غزلِ
فِراق گورکھپُوری
لُطف نہیں کرَم نہیں
جور نہیں سِتم نہیں
اب نہیں رُوئے مہ چَکاں
گیسُوئے خم بہ خم نہیں
برسرِ عالمِ وجُود
کون سی شے عدم نہیں
یُوں ہی نِکل گئی اِک آہ
رنج نہیں، الَم نہیں
قائلِ حُسنِ دِلفریب
آپ نہیں کہ ہم نہیں
میں تِرا موردِ عتاب
اِس سے بڑا کرَم نہیں...
غزلِ
شفیق خلش
چُنے مجھے ہی ہمیشہ جہان بھر سے آگ
نہ چھوڑے جان بھی میری اگر مگر سے آگ
گو پُر ہے عِشق و محبّت کی اِک اثر سے آگ
لگے نہ سِینے میں اُس کے جہاں کی ڈر سے آگ
اب اور لوگوں کا کیا ذکر جب حقیقت میں
لگی نصِیب جَلے کو خود اپنے گھر سے آگ
نجانے کیا شبِ فرقت میں گُل کِھلاتی ہے
لگی یہ...
غزلِ
شفیق خلش
رحم و کرم پہ یاد کی ٹھہری قضا ہے آج
اِک کیفیت خیال سے طاری جُدا ہے آج
مانوس جس سے میں نہیں ایسی فضا ہے آج
کانوں میں پڑ رہی مِرے سب کی دُعا ہے آج
ہر درد و غم سے ہجر کا صدمہ جُڑا ہے آج
پیکِ اجَل لے جان، کہ مجھ پر سَوا ہے آج
نو خیزئ شباب سے وابستہ جو رہا
محکم نہ ہو یقین کہ،...
غزلِ
شفیق خلش
ذرا نہ ڈھلنے پہ راضی وہ تیرے فرق کی رات
جو ایک رات بھی ہو کر تھی بے حساب سی رات
تمھارے ہجر میں ٹھہری تھی مجھ پہ جیسی رات
کسی نے دہر میں دیکھی نہ ہو گی ویسی رات
عذاب اِک ایسا، نہ وعدے پہ تیرا آنا تھا
جِئے مَرے تھے کئی بار جس میں رات کی رات
اذیّتوں کا نہ جس سے کوئی شُمار...
غزلِ
فِراق گورکھپُوری
یہ شوخئ نِگاہ کسی پر عیاں نہیں !
تاثیرِ دردِ عِشق، کہاں ہے کہاں نہیں
عِشق اِس طرح مِٹا کہ عَدم تک نِشاں نہیں
آ سامنے، کہ میں بھی تو اب درمیاں نہیں
مُجھ کو بھی اپنے حال کا وہْم و گُماں نہیں
تم راز داں نہیں تو کوئی راز داں نہیں
صیّاد اِس طرح تو فریبِ سُکوں نہ دے
اِس...
غزلِ
فراق گورکھپوری
اُداسی، بے دِلی، آشفتہ حالی میں کمی کب تھی
ہماری زندگی! یارو ہماری زندگی کب تھی
علائق سے ہُوں بیگانہ ولیکن اے دلِ غمگِیں
تجھے کچھ یاد تو ہوگا، کسی سے دوستی کب تھی
حیاتِ چند روزہ بھی، حیاتِ جاوِداں نِکلی !
جو کام آئی جہاں کے، وہ متاعِ عارضی کب تھی
یہ دُنیا، کوئی پلٹا...
غزلِ
شفیق خلش
زندہ نہیں ہیں جوہر و انوار بیچ کر
اپنا قلم، نہ اپنے ہم اشعار بیچ کر
پُہنچے خود اپنے فکر و تدبّر سے ہیں یہاں
پردیس ہم نہ آئے ہیں گھربار بیچ کر
جاں کی سلامتی سے مقدّم ہے کوئی چیز
پردیس سب سِدھارے ہیں گھر یار بیچ کر
املاک کے فروخت کی مُہلت نہ تھی جنہیں
بیٹھیں ہیں مِلکیّت...
غزلِ
شفیق خلش
آئے ذرا نہ اُٹھ کے وہ بیمار کی طرف
بیٹھے رہے تھے منہ کئے دیوار کی طرف
کھاتے نہ کیوں شکست بَھلا ہم خوشی کے ساتھ
جب فیصلہ تھا اُن کا بھی اغیار کی طرف
اِک عُمر دِل میں وصل کی اُمّید ہم لئے
پیغام بھیجتے رہے سرکار کی طرف
فُرقت میں اور ٹُوٹ کے اُن کا رہا خیال
جاتا کہاں سے ذہن...
غزلِ
حفیظ جالندھری
مِل جائے مے، تو سجدۂ شُکرانہ چاہیے
پیتے ہی ایک لغزشِ مستانہ چاہیے
ہاں احترامِ کعبہ و بُتخانہ چاہیے
مذہب کی پُوچھیے تو جُداگانہ چاہیے
رِندانِ مے پَرست سِیہ مَست ہی سہی
اے شیخ گفتگوُ تو شریفانہ چاہیے
دِیوانگی ہے، عقل نہیں ہے کہ خام ہو
دِیوانہ ہر لحاظ سے، دِیوانہ...
غزلِ
فِراق گورکھپُوری
آج بھی قافلۂ عِشق رَواں ہے کہ جو تھا
وہی مِیل اور وہی سنگِ نِشاں ہے کہ جو تھا
آج بھی عِشق لُٹاتا دل و جاں ہے کہ جو تھا
آج بھی حُسن وہی جِنسِ گراں ہے کہ جو تھا
منزلیں گرد کے مانند اُڑی جاتی ہیں
وہی اندازِ جہانِ گُزراں ہے کہ جو تھا
منزلیں عِشق کی تا حدِ نظر سُونی ہیں...
غزلِ
شفیق خلش
کب اُن کو اپنا عمَل اِک بھی ظالمانہ لگے
کہوں جو حق کی اگر میں، تو باغیانہ لگے
فضائے عِشق و محبّت جسے مِلا نہ کبھی
یہ دِل اِک ایسے پرندے کا آشیانہ لگے
مطیع بن کے ہمیشہ رہے تھے، جس کا یہاں
عذاب ہم پہ سب اُس کا ہی شاخسانہ لگے
کہُوں یہ کیسے کہ اُن کے بغیر رہ نہ سَکوُں
اُنھیں تو...
غزلِ
مرزا اسداللہ خاں غالب
نُکتہ چِیں ہے ، غمِ دِل، اُس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات ، جہاں بات بنائے نہ بنے
میں بُلاتا تو ہُوں اُس کو ، مگر اے جذبۂ دِل
اُس پہ بَن جائے کُچھ ایسی، کہ بِن آئے نہ بنے
کھیل سمجھا ہے ، کہیں چھوڑ نہ دے ، بُھول نہ جائے
کاش! یُوں بھی ہو کہ، بِن میرے ستائے نہ...
غزلِ
فانی بدایونی
ہوش ہستی سے تو بیگانہ بنایا ہوتا
کاش تُو نے مجھے دِیوانہ بنایا ہوتا
دِل میں اِک شمْع سی جلتی نظر آتی ہے مجھے
آ کے اِس شمْع کو پروانہ بنایا ہوتا
تیرے سجدوں میں نہیں شانِ محبّت زاہد
سر کو خاکِ دَرِ جانانہ بنایا ہوتا
دِل تِری یاد میں آباد ہے اب تک، ورنہ
غم نے کب کا...
غزلِ
باقر نقوی
(لندن)
درد ایسا ہے کہ سِینے میں سماتا بھی نہیں
ہنسنے دیتا بھی نہیں اور رُلاتا بھی نہیں
پہروں پِھرتا ہُوں اندھیروں کے گھنے جنگل میں
کوئی آسیب مجھے آکے ڈراتا بھی نہیں
ایک تِنکا ہُوں، پڑا ہُوں لبِ ساحل کب سے
کوئی جَھونکا مجھے پانی میں بہاتا بھی نہیں
سادہ سادہ سَحَر و شام...
غزلِ
شفیق خلش
سُنائی جو نہیں دیتی فُغاں، نظر آئے
ہو کورچشم کوئی تو کہاں نظر آئے
رَوا قدم ہے ہر اِک اُس پہ اِنتہائی بھی !
مگر یہ تب، کہ ہمیں رازداں نظر آئے
چمن سے تب ہی گُل و برگ کی اُمید بندھے
جو حاکموں میں کوئی باغباں نظر آئے
زمیں کے رحم و کرم پر ہی اِنحصار یہ کیوں
ذرا ہمیں بھی کہیں...
غزلِ
سیّد فخرالدّین بلے
ہے آب آب موج بِپھرنے کے باوجُود
دُنیا سِمٹ رہی ہے بِکھیرنے کے باوجُود
راہِ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے
ہر ہر نفَس پہ موت سے ڈرنے کے باوجُود
اِس بحرِ کائِنات میں ہر کشتیِ انا
غرقاب ہوگئی ہے اُبھرنے کے باوجُود
شاید پڑی ہے رات بھی سارے چمن پہ اوس
بھیگے ہُوئے ہیں...
غزلِ
احمد ندیم قاسمی
شبِ فِراق جب مژدۂ سَحر آیا
تو اِک زمانہ تِرا مُنتظر نظر آیا
تمام عُمر کی صحرا نوَردِیوں کے بعد
تِرا مقام سرِ گردِ رہگُزر آیا
یہ کون آبلہ پا اِس طرف سے گُذرا ہے
نقُوش پا میں جو پُھولوں کے رنگ بھر آیا
کِسے مجال، کہ نظّارۂ جمال کرے
اِس انجُمن میں جو آیا، بَچشمِ تر آیا...
غزلِ
حفیظ جالندھری
عِشق نے حُسن کی بیداد پہ رونا چاہا
تُخمِ احساسِ وفا سنگ میں بونا چاہا
آنے والے کسی طوُفان کا رونا رو کر
نا خُدا نے مجھے ساحِل پہ ڈبونا چاہا
سنگ دِل کیوں نہ کہیں بُتکدے والے مجھ کو
میں نے پتّھر کا پرِستار نہ ہونا چاہا
حضرتِ شیخ نہ سمجھے مِرے دِل کی قیمت
لے کے تسبِیح...
غزلِ
شفیق خلش
تھے دِل کے کبھی اور ابھی اور طلب ہیں
حالات اب اِس دل کے بہت غور طلب ہیں
آساں نہیں کُچھ، ضعف میں اُلفت سے کنارہ
اعمال سب اِس مد میں بہت زور طلب ہیں
آسودۂ اعصاب ہیں کب عِشق میں اُن کے
سمجھیں جوخموشی سے کہ ہم جور طلب ہیں
کچھ شرطِ وفا ضبط و خموشی سے ہے منسوب
کچھ نالے رسائی...