رنگوں کو، خوشبوؤں کو ترا نام بخش دوں
جی چاہتا ہے زیست کو انعام بخش دوں
ڈسنے لگی ہے تلخ حقائق کی تیز دھوپ
چاہو اگر تو سایۂ اوہام بخش دوں
الجھے تخیلات کی ترسیل کے لئے
اظہار کو سہولتِ ابہام بخش دوں
بہتر ہے ہمرہی میں مصائب کا تجزیہ!
آغاز کو نہ تہمتِ انجام بخش دوں
ایسا نہ ہو کہیں دلِ بےچین ایک دن...
جُدائیوں میں لذت نہ رفاقتوں میں ہے
بس اِک درد کا عالم محبتوں میں ہے
ملی ہمیں جو بے چینیاں تو یہ جانا
مزہ فقط دلِ ناداں کی وحشتوں میں ہے
کروں میں تا بہ سحر چاند سے تیری باتیں
یہی تو مشغلہ میری فراغتوں میں ہے
مجھے یقین ہے واپس اُسے بلائے گی
وہ بے قراری جو اِس دل کی چاہتوں میں ہے
سفرحیات کا بے...
تم بے حد شور مچاتی ہو
وہ اکثر مجھ سے کہتا ہے
تم بے حد شور مچاتی ہو
جب پیار سے مجھے بلاوٴ گے
تب دوڑ کہ میں تو آوٴں گی
تب پائل میری چھنکے گی
پائل کا شور تو ہو گا ہی
جب کلائی میری تم پکڑو گے
تب چوڑی میری کھنکے گی
جب چوڑی میری کھنکے گی
چوڑی کا شور تو ہو گا ہی
جب بندیا میری چمکے گی
جا آنکھ میں...
جاگے ہیں بِسرے درد، ہَوا پھر آئی ہے
جاناں کی گلی سے سرد ہَوا پھر آئی ہے
جب گرد و بلا میں گلیوں سے گُلزاروں تک
سب منظر ہو گئے زرد، ہَوا پھر آئی ہے
کیا مسجد کیا بازار، لہو کا موسم ہے
کِس قریہ سے بے درد ہَوا پھر آئی ہے
اِک عمر تلک مَیلے سورج کا حَبس رہا
جب سُلگ اُٹھا ہر فرد ہَوا پھر آئی ہے...
چین آتا نہیں بھُلا کر۔۔۔ نا ؟
ہم ملیں گے مگر دُعا کرنا
ہم ابھی اِبتدا میں ہیں صاحب!
تم سے سیکھیں گے اِنتہا کرنا
کِس نے روکا ہے تم کو جانے سے؟
جاؤ جاؤ مگر بتا کر۔۔۔ نا
ہاتھ سے ہاتھ چھُوٹ جاتے ہیں
کوئی آسان ہے وفا کرنا ؟
ہم سے یہ ہو نہیں سکاشائد
بے وفاؤں سے اِلتجا کرنا
حُسن والوں میں ایک...
ہمراہ لیے جاؤ مِرا دیدہء تَر بھی
جاتے ہو سفر پر تو کوئی رختِ سفر بھی
بھیجے ہیں تلاطم بھی کئی اور بھَنور بھی
اے بحرِ سُخن، چند صدف، چند گہر بھی
پھر آنکھ وہیں ثبت نہ ہو جائے تو کہنا
پڑ جائے اگر اُس پہ تِری ایک نظر بھی
درکار ہے کیا آپ کو اشکوں کی دُکاں سے
جلتی ہوئی شمعیں بھی ہیں، کچھ دیدہء تر...
گُم اپنی محبت میں دونوں، نایاب ہو تم نایاب ہیں ہم
کیا ہم کو کُھلی آنکھیں دیکھیں، اِک خواب ہو تم اِک خواب ہیں ہم
کیا محشر خیز جُدائی ہے، کیا وصل قیامت کا ہو گا
جذبات کا اِک سیلاب ہو تم، جذبات کا اِک سیلاب ہیں ہم
آنکھیں جو ہیں اپنے چہرے پر، اِک ساون ہے اِک بھادوں ہے
اے غم کی ندی تو فکر نہ کر،...
ہمارے شوق کی یہ اِنتہا تھی
قدم رکھا کہ منِزل راستہ تھی
کبھی جو خواب تھا، وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی
جسے چُھو لوں میں وہ ہو جائے سونا
تجھے دیکھا تو جانا بددُعا تھی
محبت مر گئی مجھ کو بھی غم ہے
میرے اچھے دِنوں کی آشنا تھی
میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا
میرے انجام کی وہ...
جو اِتنے قریب ہیں اِس دل سے، وہ دُور ہوئے تو کیا ہوگا
ہم اُن سے بِچھڑ کر جینے پر مجبُور ہوئے تو کیا ہوگا
ہم اُن کی محبت پانے کو ہر بات گوارا تو کرلیں
اِن باتوں سے وہ اور اگر مغرُور ہوئے تو، کیا ہوگا ؟
شیشے سے بھی نازک خواب ہیں جو راتوں نے سجائے ہیں لیکن
یہ دن کی چٹانوں پر گِر کے جب...
زخم کی بات نہ کر، زخم تو بھر جاتا ہے
تِیر لہجے کا کلیجے میں اُتر جاتا ہے
موج کی موت ہے ساحل کا نظر آ جانا
شوق کترا کے کِنارے سے گُزر جاتا ہے
شعبدہ کیسا دِکھایا ہے مسیحائی نے
سانس چلتی ہے ، بھَلے آدمی مر جاتا ہے
آنکھ نہ جھپکُوں تو سب ناگ سمجھتے ہیں مجھے
گر جھُپک لوں تو یہ جیون یُوں...
ورثہ
آخر کِس اُمید پہ اپنا سر نہوڑائے
بوڑھے پیڑ کے نیچے بیٹھے
بیتے لمحے گنِتے رہو گے
بوجھل سر سے ماضی کے احسان جھٹک کر اُٹھو
دیکھو یہ سب کوڑھ کی ماری شاخیں
گل کر گِرنے والی ہیں
اُس موٹے ، بےڈول تنے کے غار میں جھانکو
ویرانی اپنے بال بکھیرے۔۔۔ خُشک زباں سے
اِک اِک جڑ کو چاٹ رہی ہے
آؤ کوڑھ کی...
لا یغیّٗرُ ما۔ ۔ ۔
بُرائی سے نفرت ہی کرتا تھا پہلے
کہ اپنے بزرگوں سے میں نے یہی کچھ سُنا تھا
پھر اِک وقت آیا۔۔۔۔ کہ اورَوں کی خاطِر
بُری چیز کو بھی بُری چیز کہتے ہوئے
میں جِھجکنے لگا!
اب بُرائی کو اچھا سمجھنے لگا ہوں
یہی "اِرتقا" کی وہ دلدل ہے جس سے بچانا
کِسی کے بھی بس میں نہیں ہے
اگر مَیں...
ملے تھے خوف سے، بچھڑے ہیں اعتماد کے ساتھ
گزار دیں گے اِسی خوشگوار یاد کے ساتھ
یہ ذوق و شوق فقط لُطفِ داستاں تک ہے
سفر پہ کوئی نہ جائے گا سِندباد کے ساتھ
زمانہ جتنا بکھیرے، سنوَرتا جاؤں گا
ازل سے میرا تعلق ہے خاک و باد کے ساتھ
اُسے یہ ناز، بالآخر فریب کھا ہی گیا
مجھے یہ زعم کہ ڈُوبا ہوں...
بےخبر سا تھا مگر سب کی خبر رکھتا تھا
چاہے جانے کے سبھی عیب و ہُنر رکھتا تھا
لاتعلق نظر آتا تھا بظاہر لیکن
بےنیازانہ ہر اِک دل میں گزر رکھتا تھا
اُس کی نفرت کا بھی معیار جدا تھا سب سے
وہ الگ اپنا اِک اندازِ نظر رکھتا تھا
بےیقینی کی فضاؤں میں بھی تھا حوصلہ مند
شب پرستوں سے بھی اُمیدِ سحر...
یُونہی تو شاخ سے پتے گِرا نہیں کرتے
بچھڑ کے لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے
جو آنے والے ہیں موسم، اُنہیں شمار میں رکھ
جو دن گزر گئے، اُن کو گنا نہیں کرتے
نہ دیکھا جان کے اُس نے ، کوئی سبَب ہوگا
اِسی خیال سے ہم دل بُرا نہیں کرتے
وہ مل گیا ہے تو کیا قصۂ فِراق کہیں
خُوشی کے لمحوں کو...
اے دل یہ تیری ضد، یہ تمنا عجیب ہے
جو تجھ کو چاہیئے، وہ کِسی کا نصیب ہے
ہم تم کِسی غرض کے اطاعت گزار ہیں
ورنہ جہاں میں کون کِسی کے قریب ہے
دل سے خیالِ وصلِ مکمل نکال دے
اِتنا بہت نہیں کہ وہ تیرے قریب ہے
چلتا ہے اہلِ زر کے اشاروں پہ حسن بھی
اُس کی سنے گا کون جو مجھ سا غریب ہے
اپنے عمل جہاں...
سفاک تاثر
تم نے میرے لیے یہ کہا ہے
کہ میں صِفر ہوں
اگر تم مرے ساتھ ہو پھر بھی
مجھ میں اضافے کا اِمکاں نہیں
اور تمہیں خُود سے منہا اگر میں نے کر بھی دیا
تو کوئی فرق پڑتا نہیں !
یہ ریاضی کی منطق، یہ اندازے
بالکل بجَا ہیں مگر
اِس طرح بھی کبھی سوچنا
میری نفرت کی اِک ضرب
تم کو اگر صِفر کر دے ...
یادوں کی گُونج دشتِ محبت میں اب بھی ہے
یہ دل گئے دنوں کی رفاقت میں اب بھی ہے
اِک یاد ہے جو نقش ہے لوحِ دماغ پر
اِک زخم ہے جو دل کی حِفاظت میں اب بھی ہے
رُکتے نہیں ہیں آنکھ میں آنسُو کِسی طرح
یہ کاروانِ شوق ، مُسافت میں اب بھی ہے
ترکِ تعلقات کو اِک عمر ہو چکی!
دل ہے کہ بے قرار محبت میں اب...