غزل
سمائیں آنکھ میں کیا شُعبدے قیامت کے
مِری نظر میں ہیں جَلوے کسی کی قامت کے
یہاں بَلائے شبِ غم، وہاں بہارِ شباب !
کسی کی رات، کسی کے ہیں دِن قیامت کے
سِتارے ہوں تو سِتارے، نہ ہوں تو برقِ بَلا !
چراغ ہیں تو یہ ہیں بےکسوں کی تُربت کے
اُلٹ دِیا غمِ عِشقِ مجاز نے پردہ
حجابِ حُسن میں...
غزل
عاشقی پیشہ ہے اے دِل! تو یہ بیداد نہ کر
ستمِ یار سے بھی شاد ہو، فریاد نہ کر
دیکھ اُس جلوۂ پنہاں کی زیارت ہے محال
ہمّتِ شوق کو بے فائدہ برباد نہ کر
بے پر و بال کہاں چُھوٹ کے جائیں صیّاد
ہم اسِیرانِ وفا کوش کو آزاد نہ کر
ہم تِری یاد کو بُھولیں ہیں نہ بُھولیں گے کبھی
توُ ہمَیں بُھول...
غزلِ
شیخ محمد ابراہیم ذوق
برسوں ہو ہجر، وصل ہو گر ایک دَم نصِیب
کم ہوگا کوئی مجھ سا محبّت میں کم نصِیب
گر میری خاک کو ہوں تمھارے قدم نصِیب
کھایا کریں نصِیب کی میرے قسم نصِیب
ماہی ہو یا ہو ماہ، وہ ہو ایک یا ہزار!
بے داغ ہو نہ دستِ فلک سے درِم نصِیب
بہتر ہے لاکھ لُطف و کرم سے تِرے...
غزلِ
میر تقی میؔر
چمکی ہے جب سے برق ِسَحر گُلستاں کی اور
جی لگ رہا ہے خار و خسِ آشیاں کی اور
وہ کیا یہ دل لگی ہے فنا میں ، کہ رفتگاں
مُنہ کرکے بھی نہ سوئے کبھو پھر جہاں کی اور
رنگِ سُخن تو دیکھ ، کہ حیرت سے باغ میں!
رہجاتے ہیں گےدیکھ کے گُل اُس دَہاں کی اور
آنکھیں سی کُھل ہی جائیں گی...
شکیب جلالی
غزل
اب یہ وِیران دِن کیسے ہوگا بسر
رات تو کٹ گئی درد کی سَیج پر
بس یہیں ختم ہے پیار کی رہگزر
دوست اگلا قدم کچھ سمجھ سوچ کر
اُس کی آوازِ پا تو بڑی بات ہے
ایک پتّہ بھی کھڑکا نہیں رات بھر
گھر میں طوفان آئے زمانہ ہُوا
اب بھی کانوں میں بجتی ہے زنجیرِ در
اپنا دامن بھی اب تو میسّر نہیں...
غزل
ہم لوگ دُھوپ میں نہ کبھی سر کُھلے رہے
سائے میں غم کی آگ کے اکثر دبے رہے
فرقت کے روز و شب بڑے ہم پر کڑے رہے
ہم بھی اُمیدِ وصل کے بَل پر اڑے رہے
دِل اِنتظار سے تِری غافِل نہیں رہا
گھر کے کواڑ تھے کہ جو شب بھر کُھلے رہے
راتوں نے ہم سے عِشق کا اکثر لِیا خِراج
ضبط و حیا سے دِن میں کبھی...
غزل
پائی جہاں میں جتنی بھی راحت تمہی سے ہے
ہر وقت مُسکرانے کی یہ عادت، تمہی سے ہے
رکھتا ہُوں اب دُعا کو بھی ہاتھ اپنے میں بُلند
سب عِجز و اِنکسار و عِبادت تمہی سے ہے
ہر شے میں دیکھتا ہُوں میں، رنگِ بہار اب
آئی جہان بھر کی یہ چاہت تمہی سے ہے
ہوتا ہے ہر دُعا میں تمھارا ہی ذکر یُوں
لاحق ہماری...
غزل
دُکھ کہاں مجھ کو کہ غم تیرا سزا دیتا ہے
ہاں مگر اِس کا، کہ سب حال بتا دیتا ہے
دِن گُزارے ہیں سَرِ چاکِ زمانہ، لیکن
یہ بھی ہر شام وہی شکل بنا دیتا ہے
رات ہوتے ہی کوئی یاد کا خوش کُن لمحہ !
نیند آنکھوں سے، سُکوں دِل سے مِٹا دیتا ہے
ذہن بے خوابئ آنکھوں کا سہارا پا کر
کیا نہ...
غزل
پرویز ساحِر
اِس کارِ عِشق میں نہیں کوئی ہوَس مُجھے
میری متاعِ آتِشِ سُوزاں ہے بَس مُجھے
مَیں بورِیا نشِیں سہی، لیکِن بہ فیضِ عِشق
حاصِل ہے مِہْر و ماہ پَہ بھی دَسترَس مُجھے
چشمِ زدَن میں جَست بھرُوں گا میں تا اُفق
کچھ کم نہیں ہے مُہلتِ یک دو نفَس مُجھے
میرے لِیے ہے حَلقۂ صاحِب...
غزل
ہر گھڑی اِنقلاب میں گُزری
زندگی کِس عذاب میں گُزری
شوق تھا مانَعِ تجلّیِ دوست !
اُن کی شوخی حِجاب میں گُزری
کَرَمِ بے حِساب چاہا تھا
سِتَمِ بے حِساب میں گُزری
ورنہ دُشوار تھا سُکونِ حیات
خیر سے اِضطراب میں گُزری
رازِ ہستی کی جُستجُو میں رہے
رات تعبیرِخواب میں گُزری
کُچھ کٹی ہمّتِ...
غزل
رکھّا ہے دل میں تجھ کو چُپھے راز کی طرح
دھڑکن بتا نہ دے کہ ہُوئی ساز کی طرح
تیرے خیال سے ہے بہار اب خِزاں کی رُت
خاموشی بھی چہک تِری آواز کی طرح
یوں کِھلکِھلانا اُس کا ہے اِس بات پر ثبوت
باقی نہ سرد مہری ہے آغاز کی طرح
پُھولے نہیں سماتا ہے قربت سے تیری دِل
پہلو میں توُ، اِسے...
جانتا ہوں کہ مرا دل مرے پہلو میں نہیں
پھر کہاں ہے جو ترے حلقۂ گیسو میں نہیں
ایک تم ہو تمہارے ہیں پرائے دل بھی
ایک میں ہوں کہ مرا دل مرے قابو میں نہیں
دور صیّاد، چمن پاس، قفس سے باہر
ہائے وہ طاقتِ پرواز کہ بازو میں نہیں
دیکھتے ہیں تمہیں جاتے ہوئے اور جیتے ہیں
تم بھی قابو میں نہیں، موت بھی...
fani badayuni
urdupoetry
اردو شاعری
اردو کلاسیکی شاعری
شوکت علی خان فانی بدایونی
طارق شاہ
غزل
فانی
فانی بدایونی
فرخ منظور
کلاسیکل شاعری
کلاسیکی شاعری
کلاسیکی شاعری اردو
غزل
عِشق میں جینے کے بھی لالے پڑے
ہائے کِس بیدرد کے پالے پڑے
وادئ وحشت میں جب رکھّا قدم
آ کے میرے پاؤں پر چھالے پڑے
دِل چلا جب کوُچۂ گیسو کی سمت
کوس کیا کیا راہ میں کالے پڑے
دُور تھا، زندا تھے کیا دشتِ جنوُں
چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑے
کِس نگر نے کردِیا عالم کو مست
ہر جگہ لاکھوں ہیں...
غزل
بیٹھے تِرے خیال میں تصوِیر بن گئے
خوابوں میں قید رہنے کی تعبیر بن گئے
نا راستوں کا علم، نہ منزِل کا کُچھ پتہ
کیسے سفر کے ہم یہاں رہ گیر بن گئے
کیا کیا نہ ذہن و دِل میں تہیّہ کیے تھے ہم
اِک ہی نظر میں تابع و تسخِیر بن گئے
ہم نے تمھارے ساتھ گزارے تھے جو کبھی
لمحے وہی تو پاؤں کی زنجیر...
غزل
مُوئے مِژگاں سے تِرے سینکڑوں مرجاتے ہیں
یہی نشتر تو رگِ جاں میں اُتر جاتے ہیں
حرم و دیر ہیں عُشاق کے مُشتاق، مگر
تیرے کوُچے سے اِدھر یہ نہ اُدھر جاتے ہیں
کوچۂ یار میں اوّل تو گُزر مُشکل ہے
جو گُزرتے ہیں، زمانے سے گُزر جاتے ہیں
شمع ساں جلتے ہیں جو بزمِ محبّت میں تِرے
نام روشن وہی...
غزل
کیوں قرار اب دِل کو میرے ایک پَل آتا نہیں
دُوسروں کا غم بھی سِینے سے نِکل جاتا نہیں
کِس کو لگتے ہیں بُرے یہ پیار کے مِیٹھے سُخن
تیری باتوں سے بھی اب غم اپنا ٹل جاتا نہیں
نصفِ شب کو اُٹھ کے بیٹھوں پُرملالِ حال سے
میرے خوابوں سے کبھی خوفِ اجَل جاتا نہیں
ہے یہی اِک فکر، کیسے کربِ فُرقت دُور...
غزلِ
بات چلتی نظر نہیں آتی
کچھ بھی بنتی نظر نہیں آتی
رنگِ اُلفت بَرنگِ قِسمت ہی
کُچھ چَمکتی نظر نہیں آتی
جس پہ تکیہ تھا اب وہی مجھ کو
میری بنتی نظر نہیں آتی
عمر بھر کی نہ ہو یہ تنہائی
پَل کو ہٹتی نظر نہیں آتی
کھوچُکا میں نظر کی شادابی
راہ چلتی نظر نہیں آتی
شوخ اُس شوخ کی...
غزلِ
ہو جائے اُن سے پیار دوبارہ، کبھی نہیں
پھر ہو غموں سے دِل یہ غبارہ، کبھی نہیں
لاحق ہمیشہ اُن سے بھی تنہائیاں رہیں
دِن اچھا کہہ سکیں وہ گزارہ کبھی نہیں
شِیرازۂ حیات سمیٹا جو ایک بار
کیا ہم بکھرنے دیںگے دوبارہ، کبھی نہیں
حاصل ہُوا ہے اُن سے محبّت میں کم سبق
جو پھرسے دیں وہ خود پہ...
غزلِ
آپ کہیے تو سب بَجا کہیے
کیوں نہ پھر آپ کو خدا کہیے
دوست کہیے نہ آشنا کہیے
ہیں بَضِد ہم سے کُچھ جُدا کہیے
اُن کو کہیے اگر تو کیا کہیے
روگِ دِل کی نہ گر دوا کہیے
دردِ فرقت ہے اب سَوا کہیے
موت یا وہ، رہی دوا کہیے
جان کہتے ہیں، راحتِ جاں بھی !
بڑھ کر اِس سے بھی کیا خدا کہیے
اُن...
غزل
مجھ سے مِلنے شبِ غم اور تو کون آئے گا
میرا سایہ ہے جو دِیوار پہ جم جائے گا
ٹھہرو ٹھہرو، مِرے اصنامِ خیالی ٹھہرو !
میرا دِل گوشۂ تنہائی میں گھبرائے گا
لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دِلاسے مجھ کو
زخم گہرا ہی سہی، زخم ہے، بھر جائے گا
عزم پُختہ ہی سہی ترکِ وفا کا، لیکن
مُنتظر ہُوں کوئی آکر مجھے...