"یہ چراغ ہے تو جلا رہے" سے ایک نظم:
آوارہء شب روٹھ گئے
کیا جانیے ہر آن بدلتی ہوئی دُنیا
کب دل سے کوئی نقش مٹانے چلی آئے
دَر کھول کے اِک تازہ تحیّر کی خبر کا
چپُکے سے کِسی غم کے بہانے چلی آئے
کہتے ہیں کہ اب بھی تری پھیلی ہوئی باہیں
اِک گوشۂ تنہائی میں سِمٹی ہوئیں اب تک
زنجیرِ مہ و سال...