غزل
شفیق خلش
اُن کی ہم لعْن کبھی طَعْن سے ہی پھرتے تھے
ہم کب آواز سُنے بِن بھی، کبھی پھرتے تھے
لے مُصیبت وہ محبّت میں کڑی پھرتے تھے
صبح نِکلے پہ اندھیرے کی گھڑی پھرتے تھے
اب اُسی شہر کے ہرگھر کو میں زِنداں دیکھوں !
جس کے کوچوں میں غم آزاد کبھی پھرتے تھے
دیکھ کر جن پہ غزالوں کو بھی...
غزلِ
اعتبارساجد
پُھول تھے رنگ تھے ،لمحوں کی صباحت ہم تھے
ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے
سب خِرَد مند بنے پھرتے تھے ماشاء اللہ !
بس تِرے شہر میں اِک صاحبِ وحشت ہم تھے
نام بخشا ہے تجھے کِس کے وفُورِ غم نے
گر کوئی تھا تو تِرے مُجرمِ شُہرت ہم تھے
رَتجگوں میں تِری یاد آئی تو احساس ہُوا...
غزلِ
داغ دہلوی
پھر کہیں چُھپتی ہے ظاہر، جب محبّت ہوچُکی
ہم بھی رُسوا ہوچُکے اُن کی بھی شُہرت ہوچُکی
دیکھ کر آئینہ، آپ ہی آپ وہ کہنے لگے !
شکل یہ پریوں کی، یہ حوُروں کی صُورت ہوچکی
مر گئے ہم مر گئے، اِس ظُلم کی کچھ حد بھی ہے
بے وفائی ہوچُکی، اے بے مروّت! ہوچُکی
کثرتِ ناز و ادا نے صبر...
غزلِ
شفیق خلش
وہی دِن ، جو گزُرے کمال کے، ہُوئے وجہ ڈھیروں سوال کے
کہ بنے ہیں کیسے وہ سب کے سب مِری پستیوں کے، زوال کے
یُوں اُبھر رہے ہیں نقوش سب، لِئے رنگ تیرے خیال کے
نظرآئیں جس سے کہ دِلکشی، سبھی حُسن، سارے جمال کے
گو یہ دن ہیں فُرق و ملال کے، مگررکھیں خود میں سنبھال کے
وہ بھی یاد جس...
سورج نہ نکلنے کا کچھ یہ بھی سبب ٹھہرا
اس شہر کا ہر باسی دلدادہ شب ٹھہرا
احباب تو سمجھوتا حالات سے کرلیں گے
ایک میں ہی یہاں گویا آزاد طلب ٹھہرا
جس شخص کے ہونے سے توقیر تھی بستی کی
وہ شخص ہی بستی میں بے نام و نسب ٹھہرا
پانی کا کوئی چشمہ کب پیاس بجھائے گا
زہر اب کے ساغر کو ہونٹوں کی طلب ٹھہرا...
غزل
قتیل شفائی
ڈھل گیا چاند ، گئی رات ، چلو سو جائیں
ہو چُکی اُن سے ملاقات ، چلو سو جائیں
دُور تک گُونج نہیں ہے کِسی شہنائی کی
لُٹ گئی اٌس کی ہے بارات ، چلو سو جائیں
لوگ اِقرارِ وفا کر کے بُھلا دیتے ہیں
یہ نہیں کوئی نئی بات ، چلو سو جائیں
شام ہوتی ، تو کِسی جام سے جی بہلاتے
بند ہیں اب تو...
تبصرہ اس کے بدن پر بس یہی کرتا رہا
آسماں تجھ کو بنا کر کافری کرتا رہا
میں ابوجہلوں کی بستی میں اکیلا آدمی
چاہتے تھے جو ، وہی پیغمبری کرتا رہا
نیند آجائے کسی صورت مجھے، اس واسطے
میں ، خیالِ یار سے پہلو تہی کرتا رہا
کھول کر رنگوں بھرے سندر پرندوں کے قفس
میں بہشت ِ دید کے ملزم بری کرتا رہا...
تکلف برطرف ہوگا خطاب آہستہ آہستہ
اُٹھے گا ان کے چہرے سے نقاب آہستہ آہستہ
ہمیں مدہوش کردے گا شباب آہستہ آہستہ
دِکھاتی ہے اثر اپنا شراب آہستہ آہستہ
نہیں اب تاب اِس دل میں کوئی بھی درد سہنے کی
ستم صد شوق سے لیکن جناب آہستہ آہستہ
تکلف ہے، حیا ہے، یا مرے دلبر کی عادت ہے
نگاہیں ہیں زمیں پر اور...
اِس مطلبی جہاں کے سب یار ہیں عبث
ایسی محبتوں کے یہ اقرار ہیں عبث
٭٭٭٭٭٭
ہے علم گر لحد میں اکیلے ہی جائیں گے
وقتی رفاقتوں کے یہ مینار ہیں عبث
٭٭٭٭٭٭
اب دوستی ہے نام مطالب کا دوستو
یہ زہر بانٹتے ہوئے اشجار ہیں عبث
٭٭٭٭٭٭
اندر کدورتیں ہیں تو باہر بشارتیں
چہروں پہ کھلتے ہوئے یہ انوار ہیں...
کب سماں تھا بہار سے پہلے
غم کہاں تھا بہار سے پہلے
ایک ننھا سا آرزو کا دیا
ضوفشاں تھا بہار سے پہلے
اب تماشا ہے چار تنکوںکا
آشیاں تھا بہار سے پہلے
اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے
پچھلی شب میں خزان کا سناٹا
ہم زباںتھا بہار سے پہلے
چاندنی میںیہ آگ کا دریا...
:AOA:
:p
سنا تھا کے وہ آئیں گے انجمن میں سنا تھا کے ان سے ملاقات ہو گی
ہمیں کیا پتا تھا ہمیں کیا خبر تھی نہ یہ بات ہو گی نہ وہ بات ہو گی
میں کہتا ہوں اس دل کو دل میںبسا لو وہ کہتے ہیں ہم سے نگا ہیںملا لو
نگاہوں کو معلوم کیا دل کی حالت نگا ہوں نگاہوں میںکیا بات ہو گی
ہمیں کھینچ کر عشق...
غزل
ہم رہے پر نہیں رہے آباد
یاد کے گھر نہیں رہے آباد
کتنی آنکھیں ہوئی ہلاک ِ نظر
کتنے منظر نہیں رہے آباد
ہم کہ اے دل سخن تھے سر تا پا
ہم لبوں پر نہیں رہے آباد
شہرِ دل میں عجب محلے تھے
جن میں اکثر نہیں رہے آباد
جانے کیا واقعہ ہوا، کیوں لوگ
اپنے اندر نہیں رہے آباد
جون ایلیا
غزل
ریت بھری ہے ان آنکھوں میں تم اشکوں سے دھو لینا
کوئی سوکھا پیڑ ملے تو اُس سے لپٹ کے رو لینا
اُس کے بعد بھی تم تنہا ہو، جیسے جنگل کا رستہ
جو بھی تم سے پیار سے بولے ساتھ اُسی کے ہو لینا
کچھ تو ریت کی پیاس بجھائو جنم جنم سے پیاسی ہے
ساحل پر چلنے سے پہلے اپنے پائوں بھگو لینا
ہم نے...
چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارا بنا ڈالا
مری آوارگی نے مجھ کو آوارہ بنا ڈالا
بڑا دلکش، بڑا رنگین ہے یہ شہر کہتے ہیں
یہاں پر ہیں ہزاروں گھر، گھروں میں لوگ رہتے
مجھے اس شہر میں گلیوں کا بنجارہ بنا ڈالا
میں اس دنیا کو اکثر دیکھ کر حیران ہوتا ہوں
نہ مجھ سے بن سکا چھوٹا سا گھر دن رات روتا ہوں
خدایا...
غزل
ابھی تو گردشِ دوراں سے بات کرنی ہے
پھر اس کے بعد دل و جاں سے بات کرنی ہے
تم اپنے شہر کی ساون رتوں سے بات کرو
مجھے تو ابرِ گریزاں سے بات کرنی ہے
نکلنا ایک تحّیر سے ہے مجھے پہلے
پھر ایک دیدہِ حیراں سے بات کرنی ہے
کسی نے پھول مجھے بے حساب بھیجے ہیں
سو مجھ کو تنگیِ داماں سے بات...
ہم صورتِ حالات سے آگے نہ جا سکے
گویا کہ اپنی ذات سے آگے نہ جاسکے
مدت ہوئی ہے گولڈن دن کی تلاش میں
تاحال کالی رات سے آگے نہ جا سکے
ہم کو بھی اچھی قسم کے کھانوں کی ریجھ ہے
پر اپنے ساگ پات سے آگے نہ جا سکے
کوشش تو ہم نے بہت کی انچے مقام کی
گھر کے بنیرا جات سے آگے نہ جاسکے
غیروں نے...
غزل
پسِ غبار جواِک آشنا سا چہرا ہے
وہ مجھ کو بُوجھ رہا ہو اگر تو اچھّا ہے
اب ایک عمر کی محرومیوں کے بعد یہ وصل
فریبِ دیدہ ودل ہے کہ خواب دیکھا ہے
عجب نہیں کہ ہمارے بھی لب ہنسے ہوں کبھی
ہجومِ غم میں بھلا کس کو یا د رہتا ہے
مری نظر میں یہ انداز بے یقینی کا
فریبِ عہدِ بہاراں کے بعد...
غزل
میری غزلوں کی جاں ہو گئے
وہ مری داستاں ہو گئے
اُن کو اتنا پُکارا کہ وہ
میری طرزِ فغاں ہو گئے
مجھ کو تلقینِ صبر و رضا
اور خود آسماں ہو گئے
خوگرِ رنج کرکے مجھے
ناگہاں مہرباں ہو گئے
آنسوؤ کچھ مداوہ کرو
ہائے وہ بد گماں ہو گئے
کوئی تو میرے دکھ بانٹ لے
یو ں تو سب ہم زباں ہو...
چڑیوں سے مکالمہ
شریر چڑیو!
سنو مجھے اک گلہ ہے تم سے
کہ منہ اندھیرے
تمہاری بک بک، تمہاری جھک جھک
تمہاری چوں چاں
سماعتوں پر تمہاری دستک
ہے غل مچاتی، مجھے جگاتی، بڑا ستاتی
شریر چڑیو!
یہ تم نہ جانو
میں رات مشکل سے سو سکی تھی
اداسیوں کے سمندروں میں
میں اپنی آنکھیں ڈبو چکی تھی
بہت سے...