غزلِ
شفیق خلِش
کٹی زیست جس کی ساری تِرا اعتبار کرتے
ہُوا جاں بَلب بلآخر تِرا انتظار کرتے
یہ میں سوچتا ہُوں اکثر کہ اگر وہ مِل بھی جاتے
وہی کج ادائیوں سے مجھے بے قرار کرتے
بَپا حشر کیا نہ ہوتا، جو وہ چھوڑ کر ہر اِک کو
کبھی رسم و راہ مجھ سے اگر اُستوار کرتے
اِسی ڈر میں مُبتلا ہُوں، کہ...
غزلِ
قمر جمیل
دشتِ جنُوں میں دامن گُل کو لانے کی تدبیر کریں
نرم ہَوا کے جھونکو آؤ موسم کو زنجیر کریں
موسمِ ابروباد سے پُوچھیں لذّتِ سوزاں کا مفہُوم
موجۂ خُوں سے دامنِ گُل پر حرفِ جنُوں تحریر کریں
آمدِ گُل کا وِیرانی بھی دیکھ رہی ہے کیا کیا خواب
وِیرانی کے خواب کو آؤ وحشت سے تعبیر کریں...
پند نامہ
داغ دہلوی
اپنے شاگردوں کی مجھ کو ہے ہدایت منظور
کہ سمجھ لیں وہ تہِ دل سے بجا و بے جا
چست بندش ہو، نہ ہو سُست، یہی خُوبی ہے
وہ فصاحت سے گِرا، شعر میں جو حرف دبا
عربی، فارسی الفاظ جو اردو میں کہیں
حرفِ علت کا بُرا اِن میں ہے گرنا، دبنا
الف وصل اگر آئے تو کچھ عیب نہیں
پھر بھی الفاظ میں...
غزلِ
شفیق خلش
رہے پیش سب ہی وعدے مجھے زندگی میں کل کے
بُجھی زیست میری جن میں بڑی بے کلی سے جل کے
یوں گنوادی عُمر ساری کیے وعدوں پر بہل کے
نہیں خواب تک سلامت وہ خوشی سے پُر محل کے
رہے رنج مجھ کو یُوں بھی، کہ نہ ہمسفر تھے پل کے
وہ جُدا ہوئے ہیں مجھ سے، بڑی دُور ساتھ چل کے
گِریں فُرقِ...
غزلِ
شفیق خلش
ہم پہ اُفتاد، فلک تیرے اگر کم نہ رہے
تو سمجھ لینا کہ کچھ روز ہی میں ہم نہ رہے
ظاہر اِس چہرے پہ کُچھ درد، کوئی غم نہ رہے
مکر میں ماہر اب ایسا بھی کبھی ہم نہ رہے
کرب سینے کا اُمڈ آئے نہ آنکھوں میں کبھی
خوگر آلام کے اِتنے بھی ابھی ہم نہ رہے
کب وہ عالم نہ رہا دیس سا پردیس...
غزلِ
مجید امجد
اب کے تمھارے دیس کا یہ روپ نیارا تھا
بِکھرا ہُوا ہَواؤں میں سایا تمھارا تھا
گُم سُم کھڑے ہیں اُونچی فصِیلوں کے کنکرے
کوئی صدا نہیں! مجھے کِس نے پُکارا تھا
رات آسماں پہ چاند کی منڈلی میں کون تھا
تم تھے کہ اِک سِتار بجاتا سِتارہ تھا
اُن دُورِیوں میں قُرب کا جادُو عذاب تھا...
غزل
ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد
شمع کی طرح شبِ غم میں پِگھلتے رہیے
صُبح ہو جائے گی جلتے ہیں تو جلتے رہیے
وقت چلتا ہے اُڑاتا ہُوا لمحات کی گرد
پیرہن فکر کا ہے، روز بدلتے رہیے
آئینہ سامنے آئے گا تو سچ بولے گا
آپ چہرے جو بدلتے ہیں، بدلتے رہیے
آئی منزِل تو قدم آپ ہی رُک جائیں گے
زِیست کو...
غزلِ
شفیق خلش
غرض کسے کہ یہ سر تاجدار ہو کہ نہ ہو
کریں گے اُن سے، اُنھیں ہم سے پیار ہو کہ نہ ہو
مچلتے رہنے کی عادت بُری ہے دِل کو مِرے
ہر اچھّی چیز پہ، کچھ اِختیار ہو کہ نہ ہو
ذرا یہ فکرمحبّت میں تیری، دل کو نہیں
عنایتوں سے تِری زیربار ہو کہ نہ ہو
ہم اُن کو اپنی دِلی کیفیت بتا ہی نہ دیں...
غزلِ
شفیق خلش
اِک عجیب موڑ پہ زندگی سرِ راہِ عِشق کھڑی رہی
نہ مِلا کبھی کوئی رّدِ غم ، نہ ہی لب پہ آ کے ہنسی رہی
کبھی خلوتوں میں بھی روز و شب تِری بزم جیسے سجی رہی
کبھی یوں ہُوا کہ ہجوم میں، مجھے پیش بے نفری رہی
سبھی مُشکلیں بھی عجیب تھیں رہِ وصل آ جو ڈٹی رہِیں
نہ نظر میں اِک، نہ...
غزلِ
شفیق خلِش
اک نہ چہرہ بجُز اُس شکل کے بھایا دِل کو
وہ کڑی دُھوپ میں رحمت کا ہے سایا دِل کو
جتنا جتنا بھی مُصیبت سے بچایا دِل کو
اُتنا اُتنا ہی مُصیبت میں ہے پایا دِل کو
اِس نہج، اُس سے مِرا عِشق ہے لایا دِل کو
جب تصوّر رہا، مجذُوب سا پایا دِل کو
غم سے مدہوشی پہ بہلا کے جو لایا دِل کو...
غزلِ
شفیق خلش
جب تعلّق نہ آشیاں سے رہے
کچھ نہ شِکوے بھی آسماں سے رہے
پَل کی فرقت نہ ہو گوارا جسے
دُور کیسے وہ دِل بُتاں سے رہے
سوچتے ہیں اب اُن حسینوں کو
جن کی قربت میں شادماں سے رہے
اُس کی یادوں نے کی پذیرائی
درد دِل میں جو بےکراں سے رہے
دُوریاں اُس پہ اِک قیامت ہیں
دِل جو...
غزلِ
شفیق خلش
ہے شرف حاصل وطن ہونے کا جس کو شاد کا
تھا یگانہ بھی تو شاعر اُس عظیم آباد کا
طرز اپنایا سُخن میں جب بھی میں نے شاد کا
میرے شعروں پر گمُاں ٹھہرا کسی اُستاد کا
یا الہیٰ ! شعر میں ایسی فصاحت دے، کہ میں
نام روشن کرسکوُں اپنے سبھی اجداد کا
دِل بدل ڈالا ہے اپنا اُس نے پتّھر...
غزل
اِندرا ورما
دِل کے بے چین جزیروں میں اُتر جائے گا
درد آہوں کے مقدّر کا پتہ لائے گا
میرے بچھڑے ہُوئے لمحات سجا کر رکھنا
وقت لفظوں میں غزل بن کے ٹھہر جائے گا
اُس کی ہر بات جَفا پیشہ ہُوئی ہے اکثر
زخم کا خوف کبھی اُس کو بھی دہلائے گا
وقت خاموش ہے ٹوٹے ہُوئے رِشتوں کی طرح
وہ بَھلا...
غزلِ
شفیق خلش
سہنے کی حد سے ظلم زیادہ کیے ہُوئے
پردہ ہے، مارنے کا اِرادہ کیے ہُوئے
بیتی جو مہوشوں سے اِفادہ کیے ہُوئے
گزُرے وہ زندگی کہاں سادہ کیے ہُوئے
کیوں نااُمیدی آس پہ غالب ہو اب، کہ جب !
اِک عُمر گزُری اِس کو ہی جادہ کیے ہُوئے
کردی ہے اِنتظار نے ابتر ہی زندگی
اُمّیدِ وصل اِس کا...
غزلِ
اِندرا وَرما
مجھے رنگ دے نہ سُرور دے، مِرے دِل میں خود کو اُتار دے
مِرے لفظ سارے مہک اُٹھیں، مجھے ایسی کوئی بہار دے
مجھے دُھوپ میں تُو قریب کر، مجھے سایہ اپنا نصیب کر
مِری نِکہتوں کو عرُوج دے مجھے پُھول جیسا وقار دے
مِری بکھری حالت زار ہے، نہ تو چین ہے نہ قرار ہے
مجھے لمس اپنا...
غزلِ
شفیق خلش
کسی بھی کام میں اب دِل مِرا ذرا نہ لگے
کسی کی شکل اب اچھّی تِرے سِوا نہ لگے
نِگاہِ ناز نے جانے کِیا ہے کیا جادُو
کہ کوئی کام نہ ہونے پہ بھی رُکا نہ لگے
رہے ملال، جو ضائع ہو ایک لمحہ بھی
تِرے خیال میں گُزرے جو دِن، بُرا نہ لگے
خرامِ ناز ہے اُس کا، کہ جُھومنا گُل کا...
غزلِ
سلیم احمد
دِل کے اندر درد، آنکھوں میں نمی بن جائیے
اِس طرح مِلیے، کہ جُزوِ زندگی بن جائیے
اِک پتنگے نے یہ اپنے رقصِ آخر میں کہا !
روشنی کے ساتھ رہیے، روشنی بن جائیے
جس طرح دریا بُجھا سکتے نہیں صحرا کی پیاس
اپنے اندر ایک ایسی تشنگی بن جائیے
دیوتا بننےکی حسرت میں مُعلّق ہوگئے
اب ذرا نیچے...
غزلِ
شفیق خَلِش
اِس کا نہیں ملال، کہ سونے نہیں دِیا
تنہا تِرے خیال نے ہونے نہیں دِیا
پیش آئے اجنبی کی طرح ہم سے جب بھی وہ
کچھ ضبط، کچھ لحاظ نے رونے نہیں دِیا
چاہا نئے سِرے سے کریں زندگی شروع
یہ تیرے اِنتظار نے ہونے نہیں دِیا
طاری ہے زندگی پہ مِری مستقل ہی رات
دِن تیرے ہجر نے کبھی...
غزلِ
اِفتخارعارِف
رنگ تھا، روشنی تھا، قامت تھا
جس پہ ہم مر مِٹے، قیامت تھا
خُوش جمالوں میں دُھوم تھی اپنی
نام اُس کا بھی وجہِ شُہرت تھا
پاسِ آوارگی ہمیں بھی بہت !
اُس کو بھی اعترافِ وحشت تھا
ہم بھی تکرار کے نہ تھے خُوگر
وہ بھی ناآشنائے حُجّت تھا
خواب تعبیر بَن کے آتے تھے
کیا عجب موسمِ...
غزلِ
شفیق خلش
مِرے دُکھوں کا خلِش اب یہی ازالہ ہے
اُمیدِ وصل ہے جس نے مجھے سنبھالا ہے
جو تم نہیں ہو، تو ہے زندگی اندھیروں میں
مِرے نصیب میں باقی کہاں اُجالا ہے
سکوت مرگ سا طاری تھا اک زمانے سے
یہ کِس کی یاد نے پھر دِل مِرا اُچھالا ہے
رہا نہ کوئی گلہ اب وطن کے لوگوں سے
یہاں بھی خُوں...