دنیا کو میں خواب دے رہا ہوں
اور وہ بھی بے حساب دے رہا ہوں
اب کوئی تو زندگی سے پوچھے
میں کس کا حساب دے رہا ہوں
کس کس کا جواب دوں میں آخر
لو ایک جواب دے رہا ہوں
انسان نظر میں اب کہاں ہے
میں خود کو سراب دے رہا ہوں
کانٹے ہی دیے تھے جس نے مجھ کو
میں اُس کو گلاب دے رہا ہوں
ہر باب ہی روشنی...