غزل
دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر
دیکھ اب وہ بھی اُتر آیا اداکاری پر
میں نے دشمن کو جگایا تو بہت تھا لیکن
احتجاجاً نہیں جاگا مری بیداری پر
آدمی، آدمی کو کھائے چلا جاتا ہے
کچھ تو تحقیق کرو اس نئی بیماری پر
کبھی اِس جرم پہ سر کاٹ دئے جاتے تھے
اب تو انعام دیا جاتا ہے غدّاری پر
تیری...
غزل
توفیق بنا دل میں ٹھکانہ نہیں ملتا
نقشے کی مدد سے یہ خزانہ نہیں ملتا
پلکوں پہ سُلگتی ہوئی نیندوں کا دھواں ہے
آنکھوں میں کوئی خواب سہانا نہیں ملتا
ملتی ہی نہیں اُس کو ملاقات کی راہیں
اور مجھ کو نہ ملنے کا بہانہ نہیں ملتا
تم جانتے ہو وقت سے بنتی نہیں میری
ضد کس لئے کرتے ہو کہا نا، نہیں...
غزل
چاہا تو بہت کچھ تھا یہاں پر نہیں بدلا
تصویر بدلنے سے بھی منظر نہیں بدلا
خوف آتا ہے اُمید ہی رستہ نہ بدل لے
جب اتنی تباہی پہ بھی یہ گھر نہیں بدلا
ممکن ہے کہ منزل کا تعین ہی غلط ہو
اب تک تو مری راہ کا پتھر نہیں بدلا
تاریخ تمھاری بھی گواہی کبھی دیتی
نیزہ ہی بدل جاتا اگر سر نہیں بدلا...
غزل
پرندے اُجڑے ہوئے آشیاں پہ بیٹھے ہوئے
زمیں کو دیکھتے ہیں آسماں پہ بیٹھے ہوئے
وہ خوابِ امن دکھایا گیا کہ خوش ہیں بہت
ہم اپنے عہد کے آتش فشاں پہ بیٹھے ہوئے
مژہ سے قطرہء خوں کی طرح ٹپکتے ہیں
ستارے کشتی ء آبِ روں پہ بیٹھے ہوئے
زمانہ جن کے تجسس میں سرگراں ہے وہ لوگ
ہوئے ہیں سنگ ترے آستاں...
کوئی سچے خواب دکھاتا ہے، پر جانے کون دکھاتا ہے
مجھے ساری رات جگاتا ہے، پر جانے کون جگاتا ہے
کوئی دریا ہے جس کی لہریں مجھے کھینچ رہی ہیں، اور کوئی
مری جانب ہاتھ بڑھاتا ہے، پر جانے کون بڑھاتا ہے
کبھی جائے نماز کی بانہوں میں، کبھی حمد درود کی چھاؤں میں
کوئی زار و زار رلاتا ہے، پر جانے کون رلاتا...
جب سے محفل کی رکنیت اختیار کی ہے تب سے ہمارے تعارف کے خانے میں ہمارے "مقام" کے طور پر ایک مصرع درج ہے کہ "بس ہمیں عشق کی آشفتہ سری کھینچتی ہے"۔ یہ سلیم کوثر کی ایک خوبصورت غزل سے لیا گیا تھا۔ اب سلیم کوثر کی نئی کتاب "دنیا مری آرزو سے کم ہے" میں یہ غزل بھی شامل ہے۔ سوچا مکمل غزل آپ احباب کے ساتھ...
رات کی جلتی تنہائی میں
اندھیاروں کے جال بنے تھے
دیواروں پے تاریکی کی گرد جمی تھی
خوشبو کا احساس ہوا میں ٹوٹ رہا تھا
دروازے بانہیں پھیلائے اونگھ رہے تھے
دور سمندر پار ہوائیں بادلوں سے باتیں کرتی تھیں
ایسے میں ایک نیند کا جھونکا
لہر بنا اور گزر گیا
پھر آنکھ کھلی تو اس موسم کی پہلی بارش...
تم نے سچ بولنے کی جرات کی
یہ بھی توہین ہے عدالت کی
منزلیں راستوں کی دھول ہوئیں
پوچھتے کیا ہو تم مسافت کی
اپنا زادِ سفر بھی چھوڑ گئے
جانے والوں نے کتنی عجلت کی
میں جہاں قتل ہو رہا ہوں وہاں
میرے اجداد نے حکومت کی
پہلے مجھ سے جدا ہوا اور پھر
عکس نے آئینے سے ہجرت کی
میری آنکھوں...
بچھائے جال کہیں جمع آب و دانہ کیا
پھر اس نے سارے پرندوں کو بے ٹھکانہ کیا
میں تیرا حکم نہیں ٹالتا مگر مجھ میں
نہ جانے کون ہے جس نے تیرا کہا نہ کیا
بجز یقیں کوئی چارہ نہیں رہا میرے پاس
کہ پہلی بار تو اُس نے کوئی بہانہ کیا
ملے جو غم تو انہیں اپنے پاس ہی رکھا
خوشی ملی ہے تو تیری طرف روانہ کیا...
ستم کی رات کو جب دن بنانا پڑتا ہے
چراغِ جاں سرِ مقتل جلانا پڑ تا ہے
اُٹھانا پڑتا ہے پلکوں سے رَت جگوں کا خُمار
پھر اس خُمار سے خود کو بچانا پڑ تا ہے
کسی کی نیند کسی سے بدلنی پڑ تی ہے
کسی کا خواب کسی سےکو دِکھانا پڑ تا ہے
کسی سے پوچھنا پڑتا ہے اپنے گھر کا پتا
کسی کو شہر کا نقشہ دِکھانا پڑ...
کہیں تم اپنی قسمت کا لکھا تبدیل کر لیتے
تو شاید ہم بھی اپنا راستہ تبدیل کر لیتے
اگر ہم واقعی کم حوصلہ ہوتے محبت میں
مرض بڑھنے سے پہلے دوا تبدیل کر لیتے
تمہارے ساتھ چلنے پر جو دل راضی نہیں ہوتا
بہت پہلے ہم اپنا فیصلہ تبدیل کر لیتے
تمہیں ان موسموں کی کیا خبر ملتی اگر ہم بھی
گھٹن کے...
کیا بتائیں فصلِ بے خوابی یہاں بوتا ہے کون،
جب در و دیوار جلتے ہوں تو پھر سوتا ہے کون،
تم تو کہتے تھے کہ سب قیدی رہائی پا گئے،
پھر پسِدیوارِ زنداںرات بھر روتا ہے کون،
بس تری بیچارگی ہم سے نہیں دیکھی گئی،
ورنہ ہاتھ آئی ہوئی دولت کو یوں کھوتا ہے کون،
کون یہ پاتال سے لے کر ابھرتا...
غزل
ذرا سی دیر کو منظر سُہانے لگتے ہیں
پھر اُس کے بعد یہی قید خانے لگتے ہیں
میں سوچتا ہوں کہ تو دربدر نہ ہو، ورنہ
تجھے بھلانے میں کوئی زمانے لگتے ہیں
کبھی جو حد سے بڑھے دل میں تیری یاد کا حبس
کھلی فضا میں تجھے گنگنانے لگتے ہیں
جو تو نہیں ہے تو تجھ سے کئے ہوئے وعدے
ہم اپنے آپ...
غزل
نہ اس طرح کوئی آیا نہ کوئی آتا ہے
مگر وہ ہے کہ مسلسل دیے جلاتا ہے
کبھی سفر کبھی رختِ سفر گنواتا ہے
پھر اُس کے بعد کوئی راستہ بناتا ہے
یہ لوگ عشق میں سچے نہیں ہیں ورنہ ہجر
نہ ابتدا نہ کہیں انتہا میں آتا ہے
یہ کون ہے جو دکھائی نہیں دیا اب تک
اور ایک عمر سے اپنی طرف بلاتا ہے...
غزل
بستیاں سنہری تھیں لوگ بھی سنہرے تھے
کون سی جگہ تھی وہ ہم جہاں پہ ٹھہرے تھے
اک صدا کی ویرانی راستہ بتاتی تھی
اور اپنے چاروں سمت خواہشوں کے میلے تھے
نے سمے گزرتے تھے، نے پلَک جھپکتی تھی
ورنہ اپنی آنکھوں میں رت جگے تو گہرے تھے
اب سلیم اکیلے ہو ورنہ عمر بھر تم تو
دوستی میں اندھے تھے، دشمنی...
میں خیال ھوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ھے
سر آئینہ مرا عکس ھے پس آئینہ کوئی اور ھے
میں کسی کے دست طلب میں ھوں تو کسی کے حرف دعا میں ھوں
میں نصیب ھوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ھے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ھوئی کہ یہ راستہ کوئی...
ہمارے پاؤں میںجو رستہ تھا
رستے میں پیڑ تھے
پیڑوں پر جتنی طائروں کی ٹولیاں ہم سے ملا کرتی تھیں
اب وہ اڑٹے اڑتے تھک گئی ہیں
وہ گھنی شاخیں جو ہم پے سایہ کرتی تھیں
وہ سب مرجھا گئی ہیں
اسے کہنا
لبوں پر لفظ ہیں
لفظوں پر کوئی دستاں قصہ کہانی جو اسے اکثر سناتے تھے
کسے جا کر سنایئں گے
بتایئں گے کہ ہم...
پیار کرنے کے لیے گیت سنانے کے لیے
اک خزانہ ہے میرے پاس لٹانے کے لیے
یاد کے زخم ہیں وعدوں کی دھنک ہے میں ہوں
یہ بہت ہے تیری تصویر بنانے کے لیے
ہم بھی کیا لوگ ہیں خوشبو کی روایت سے الگ
خود پہ ظاہر نہ ہوے تجھ کو چھپانے کے لیے
راستہ روک ہی لیتا ہے تغیر کا غبار
ورنہ ہر راہ کھلی ہے یہاں جانے کے...
:مجھے خبر تھی میرے بعد وہ بکھر جاتا
سو اس کو کس کے بھروسے پہ چھوڑ کر جاتا
وہ خوشبؤں میں گھرا تھا کہ مثل سایہء ابر
میان صحن چمن میں ادھر اّدھر جاتا
وہ کوئ نشہ نہیں تھا کہ ٹوٹتا مجھ میں
وہ سا نحہ بھی نہیں تھا کہ جو گزر جاتا
وہ خواب جیسا کوئ تھا نگار خانہ ء حسن
میں جتنا دیکھتا وہ اتناہی سنور جاتا...