سلیم احمد

  1. فرحان محمد خان

    سلیم احمد سلیم احمد کے قطعات

    قطعات اسی کے گرد گردش کر رہا ہوں جو طے ہوتا نہیں وہ فاصلہ ہوں مرا اس سے تعلق دائمی ہے وہ مرکز ہے میں اس کا دائرہ ہوں -------------------- مکاں کے دائروں کا ناپتا ہے کراں سے تا کراں پھیلا ہوا ہے یہ نقطہ جس کی ہیں شکلیں ہزاروں خود اپنی وسعتوں میں چھپ گیا ہے -------------------- کوئی تازہ...
  2. فرحان محمد خان

    سلیم احمد یہ زمیں یہ چاند یہ سورج یہ تارے دیکھنا - سلیم احمد

    یہ زمیں یہ چاند یہ سورج یہ تارے دیکھنا حُسنِ نادیدہ کے سارے استعارے دیکھنا اک خبر دینا کسی آتے ہوئے طوفان کی کشتیوں کو جب کبھی دریا کنارے دیکھنا جنوری کی سردیوں میں ایک آتش داں کے پاس گھنٹوں تنہا بیٹھنا بجھتے شرارے دیکھنا جب کبھی فرصت ملے تو گوشہِ تنہائی میں یاد ماضی کے پرانے گوشوارے...
  3. فرحان محمد خان

    سلیم احمد وہ ہاتھ ہاتھ میں آیا ہے آدھی رات کے بعد - سلیم احمد

    وہ ہاتھ ہاتھ میں آیا ہے آدھی رات کے بعد دیا دیے سے جلایا ہے آدھی رات کے بعد میں آدھی رات تو تیرہ شبی میں کاٹ چکا چراغ کس نے جلایا ہے آدھی رات کے بعد میں جانتا ہوں کے سب سو رہے ہیں محفل میں فسانہ میں نے سُنایا ہے آدھی رات کے بعد ستارے جاگ اٹھے ہیں کسی کی آہٹ سے یہ کون ہے کہ جو آیا...
  4. فرحان محمد خان

    سلیم احمد چھایا ہوا تھا رنگِ غم دل پہ غبار کی طرح - سلیم احمد

    چھایا ہوا تھا رنگِ غم دل پہ غبار کی طرح میں نے اسی غبار سے ڈالی بہار کی طرح رنج ہزارہا سہی دل نہ دُکھے تو کیا علاج بے حس و بے خیال ہوں سنگِ مزار کی طرح چلتا ہوں اپنے زور میں مرکبِ وقت کے بغیر سعی وعمل کی نے پہ ہوں طفلِ سوار کی طرح زورِ ہوا سے اُڑ گئے حبسِ ہوا سے گھٹ گئے قافلہِ حیات میں...
  5. فرحان محمد خان

    سلیم احمد عمر اپنی جہاں جہاں گزری - سلیم احمد

    عمر اپنی جہاں جہاں گزری اچھے لوگوں کے درمیاں گزری کٹ گئی انتظارِ فردا میں کیسے کہیے کہ رائیگاں گزری ساتھ گزرا ہجوم نوحہ گراں دل سے جب یادِ رفتگاں گزری بات کرتے میں ایک پرچھائیں تیری آنکھوں کے درمیاں گزری ہر صدائے نفس تھی بانگِ جرس زندگی مثلِ کارواں گزری دن کٹا تھا تمازتوں میں سلیمؔ سام...
  6. فرحان محمد خان

    سلیم احمد بارہا شب کو یوں لگا ہے مجھے - سلیم احمد

    بارہا شب کو یوں لگا ہے مجھے کوئی سایہ پکارتا ہے مجھے جیسے یہ شہر کل نہیں ہو گا جانے کیا وہم ہو گیا ہے مجھے میں ستاروں کا ایک نغمہ ہوں بیکراں رات نے سُنا ہے مجھے میں ادھورا سا ایک جملہ ہوں اہتماماََ کہا گیا ہے مجھے دکھ ہے احساسِ جرم ہے کیا ہے کوئی اندر سے توڑتا ہے مجھے جیسے میں...
  7. فرحان محمد خان

    سلیم احمد کل نشاطِ قُرب سے موسم بہار اندازہ تھا - سلیم احمد

    کل نشاطِ قُرب سے موسم بہار اندازہ تھا کچھ ہوا بھی نرم تھی کچھ رنگِ گل بھی تازہ تھا تھک کے سنگِ راہ پر بیھٹے تو اُٹھے ہی نہیں حد سے بڑھ کر تیز چلنے کا یہی خمیازہ تھا آئینہ دونوں کے آگے رکھ دیا تقدیر نے میرے چہرے پر لہو تھا رائے گل پر غازہ تھا مجھ کو ملّاحوں کے گیتوں سے محبت ہے مگر رات...
  8. فرحان محمد خان

    سلیم احمد اپنی موج مستی میں ، میں بھی ایک دریا ہوں - سلیم احمد

    اپنی موج مستی میں ، میں بھی ایک دریا ہوں پھر بھی پاسِ صحرا سے اپنی حد میں بہتا ہوں اپنی دید سے اندھا ، اپنی گونج سے بہرا سب کو دیکھ لیتا ہوں سب کی بات سنتا ہوں مجھ میں کسی نے رکھ دی ہے یہ محال کی خواہش میں کہ ریکِ صحرا کو چھلنیوں میں بھرتا ہوں گو چراغِ روشن ہوں پر ہوں رائیگاں اتنا ایک...
  9. فرحان محمد خان

    سلیم احمد ایک امکاں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے دل کے پاس - سلیم احمد

    ایک امکاں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے دل کے پاس دل کی دولت خواب ہیں اور خواب مستقبل کے پاس کل جنھیں رخصت کیا تھا وہ مسافر کیا ہوئے کشتیاں ٹوٹی ہوئی لوٹ آئی ہیں ساحل کے پاس میں پلٹ آؤں کا صحرا میں بھٹکنے کے لیے قافلہ میرا پہنچ جائے گا جب منزل کے پاس میری خُوں آلودہ آنکھوں نے یہ منظر بھی سہا...
  10. فرحان محمد خان

    سلیم احمد ہے کبھی سایہ کبھی ہے روشنی دیوار پر - سلیم احمد

    ہے کبھی سایہ کبھی ہے روشنی دیوار پر رنگ بکھراتی ہے کیا کیا زندگی دیوار پر دونوں ہمسایوں میں ویسے تو محبت ہے بہت ایک جھگڑا پڑ گیا ہے بیچ کی دیوار پر میں اندھیرے میں کھڑا حیرت سے پڑھتا ہوں اسے اک عبارت لکھ رہی ہے روشنی دیوار پر ہم سمجھتے تھے ہمارے بام و در دُھل جائیں گے بارشیں آئیں تو کائی...
  11. فرحان محمد خان

    سلیم احمد ہر آنکھ کا حاصل دُوری ہے - سلیم احمد

    ہر آنکھ کا حاصل دُوری ہے ہرمنظر اک مُستوری ہے جو سود و زیاں کی فکر کرے وہ عشق نہیں مزدوری ہے سب دیکھتی ہے سب جھیلتی ہے یہ آنکھوں کی مجبوری ہے اس ساحل سے اُس ساحل تک کیا کہیے کتنی دوری ہے یہ قُرب حباب و آب کا ہے یہ وصل نہیں مہجوری ہے میں تجھ کو کتنا چاہتا ہوں یہ کہنا غیر ضروری ہے...
  12. فرحان محمد خان

    سلیم احمد جو آنکھوں کے تقاضے ہیں وہ نظّارے بناتا ہوں - سلیم احمد

    جو آنکھوں کے تقاضے ہیں وہ نظّارے بناتا ہوں اندھیری رات ہے کاغذ پہ میں تارے بناتا ہوں محلے والے میرے کارِ بے مصرف پہ ہنستے ہیں میں بچوں کے لیے گلیوں میں غبّارے بناتا ہوں وہ لوری گائیں گی اور ان میں بچوں کو سلائیں گی میں ماؤں کے لیے پھولوں کے گہوارے بناتا ہوں فضائے نیلگوں میں حسرتِ پرواز...
  13. فرحان محمد خان

    سلیم احمد ستارہ حرف بناتے ہیں خواب لکھتے ہیں - سلیم احمد

    ستارہ حرف بناتے ہیں خواب لکھتے ہیں تمہارے نام پر اک انتساب لکھتے ہیں حیات سب کے لیے اک سوال لاتی ہے تمام عمر اسی کا جواب لکھتے ہیں میں ان کو حرف بناتا ہوں اور پڑھتا ہوں یہ حادثے مرے دل کی کتاب لکھتے ہیں عجیب رنگ ہیں ان کے عجیب تحریریں یہ روز و شب مری آنکھوں میں خواب لکھتے ہیں سمندورں...
  14. فرحان محمد خان

    سلیم احمد وہ میرا یار دیوانہ بہت تھا رنگ و نکہت کا - سلیم احمد

    وہ میرا یار دیوانہ بہت تھا رنگ و نکہت کا سو اس کی قبر پر کچھ پھول رکھے اور لوٹ آیا میں اس کی رنگ موجوں میں کبھی ڈوبا کبھی ابھرا بدن تھا یا شبِ مہتاب میں بہتا ہوا دریا ترے بارے میں ، میں اس کے سوا کچھ اور کیا کہتا نظر کچھ بھی نہ آیا اس قدر نزدیک سے دیکھا مجھے اک مصرعِ موزوں بنایا حُسنِ فن...
  15. فرحان محمد خان

    سلیم احمد یہ جو اک صورت ہے اب پتھر کے بیچ - سلیم احمد

    یہ جو اک صورت ہے اب پتھر کے بیچ نقش تھی پہلے دلِ آزر کے بیچ دیکھنا ہے اب دیے کے زور کو لا کے رکھ دوں گا ہوا میں در کے بیچ آنکھ ہے نادیدگاں کی منتظر اک کمی لگتی ہے ہر منظر کے بیچ وہ لباسِ درد میں ملبوس تھا سیکڑوں پیوند تھے چادر کے بیچ کیا بتاؤں کیوں ہوئی مجھ کو شکست میرا دشمن تھا مرے لشکر...
  16. فرحان محمد خان

    سلیم احمد ربط ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ نہیں ملتا - سلیم احمد

    ربط ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ نہیں ملتا مجھ کو دھیان گلیوں میں راستہ نہیں ملتا اس قطارِ روشن میں اک کمی سی لگتی ہے جس پہ نام تھا تیرا وہ دیا نہیں ملتا سب کو ایک حسرت ہے دوسرے کے ملنے کی سب کو اک شکایت ہے دوسرا نہیں ملتا دل میں ہو تو کچھ کہیے جب نہ ہو تو کیا کہیے لفظ مل بھی جاتے ہیں مدعا نہیں...
  17. فرحان محمد خان

    سلیم احمد کوئی ستارہِ گرداب آشنا تھا میں - سلیم احمد

    کوئی ستارہِ گرداب آشنا تھا میں کہ موج موج اندھیروں میں ڈوبتا تھا میں اس ایک چہرے میں آباد تھے کئی چہرے اس ایک شخص میں کس کس کو دیکھتا تھا میں نئے ستارے مری روشنی میں چلتے تھے چراغ تھا کہ سرِ راہ جل رہا تھا میں سفر میں عشق کے ایک ایسا مرحلہ آیا وہ ڈھونڈتا تھا مجھے اور کھو گیا تھا میں...
  18. فرحان محمد خان

    سلیم احمد لمحہِء رفتہ کا دل میں زخم سا بن جائے گا - سلیم احمد

    لمحہِء رفتہ کا دل میں زخم سا بن جائے گا جو نہ پُر ہو گا کبھی ایسا خلا بن جائے گا یہ نئے نقشِ قدم میرے بھٹکنے سے بنے لوگ جب ان پر چلیں گے راستہ بن جائے گا گونج سننی ہو تو تنہا وادیوں میں چیخنے ایک ہی آواز سے اک سلسلہ بن جائے گا جذب کر دے میری مٹی میں لطافت کا مزاج پھر وہ تیرے شہر کی آب و...
  19. فرحان محمد خان

    سلیم احمد اور کیا بتاؤں میں زندگی کی ظلمت میں - سلیم احمد

    اور کیا بتاؤں میں زندگی کی ظلمت میں اک چراغ روشن تھا آدمی کی صورت میں زندگی کا رخ جن سے دفعتاََ بدل جائے حادثے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں محبت میں جانے کتنے ہنگامے دل میں جاگ جاتے ہیں جب کتابِ ماضی کو دیکھتا ہوں فرصت میں ایک اجنبی چہرہ کُھب گیا ہے آنکھوں میں جانے کس کو دیکھا ہے میں نے کس کی...
  20. فرحان محمد خان

    سلیم احمد نقش تو بنائے ہیں کچھ غزل کی صورت میں - سلیم احمد

    نقش تو بنائے ہیں کچھ غزل کی صورت میں یہ کتابِ فردا ہے دیکھیے گا فرصت میں خیر و شر کی خبروں کو مانتے تو سب ہی ہیں کس کو ہوش رہتا ہے جبر اور ضرورت میں دونوں درد دیتی ہیں آہِ سرد دیتی ہیں فرق کچھ نہیں ایسا نفرت و محبت میں ہوتی ہے صداقت میں خامشی کی گہرائی صرف شور ہوتا ہے حرفِ بے صداقت...
Top