سلیم کوثر

  1. فرخ منظور

    محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے ۔آواز: فرخ منظور

    محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے از سلیم کوثر۔ آواز: فرخ منظور
  2. سیما علی

    زخمِ احساس اگر ہم بھی دِکھانے لگ جائیں ۔۔۔۔۔۔۔سلیم کوثر

    زخمِ احساس اگر ہم بھی دِکھانے لگ جائیں شہر کے شہر اِسی غم میں ٹھکانے لگ جائیں جس کو ہر سانس میں محسوس کیا ہے ہم نے ہم اُسے ڈُھونڈنے نِکلیں، تو زمانے لگ جائیں اَبر سے اَب کے ہَواؤں نے یہ سازش کی ہے خُشک پیڑوں پہ ثمر پھر سے نہ آنے لگ جائیں کاش اب کے تِرے آنے کی خبر سَچّی ہو ہم مُنڈیروں سے...
  3. سیما علی

    سلیم کوثر قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں

    قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں کتنی آزادی سے ہم اپنی حدوں میں قید ہیں کون سی آنکھوں میں میرے خواب روشن ہیں ابھی کس کی نیندیں ہیں جو میرے رتجگوں میں قید ہیں شہر آبادی سے خالی ہو گئے خوشبو سے پھول اور کتنی خواہشیں ہیں جو دلوں میں قید ہیں پاؤں میں رشتوں کی زنجیریں ہیں دل میں خوف کی ایسا...
  4. سیما علی

    سلیم کوثر دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر

    دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر دیکھ اب وہ بھی اُتر آیا اداکاری پر میں نے دشمن کو جگایا تو بہت تھا لیکن احتجاجاً نہیں جاگا مری بیداری پر آدمی، آدمی کو کھائے چلا جاتا ہے کچھ تو تحقیق کرو اس نئی بیماری پر کبھی اِس جرم پہ سر کاٹ دئے جاتے تھے اب تو انعام دیا جاتا ہے غدّاری پر تیری قربت کا نشہ...
  5. فرحان محمد خان

    سلیم کوثر اگر کردار زندہ ہوں، کہانی بول پڑتی ہے - سلیم کوثر

    تہوں میں کیا ہے، دریا کی روانی بول پڑتی ہے اگر کردار زندہ ہوں، کہانی بول پڑتی ہے جہاں بھی جائیں اک سایہ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے نئے موسم میں بھی تہمت پُرانی بول پڑتی ہے تماشا گاہ سے خاموش کیا گزروں کہ خود مجھ میں کبھی تُو اور کبھی تیری نشانی بول پڑتی ہے اسی ہنگامۂ دنیا کی وارفتہ خرامی میں کوئی شے...
  6. طارق شاہ

    سلیم کوثر :::::: یہ لوگ جِس سے اب اِنکا ر کرنا چاہتے ہیں :::::: Salim Kausar

    غزل یہ لوگ جِس سے اب اِنکا ر کرنا چاہتے ہیں وہ گُفتگوُ، دَرو دِیوار کرنا چاہتے ہیں ہمیں خبر ہے کہ گُزرے گا ایک سیلِ فنا سو ہم تمھیں بھی خبردار کرنا چاہتے ہیں اور اِس سے پہلے کہ ثابت ہو جُرمِ خاموشی ہم اپنی رائے کا اِظہار کرنا چاہتے ہیں یہاں تک آ تو گئے آپ کی محبّت میں اب اور کتنا، گُنہگار...
  7. طارق شاہ

    سلیم کوثر :::::: مِری طلب، مِری رُسوائیوں کے بعد کُھلا ::::::Salim Kausar

    غزل مِری طلب، مِری رُسوائیوں کے بعد کُھلا وہ کم سُخن، سُخن آرائیوں کے بعد کُھلا وہ میرے ساتھ ہے، اور مُجھ سے ہمکلام بھی ہے یہ ایک عمُر کی تنہائیوں کے بعد کُھلا میں خود بھی تیرے اندھیروں پہ مُنکشف نہ ہُوا تِرا وجُود بھی ، پرچھائیوں کے بعد کُھلا عجب طلسمِ خموشی تھا گھر کا سنّاٹا! جو بام و در...
  8. دل جان

    سلیم کوثر خود کو کردار سے اوجھل نہیں ہونے دیتا

    خود کو کردار سے اوجھل نہیں ہونے دیتا وہ کہانی کو مکمل نہیں ہونے دیتا سنگ بھی پھینکتا رہتا ہے کہیں ساحل سے اور پانی میں ہلچل نہیں ہونے دیتا دھوپ بھی چھاؤں بھی رکھتا ہے سروں پر لیکن آسمان پر کبھی بادل نہیں ہونے دیتا روز ایک لہر اٹھا لاتا ہے بے خوابی میں اور پلکوں کو کو بھی بوجھل نہیں ہونے دیتا...
  9. محمد بلال اعظم

    سلیم کوثر جو دل میں ہے، آنکھوں کے حوالے نہیں کرنا

    جو دل میں ہے، آنکھوں کے حوالے نہیں کرنا خود کو کبھی خوابوں کے حوالے نہیں کرنا اِس عمر میں خوش فہمیاں اچھی نہیں ہوتیں اِس عمر کو وعدوں کے حوالے نہیں کرنا تم اصل سے بچھڑا ہوا اک خواب ہو شاید اس خواب کو یادوں کے حوالے نہیں کرنا اب اپنے ٹھکانے ہی پہ رہتا نہیں کوئی پیغام پرندوں کے حوالے نہیں...
  10. محسن وقار علی

    سلیم کوثر وہ سارے سَمے جو بیت گئے

    وہ سارے سَمے جو بیت گئے کیا ہار گئے ، کیا جیت گئے جتنے دکھ سکھ کے ریلے تھے ہم سب نے مل کر جھیلے تھے اب شاید کچھ بھی یاد نہیں کبھی وقت ملا تو سوچیں گے آپس کے پیار گھروندوں کو گُڑیوں کے کھیل کھلونوں کو گیتوں سے مہکتی کیاری کو آنگن کی پھل پُھلواری کو دھرتی پر امن کی خواہش کو موسم کی پہلی بارش کو کن...
  11. شیزان

    سلیم کوثر فریب جبہ و دستار ختم ہونے کو ہے۔ سلیم کوثر

    فریبِ جبہ و دستار ختم ہونے کو ہے لگا ہواہے جو دربار، ختم ہونے کو ہے کہانی کار نے اپنے لیے لکھا ہے جسے کہانی میں وہی کِردار ختم ہونے کو ہے سمجھ رہے ہوکہ تم سے ہے گرمئ بازار سو اب یہ گرمئ بازار ختم ہونے کو ہے مسیحا، کیسا تجھے لگ رہا ہے، کچھ تو بتا کہ تیرے سامنے بیمار ختم ہونے کو ہے...
  12. شیزان

    سلیم کوثر لذتِ ہجر لے گئی، وصل کے خواب لے گئی۔ سلیم کوثر

    لذتِ ہجر لے گئی، وصل کے خواب لے گئی قرض تھی یادِ رفتگاں، رات حساب لے گئی جامِ سفال پر مری کتنی گرفت تھی مگر آب و ہوا ئے روز و شب، خانہ خراب، لے گئی صحبتِ ہجر میں گھری جُنبشِ چشمِ سُرمگیں خُود ہی سوال کر گئی ،خُود ہی جواب لے گئی تِشنہ خرامِ عشق پر ابَر کے سائے تھے مگر عرصۂ بےگیاہ تک...
  13. شیزان

    سلیم کوثر حکایتِ سفرِ عُمرِ رائیگاں سے الگ۔ سلیم کوثر

    حکایتِ سفرِ عُمرِ رائیگاں سے الگ ترے وصال کی خوشبو ہے جسم و جاں سے الگ کہاں پڑاؤ کریں گے، کہاں پہ ٹھہریں گے کہ تو زمیں سے جُدا اور میں آسماں سے الگ گروہِ ابَر نے طوفان کو جگانا ہے پھر اُس کے بعد ہوا بھی ہے بادباں سے الگ بدل رہی ہے شب و روز کے تسلسل کو وہ ایک آہ جو ہوتی نہیں فغاں سے الگ...
  14. شیزان

    سلیم کوثر آوارہء شب روٹھ گئے۔ سلیم کوثر

    "یہ چراغ ہے تو جلا رہے" سے ایک نظم: آوارہء شب روٹھ گئے کیا جانیے ہر آن بدلتی ہوئی دُنیا کب دل سے کوئی نقش مٹانے چلی آئے دَر کھول کے اِک تازہ تحیّر کی خبر کا چپُکے سے کِسی غم کے بہانے چلی آئے کہتے ہیں کہ اب بھی تری پھیلی ہوئی باہیں اِک گوشۂ تنہائی میں سِمٹی ہوئیں اب تک زنجیرِ مہ و سال...
  15. شیزان

    سلیم کوثر جنہیں خوابوں سے اِنکاری بہت ہے۔ سلیم کوثر

    جنہیں خوابوں سے اِنکاری بہت ہے اُن آنکھوں میں بھی بیداری بہت ہے نہایت خُوبصورت ہے وہ چہرہ مگر جذبات سے عاری بہت ہے اُسے میں یاد رکھنا چاہتا ہوں مگر اِس میں بھی دُشواری بہت ہے سبَب ہو کوئی تو بتلائیں بھی ہم کہ گِریہ رات سے طاری بہت ہے بہت مصرُوفیت کی جَا ہے دُنیا مگر لوگوں میں بےکاری...
  16. شیزان

    سلیم کوثر میری طلب، مری رسوائیوں کے بعد کُھلا۔ سلیم کوثر

    میری طلب، مری رسوائیوں کے بعد کُھلا وہ کم سُخن، سُخن آرائیوں کے بعد کُھلا وہ میرے ساتھ ہے اور مجھ سے ہمکلام بھی ہے یہ ایک عُمر کی تنہائیوں کے بعد کُھلا میں خُود بھی تیرے اندھیروں پہ مُنکشف نہ ہوا ترا وجود بھی پرچھائیوں کے بعد کُھلا عجب طلسمِ خموشی تھا گھر کا سناٹا جو بام و دَر کی...
  17. شیزان

    سلیم کوثر ابھی سینے میں دل اور آنکھ میں تصویر زندہ ہے۔ سلیم کوثر

    ابھی سینے میں دل اور آنکھ میں تصویر زِندہ ہے کوئی تو خواب ہے، جس کے لئے تعبیر زِندہ ہے عجب اندیشۂ سُود و زیاں کے درمیاں ہیں ہم کہ فردِ جرم غائب ہے مگر تعزیر زِندہ ہے پلٹ کر دیکھنا عادت نہیں تیری، مگر پھر بھی سُبک رفتارئ دُنیا، ابھی اِک تِیر زِندہ ہے سِتم ایجاد لمحوں نے لبوں کو سِی دیا،...
  18. شیزان

    سلیم کوثر ہم دل میں تری چاہ زیادہ نہیں رکھتے۔ سلیم کوثر

    ہم دل میں تری چاہ زیادہ نہیں رکھتے لیکن تجھے کھونے کا اِرادہ نہیں رکھتے کچھ ایسے سُبک سر ہوئے ہم اہلِ مُسافت منزل کے لئے خواہشِ جادہ نہیں رکھتے وہ تنگئ خلوت ہوئی اب تیرے لئے بھی دل رکھتے ہوئے سینہ کُشادہ نہیں رکھتے کِس قافلۂ چشم سے بچھڑے ہیں کہ اب تک جُز دَربدری کوئی لبادہ نہیں رکھتے کچھ...
  19. شیزان

    سلیم کوثر نہ ہونے پر بھی کوئی آسرا غنیمت ہے، سلیم کوثر

    نہ ہونے پر بھی کوئی آسرا غنیمت ہے وہ بےبسی ہے کہ یادِخدا غنیمت ہے یہاں کِسی کو کِسی کی خبر نہیں ملتی بس ایک رشتہء آب و ہوا غنیمت ہے اندھیری رات کے اِس بیکراں تسلسل میں جلا دیا جو کِسی نے دِیا، غنیمت ہے تمام راہیں ہوئیں گردِ ممکنات میں گُم مُسافروں کو ترا نقشِ پا غنیمت ہے وہ کوئی زہر کا...
  20. محمداحمد

    سلیم کوثر غزل ۔ اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی، رات ڈھلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے ۔ سلیم کوثر

    غزل اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی، رات ڈھلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے خیمہء خاک سے روشنی کی سواری نکلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے کیا ہوا جو ہوائیں نہیں مہرباں، اک تغیّر پہ آباد ہے یہ جہاں بزم آغاز ہونے سے پہلے یہاں، شمع جلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے دامنِ دل ہو یا سایہ ء چشم و لب، دونوں بارش کی طرح...
Top