دِل کا مَیں نے تَھپک کر سُلادِیا
تصدیقِ بدگمانی کو باقی رہا نہ کُچھ
ہر بات کا جواب جب اُس نے تُلا دِیا
تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب
خط میرے نام لکھ کے جب...
غزل
تیری نظروں سے اُلجھ جانے کو جی چاہتا ہے
پِھر وہ اُلفت بھرے پیمانے کو جی چاہتا ہے
تیرے پہلُو میں دَبک جانے کو جی چاہتا ہے
غم سے کُچھ دیر نِکل آنے کو جی چاہتا ہے
دِل میں ڈر سے دَبی اِک پیار کی چنگاری کو
دے ہَوا، شعلہ سا بھڑکانے کو جی چاہتا ہے
جاں بچانے ہی ہم محفوظ مقام آئے تھے!
پھر مُصیبت...
غزل
اگر نِکلا کبھی گھر سے، تو اپنے ہونٹ سی نِکلا
بُرا دیکھے پہ کہنا کیا مَیں غصّہ اپنا پی نِکلا
بڑھانا عِشق میں اُس کے قدم بھی پَس رَوِی نِکلا
کہ دل برعکس میرے، پیار سے اُس کا بَری نِکلا
محبّت وصل کی خواہش سے ہٹ کر کُچھ نہ تھی ہر گز
معزّز ہم جسے سمجھے، وہ ادنٰی آدمی نِکلا
تصوّر نے...
غزل
دِل بھی بَلیَوں اُچھال سکتا ہے
جو تحیّر میں ڈال سکتا ہے
کیا تخیّل نہ ڈھال سکتا ہے
مفت آزار پال سکتا ہے
خود کو بانہوں میں ڈال کر میرے
اب بھی غم سارے ٹال سکتا ہے
کب گُماں تھا کسی بھی بات پہ یُوں
اپنی عزّت اُچھال سکتا ہے
جب ہو لِکّھا یُوں ہی مُقدّر کا!
تب اُسے کون ٹال سکتا ہے
ذہن، غم دِل...
غزل
کُچھ مُداوا ئےغمِ ہجر بھی کرتے جاؤ
جُھوٹے وعدوں سے پڑے زخم تو بھرتے جاؤ
کُچھ تو دامن میں خوشی جینےکی بھرتے جاؤ
اِک مُلاقات ہی دہلیز پہ دھرتے جاؤ
جب بھی کوشِش ہو تمھیں دِل سے مِٹانے کی کوئی
بن کے لازم تم مزِید اور اُبھرتے جاؤ
ہے یہ سب سارا، تمھارے ہی رویّوں کے سبب
جو بتدریج اب...
غزل
ایک اِک کرکے، سبھی لوگ بدلتے جائیں
اپنے اطوارسے ہی، دِل سے نکلتے جائیں
راحتِ دِید کی حاجت میں اُچھلتے جائیں
اُن کے کُوچے میں انا اپنی کُچلتے جائیں
دمِ آیات سے، ہم کُچھ نہ سنبھلتے جائیں
بلکہ انفاسِ مسیحائی سے جلتے جائیں
بے سروپا، کہ کوئی عِشق کی منزِل ہی نہیں
خود نتیجے پہ پہنچ جائیں گے،...
غزل
کارِ ہستی ہنوز سیکھتے ہیں
ہم نہیں وہ کہ غوز سیکھتے ہیں
کم ہُنر، وہ نہ روز سیکھتے ہیں!
گُر مصائب کے، دوز سیکھتے ہیں
کب کتابوں سے عِلم وہ حاصِل !
جو رویّوں سے روز سیکھتے ہیں
مرثیہ کیا کہیں گے وہ ،کہ ابھی
قبل کہنے کو، سوز سیکھتے ہیں
ہو کمال اُن کو خط نویسی پر
جو نَوِشتَن بہ لوز سیکھتے...
غزل
جی کو کُچھ شہر میں بَھلا نہ لگا
جا کے احباب میں ذرا نہ لگا
درگُزر اِس سے، دِل ذرا نہ لگا
کم نہیں، اب کی کُچھ ڈرانہ لگا
کچھ اُمیدیں تھیں جس سے وابستہ !
قد سے وہ بھی ذرا بڑا نہ لگا
تھے ہم مجبوریوں سے پا بستہ
بولیے دِل کی کیا لگا نہ لگا
دِل کے رِشتوں سے جورَہا منسُوب!
میرا ہوکر وہ بارہا...
غزل
شفیق خلشؔ
ماہِ رمضاں میں عِبادت کا مزہ کُچھ اور ہے
روزہ سے بڑھ کر نہ رُوحانی غذا کُچھ اور ہے
لوگ سمجھیں ہیں کہ روزوں سےہُوئے ہیں ہم نڈھال
سچ اگر کہدیں جو پُوچھے پر، بِنا کُچھ اور ہے
یُوں تو وقفہ کرکے کھالینے کی بھی کیا بات ہے
بعد اِفطاری کے، روٹی کا نشہ کُچھ اور ہے
اگلی مانگی کا ہمیں...
غزل
کئے مجھ سے سارے سوالوں میں تم ہو
مرے خُوب و بَد کے حوالوں میں تم ہو
سبب، غیض وغم کے زوالوں میں تم ہو
ہُوں کچھ خوش، کہ آسُودہ حالوں میں تم ہو
مُقدّر پہ میرے تُمہی کو ہے سبقت
خوشی غم کے دائم دلالوں میں تم ہو
یُوں چاہت سے حیرت ہے حِصّہ لیے کُچھ
فلک کے مُقدّس کمالوں میں تم ہو
کہاں...
غزل
تھکتے نہیں ہو آنکھوں کی آبِ رَواں سے تم
مر کھپ چُکو بھی، ذات میں درد ِنہاں سے تم
وابستہ اورہوگے غمِ بے کراں سے تم
خود میں دبائے درد اور آہ وفُغاں سے تم
آیا خیال جب بھی، مُسلسل ہی آیا ہے!
کب کم رہے ہو یاد میں اِک کارواں سے تم
جب ہٹ سکے نہ راہ سے، رستہ بدل چَلو
کیونکر...
غزل
دِل میں میرے نہ جھانکتی تھی کوئی
تھا سبب کچھ، کہ جھانپتی تھی کوئی
خواہشِ دِل جو بھانپتی تھی کوئی
ڈر سے لغزِش کے کانپتی تھی کوئی
دِل کی ہر بات پر مجھے اکثر
تیز لہجے میں ڈانٹتی تھی کوئی
لمبی چُٹیا کا شوق تھا اِتنا
بال ہر روز ناپتی تھی کوئی
یاد اُن آنکھوں سے میکشی بھی رہی
جن کو ہاتھوں سے...