یہ طلسمِ رنگ ہے یا سحر ہے تحریر کا
دم بہ دم چہرہ بدلتا ہے تری تصویر کا
دونوں ساتھی ہیں کسی اک قید سے بھاگے ہوئے
میرا تیرا ربط ہے یا جبر ہے زنجیر کا
اس سرے سے اُس سرے تک دوڑنا آساں نہیں
میرے تیرے درمیاں اک دشت ہے تاخیر کا
لوگ جو تخریب کے الزام میں مارے گے
اُن کی آنکھوں میں بھی کوئی...
افق پر جا ملیں گے آسماں سے
یہ کتنا فاصلہ ہو گا یہاں سے
اندھیرے کے گھنیرے حاشیوں سے
یکایک روشنی آئی کہاں سے
ہوا نے دی درِ ویراں پہ دستک
کئی پرچھائیاں نکلیں مکاں سے
سلیقہ جس کو مرنے کا نہیں ہے
وہ اٹھ جائے ہمارے درمیاں سے
یقیں کی بات میں کچھ بھی نہیں تھا
نئے پہلو ہوئے پیدا گماں سے...
وہ ابتداؤں کی ابتدا ہے ، وہ انتہاؤں کی انتہا ہے
ثنا کرے اس کی کوئی کیوں کر ، بشر ہے لیکن خدا نما ہے
وہ کون ہے منتظر تھا جس کا جہانِ نورانیاں ازل سے
گواہ ہے کہکشاں ابھی تک کہ کوئی اس راہ سے کیا ہے
وہ سرِ تخلیق ہے مجسم کہ خود ہی آدم ہے خود ہی عالم
وجود کی ساری وسعتوں پر محیط ہے جو وہ دائرہ...
مجھے ان آتے جاتے موسموں سے ڈر نہیں لگتا
نئے اور پُر اذیّت منظروں سے ڈر نہیں لگتا
خموشی کے ہیں آنگن اور سنّاٹے کی دیواریں
یہ کیسے لوگ ہیں جن کو گھروں سے ڈر نہیں لگتا
مجھے اس کاغذی کشتی پہ اک اندھا بھروسا ہے
کہ طوفاں میں بھی گہرے پانیوں سے ڈر نہیں لگتا
سمندر چیختا رہتا ہے پسِ منظر میں اور...
دلوں میں درد بھرتا آنکھ میں گوہر بناتا ہوں
جنہیں مائیں پہنتی ہیں میں وہ زیور بناتا ہوں
غنیمِ وقت کے حملے کا مجھ کو خوف رہتا ہے
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں
پرانی کشتیاں ہیں میرے ملاحوں کی قسمت میں
میں ان کے بادباں سیتا ہوں اور لنگر بناتا ہوں
یہ دھرتی میری ماں ہے اس کی عزت مجھ کو...
غزلِ
سلیم احمد
دِل کے اندر درد، آنکھوں میں نمی بن جائیے
اِس طرح مِلیے، کہ جُزوِ زندگی بن جائیے
اِک پتنگے نے یہ اپنے رقصِ آخر میں کہا !
روشنی کے ساتھ رہیے، روشنی بن جائیے
جس طرح دریا بُجھا سکتے نہیں صحرا کی پیاس
اپنے اندر ایک ایسی تشنگی بن جائیے
دیوتا بننےکی حسرت میں مُعلّق ہوگئے
اب ذرا نیچے...
جو منحرف تھے، انہی کو گواہ میں نے کِیا
سلیم سب سے بڑا یہ گناہ میں نے کِیا
جو میرے رنگ تھے ، سب مو قلم کی نذر کیے
نہ کچھ بھی فرق سپید وسیاہ میں نے کِیا
یہیں سے خواب زلیخا کی راہ جاتی ہے
سو اپنی راہ میں تعمیر چاہ میں نے کِیا
کُھلا نہ عصمت و عصیاں راز سر بستہ
اُسے نہ جان کر کیسا گناہ میں نے...
پرسشِ التفات سے اور قلق سوا ہُوا
حرفِ تپاکِ حسن میں زہر سا تھا ملا ہُوا
یوں بھی ہزار خواہشیں باعثِ اضطراب تھیں
اور تری جدائی کا زخم بھی تھا لگا ہُوا
موت کی طرح دفعتاً ساعتِ ہجر آئی تھی
جیسے چراغ جل بجھ،ے مجھ سے وہ یوں جُدا ہُوا
میرا ملال بے سبب تجھ پہ کہیں گراں نہ ہو
آج نہ مِل کہ آج تو دل ہے...
فضا لیتی ہے ہر شے کا حساب آہستہ آہستہ
اُترتے ہیں زمینوں پر عذاب آہستہ آہستہ
سبب یا مصلحت کُھلتی نہیں لیکن یہ حیرت ہے
جرائم تیز تر اور احتساب آہستہ آہستہ
کسی کو کیا ،دلوں کو بھی خبرہونے نہیں پاتی
بدل جاتی ہے چشمِ انتخاب آہستہ آہستہ
تُو اے محوِ نظریہ رازِ خدوخال کیا جانے
کہ بن جاتا ہے ہر چہرہ...
میرا چہرہ
ایک قیافے کےماہر نے مجھ سےکہا
گہری چالیں چلنا
اور دنیاکو دھوکے میں رکھنا
آسان نہیں ہے
لیکن تو چاہے تو یہ کر سکتا ہے
تیرا چہرہ
اک ہنس مُکھ
احمق
کا چہرہ ہے
سلیم احمد
گراموفون
میرےگھر میں ایک پُرانا گراموفون ہے
بچّےاس سے کھیلا کرتے ہیں
میں کبھی بیکاری کے لمحوں میں اس کو بجایا کرتا ہوں
اکثراس کی سوئی اٹک جاتی ہے
اور وہ ایک لفظ پر رک کر
"میں" ہی "میں" دہرایا کرتا ہے
سلیم احمد
مشرق ہار گیا
کپلنگ نے کہا تھا
"مشرق مشرق ہے
اور مغرب مغرب ہے
اور دونوں کا ملنا نا ممکن ہے"
لیکن مغرب ، مشرق کے گھر آنگن میں آ پہونچا ہے
میرے بچوں کے کپڑے لندن سے آتے ہیں
میرا نوکر بی بی سی سے خبریں سنتا ہے
میں بیدل اور حافظ کی بجائے
شیکسپیئر اور...
زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے
گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے
روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش
کوئی چلتا نہیں اور ہمسفَری لگتی ہے
آنکھ مانوسِ تماشا نہیں ہونے پاتی
کیسی صورت ہے کہ ہر روز نئی لگتی ہے
گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو
پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی...
جاکے پھر لوٹ جو آئے ، وہ زمانہ کیسا
تیری آنکھوں نے یہ چھیڑا ہے ، فسانہ کیسا
آنکھ سرشارِ تمنا ہے ، تُو وعدہ کرلے
چال کہتی ہے کہ اب لوٹ کے ، آنا کیسا
مجھ سے کہتا ہے کہ سائے کی طرح ساتھ ہیں ہم
یوں نہ ملنے کا نکالا ہے ، بہانہ کیسا
اس کا شکوہ تو نہیں ہے ، نہ ملے تو ہم سے
رنج ا سکا...
کپلنگ نے کہا تھا
“مشرق، مشرق ہے
اور مغرب، مغرب ہے
اور دونوں کا ملنا ناممکن ہے”
لیکن مغرب، مشرق کے گھر آنگن میں آ پہنچا ہے
میرے بچوں کے کپڑے لندن سے آتے ہیں
میرا نوکر بی بی سی کی خبریں سنتا ہے
میں بیدل اور حافظ کے بجائے
شیکسپیئر اور رلکے کی باتیں کرتا ہوں
اخباروں میں...
تیرے سانچے میں ڈھلتا جارہا ہوں
تجھے بھی کچھ بدلتا جارہا ہوں
نہ جانے تجھ کو بھولا ہوں کہ خود کو
بہر صورت سنبھلتا جارہا ہوں
طبعیت ہے ابھی طفلانہ میری
کھلونوں سے بہلتا جا رہا ہوں
حقیقت کو مکمل دیکھنا چاہتا ہوں
نظر کے رخ بدلتا جا رہا ہوں
چلا ہے مجھ سے آگے میرا سایہ
سو میں...